Laaltain

مہر منگ کی کہانی

2 نومبر، 2017
Picture of نقاط

نقاط

[blockquote style=”3″]

لوک دانش قدیم کہانیوں میں اہم عنصر کے طور پرشامل رہی ہے۔ بالخصوص خطہء پنجاب تو ایسی کہانیوںکا مرکز رہا ہے۔ جہاں نہ صرف یہ کہ پنچایت کے سرپنچ ہی اہم اور گھمبیر مسائل کو اپنے فہم و ادراک کے ذریعے حل کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ بلکہ ہر عمر اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے مرد و زن کے پاس اپنی طرز سے زندگی گزارنے کی توضیحات اور دلائل موجود تھے۔ یہاں تک کہ چوروں کے پاس چوری کرنے کے لیے بھی جواز اور طرح طرح کے طریقے موجود تھے۔

[/blockquote]

نقاط میں شائع ہونے والے مزید افسانے پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

سورج غروب ہوتے ہی دیوان سنگھ ٹھیکے دار کے گھر مہر منگ بڑی شان کے ساتھ آیا۔ باہر کے دروازے پر ٹھہر کے اونچی آواز سے کلام پڑھا۔ سارا خاندان، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کلام سننے لگا۔آہستہ آہستہ ڈیوڑھی سے گزر کے اندر کے دروازے کے پاس پہنچ کر بنساولی سنائی، ساتھ ہی ساتھ خاندان کی بڑھائیاں بیان کیں۔ ٹھیکیدار کے باپ کاہن سنگھ کا ذکر بہت بڑھا چڑھا کے کیا۔

مہر منگ نے صاف ستھرے اور بھلے کپڑے پہن رکھے تھے۔ جیسے کوئی باراتی ہو، تھوڑی سی ماوا لگا کے استری کی ہوئی سفید شلوار قمیص، سیاہ کوٹ، سنہری کُلے پر اکڑی ہوئی سفید پگڑی، جس کا ایک لمبا پلو لٹک رہا ہوتا۔ تلے والی جوتی،کیسری اور مہندی سے رنگی ہوئی داڑھی، پتہ نہیں لگتا تھا کہ اتنی دور سے آیا ہو گا یقینی بات تھی کہ گائوں کے نزدیک پہنچ کر اس نے کپڑے بدلے ہوں گے۔

جتی اُتار کے اندر آیا۔ کُلا اور کوٹ اُتار کے ایک طرف دھرے، پیڑھی لے کر بیٹھ گیا۔ اور ٹھیکیدار کے پاوں دبانے لگا ہاتھ، پاوں بھی دبائے جاتا اور بغیر وقفہ کیے باتیں بھی کیے چلے جاتا۔ نئے نئے واقعات سناتا، بچوں کے کان کھڑے رہتے ۔ دو کہانیاں چوروں کی ہوشیاری کی تھیں۔ اس کے کہنے کے مطابق اک چوری پچھلے کچھ دنوں میں ہوئی تھی اور ایک چوری ماہ دو ماہ پہلے۔

مویشی میلے پر بہت اعلیٰ نسل کے بیل آئے۔ کوئی خریدنے والا اور کوئی بیچنے والا۔ جیب تراش اور چور بھی پہنچ گئے۔ بیلوں کی ایک جوڑی بڑی پیاری تھی۔ چٹا سفید رنگ، کہیں کہیں کالیاں دھاریاں ۔۔۔۔ زور اتنا کہ اگر سہاگا کھینچیں تو بھاگتے بھاگتے میں آدمیوں کو پیچھے چھوڑجائیں۔اگر کنواں چلائیں تو ٹنڈیں تقریباً خالی نکلیں۔ چوروں نے پتہ لگا لیا کہ بیل کن لوگوں نے خریدے ہیں۔گاوں نہر کی دوسری جانب تھا۔

پتہ چلایا اور کنوئیں پر پہنچ گئے۔ مویشی خریدنے کے بہانے ارد گرد کا جایزہ لینے گئے۔ دوسری بار رات کو چلے آئے۔

دیکھا کہ بیلوں کے اگلے پیروں میں زنجیر یں بندھی ہیں۔ نہر کے پل پر پولیس کا پہرہ رات بھر رہتا تھا۔ سوچ سمجھ کے جانچ پرکھ کے مشورہ کرکے لوہار سے خاص طرح کی چابی بنوائی۔ دوبار کوشش کی لیکن کامیابی نہ ملی، پاس ہی کوئی چار پائی پر سویا پڑا ہوتا تھا۔ ایک رات، پہر گئے بیل کھولنے میں کامیاب ہو گئے اور سیدھے پل کی طرف چل پڑے۔ راستے میں ایک اور کنوئیں سے ہل پنجالی اور دو کسیاں چوری کیں۔ پل سے گزرنے لگے تو چارپائی پر آرام کر رہے پولیس والے نے کہا: رکو !کون ہو؟‘‘ جواب دیا۔ سامنے ہمارے کھیت ہیں۔ گاوں ہمارا اس طرف پڑتا ہے۔ صبح صبح ہل جوتنے چلے ہیں پولیس والے نے کہا۔ ’’جاؤ‘‘

کچھ دور پہنچ کے ہل پنجالی پھینک دیے اور بیلوں کو بھگا لے گئے۔

اگلی بار ایک اور گاوں میں پہنچے۔ بیلوں کی جوڑی چوری کی۔ راستے میں سے ایک بیل گاڑی چوری کی۔ بیلوں کو اس گاڑی میں جوت لیا۔ ایک چور کی ٹانگوں سے لہو میں لتھڑی پگڑی کا ٹکڑا لپیٹ دیا۔ ایک سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔ اور دوسرا پائوں، چوتھا، گاوں کو ہنکاتا چلا جائے۔ پل کے نزدیک پہنچ کے مریض بنے ہوئے چور نے ہائے ہائے شروع کر دی۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس والے نے پوچھا۔ کیا ہوا؟ بتایا کہ ہمارے بھائی کو کوڈیوں والے سانپ نے ڈس لیا ہے۔ ہم نے درانتی سے چیر کے زہر تو نکال دیا ہے۔ لیکن اب اسپتال لے کر جا رہے ہیں۔ پولیس والے نے کہا فٹا فٹ لے جاو۔!

ہوشیار،چور بیل گاڑی بھگا لے گئے۔

(کہانی گھر۔ شمارہ۔۱، ۲۰۱۱)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *