Laaltain

مہرگڑھ کی تہذیب علی گڑھ کے لونڈوں کی باقیات کو قبول نہیں!

5 مارچ، 2016

youth-yell

جون ایلیا نے بھی کیا خوب کہا تھا کہ “پاکستان یہ سب علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت تھی۔” علی گڑھ کے لونڈوں کے وارث اپنی تاریخ اور آباؤ اجداد سے اس قدر شرمندہ ہیں کہ اپنی جڑوں کو بُھلا کر اپنی شناخت کبھی عربوں، کبھی ایرانیوں، کبھی افغانوں اور نجانے دنیا کے کس کس خطے اور قوموں میں ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ علی گڑھ کے شرارتی لونڈوں کے پوتے نواسے پاکستان کے نام نہاد قلم کار اور تاریخ دان بن کر مہر گڑھ کی دس ہزار سال قدیم تہذیب اور تمدن کے وارث بلوچوں کوغیر مہذب لکھ کر اپنے احساس کمتری کو چُھپانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔

 

فرانز فینن ‘نسلی عصیبت اور ثقافت’ کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ “فرد کو عقلی طور پر کمتر ثابت کیے بغیراُسے غلام بنائے رکھنا ممکن نہیں”۔

 

قابض قومیں ہمیشہ محکوم اقوام کو خود سے کمتر ظاہر کرنے کے لیے مختلف کوششیں کرتی ہیں، تاریخ کو توڑ مروڑ کے مسخ شدہ حالت میں کتابوں میں شائع کیا جاتا ہے اور سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے
قابض قومیں ہمیشہ محکوم اقوام کو خود سے کمتر ظاہر کرنے کے لیے مختلف کوششیں کرتی ہیں، تاریخ کو توڑ مروڑ کے مسخ شدہ حالت میں کتابوں میں شائع کیا جاتا ہے اور سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے، اخباروں کے زریعے یا پھر ٹی وی کا سہارا لے کر ڈراموں میں محکوم اقوام کو مذاق کا نشانہ بنانے کے لیے اُنہیں غیر مہزب اور کم تر دکھایا جاتا ہے اور خود کو مہذب، اٖفضل و اعلٰی قوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ویسے تو ایسی بے تحاشہ مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح پاکستان کے نام نہاد دانشور بلوچ قوم اور بلوچستان کی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں مگر اس کی ایک واضح مثال گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر محوِ گردش پنجاب کے کالجوں میں پڑھائی جانے والی انٹرمیڈیٹ پارٹ ٹو کی “Sociology of Pakistan” کی انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب ہے جس میں بلوچ قوم کا تعارف نفرت انگیز طریقے سے مصنف نے کچھ یوں کرایا ہے:

 

۱) غیر مہذب لوگ جو ہمیشہ لڑائی اور مار دھاڑ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
۲) یہ لوگ صحراؤں میں رہتے ہیں اور قافلوں کو لوٹتے ہیں۔

 

second-year-sociology-laaltain

قبضہ گير کا بنيادی فلسفہ اور طريقہ کار يہی ہوتا ہے کہ نفسياتی جنگ ميں شدت لا کر محکوم قوم کے اندر يہ احساس بڑھایا جائے کہ وہ جاہل، غیر ہنرمند اور غير مہذب ہے جبکہ آقا جس نے قوم کو غلام رکها ہے وہ تہذيب يافتہ٬ ترقی يافتہ اور زندگی کے ہر شعبے ميں برتر ہے۔ يعنی غلام قوم اپنے آپ کو پيدائشی طورپر محروم اور کم تر تصور کرے۔

 

قلات کی آزاد ریاست پر قبضہ کرنے کے بعد گذشتہ سرسٹھ سالوں سے مار دھاڑ تو ریاست کر رہی ہے، گھروں پر بمباری، دیہاتوں کو صفحہِ ہستی سے مٹانا، ہزاروں نوجوانوں کو لاپتہ کرنا، ہزاروں کو حراستی قتل کے بعد اُن کی لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنا ۔۔۔۔ ریاستی جبر کی یہ مکروہ صورتیں، عالمی قوانین اور انسانی اقدار کی صریح خلاف ورزی ہیں جن کے ذریعے سے آپ خود کو مہذب ثابت نہیں کر سکتے۔

 

بنگالیوں، افغانوں، کشمیریوں اور بلوچوں کے خون سے جن کے ہاتھ رنگے ہیں غیر مہذب وہ ہیں بلوچ نہیں۔
بلوچوں کی سر زمین بلوچستان نہایت وسیع اور کشادہ ہے جس میں صحرا بھی ہیں، پہاڑی سلسلے بھی، ساحل بھی، چٹیل اور سر سبز و شاداب میدان بھی ہیں، ہمیں اپنی سرزمین کے ہر حصے سے محبت ہے، لیکن مصنف اسلام آباد اور لاہور کی عالیشان عمارتوں میں بیٹھ کر بلوچوں کی زبوں حالی کو طنز اور حقارت سے صحرا نشین قرار دیتا ہے۔ موصوف میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ یہ اقرار بھی کر سکیں کہ اِن صحراؤں اور پہاڑوں میں رہنے والوں کے قدرتی وسائل کو گزشتہ سرسٹھ سالوں سے لوٹا جا رہا ہے۔

 

بنگالیوں، افغانوں، کشمیریوں اور بلوچوں کے خون سے جن کے ہاتھ رنگے ہیں غیر مہذب وہ ہیں، بلوچ نہیں۔ بلوچوں نے کسی تزویراتی حکمت عملی کے تحت کہیں لشکر کشی نہیں کی، افغانوں کی تین نسلیں ہم بلوچوں نے برباد نہیں کیں، بنگالی عورتوں کی عصمت دری میں کوئی بلوچ ملوث نہیں، مذہبی انتہا پسندی کی سرپرستی بلوچوں نے نہیں کی، اپنا ثقافتی ڈی این اے کسی اجنبی سرزمین میں ہم نے تلاش نہیں کیا تو پھر خود ہی فیصلہ کیجیے کہ مہذب کون ہے، جنگجو کون ہے اور وحشت پسند کون ہے۔

 

بیرونی قوتیں جب بھی بلوچ سرزمین پر حملہ آور ہوئی ہیں تو بلوچستان کے بہادر سپوت آخری حد تک اپنی قومی تشخص کے لیے لڑے ہیں، تُرک، پُرتگیزی، انگریز یا کوئی بھی، بلوچوں نے سبھی سے لڑ کر اپنے وطن کی حفاظت کی ہے تو یہ بات علی گڑھ کے لونڈوں کی باقیات کو بھی سمجھ لینی چاہیئے کہ ہزاروں سال قدیم تہذیب مہرگڑھ کے وارث اپنے سرزمین کے لیے آخری دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *