Laaltain

مکروہ چہرے

21 دسمبر، 2015
اسٹیشن سے گاڑی چھوٹنے میں بس چند ہی لمحے رہتے تھے کہ اتنے میں چار نوجوان پلیٹ فارم کی حدود میں داخل ہو ئے۔ چاروں ہی اپنی شکل و صورت اور حلیے سے خاصے ‘ماڈرن’ معلوم ہو رہے تھے۔ نئے فیشن کی جینز، اداکاراؤں کی تصاویر والی ٹی شرٹیں،کلائیوں پر مختلف تاگے اوربریسلٹ باندھے، ہاتھوں میں موبائل ،کانوں میں ہینڈز فری لگائے وہ پلیٹ فارم پر ادھر سے اُدھر ٹہل رہے تھے۔ ایک نوجوان کے کندھے سے ذرا نیچے اور کہنی سے تھوڑا اوپر بدنامِ زمانہ ایکٹرس کا ٹیٹو بھی کُھدا ہوا تھا۔دوسرے کے پاس جو بیگ تھا اس میں سے ایک رسالہ باہر جھانک رہا تھا۔ تھوڑی دیر پلیٹ فارم پر مٹر گشت کرنے کے بعد چاروں نوجوان ایک ڈبے کی سمت بڑھے اور سیٹوں پر قبضہ جما لیا۔ کسی نے اونچی آواز میں گانا لگا یا تو کوئی چپکے چپکے فون پر باتیں کرنے لگا۔چونکہ گاڑی میں خواتین بھی موجود تھیں اس لیے ان کے ساتھ کے مردوں نے ان چاروں نوجوانوں کی موجودگی کو ایک ناپسندیدگی کے ساتھ قبول کر لیا۔

 

چاروں ہی اپنی شکل و صورت اور حلیے سے خاصے ‘ماڈرن’ معلوم ہو رہے تھے۔ نئے فیشن کی جینز، اداکاراؤں کی تصاویر والی ٹی شرٹیں،کلائیوں پر مختلف تاگے اوربریسلٹ باندھے، ہاتھوں میں موبائل ،کانوں میں ہینڈز فری لگائے وہ پلیٹ فارم پر ادھر سے اُدھر ٹہل رہے تھے۔
ابھی یہ چاروں نوجوان اپنی سیٹوں پر بیٹھے ہی تھے کہ پندرہ سولہ آدمیوں کا گروہ پلیٹ فارم پر آن دھمکا، سب کے سب باریش اور ایک سے سفید لباس پہنے ہوئے، شلواریں ٹخنوں سے اونچی، یہ لمبی ڈاڑھی اور مونچھیں صفا چٹ۔ سب کے کندھے پر سامان تھا جس میں جائے نمازپانی کی بوتل اور لوٹا نمایاں تھا۔ یہ سب جانتے تھے کہ گاڑی چھوٹنے میں زیادہ دیر نہیں رہ گئی اس لیے کوئی بھاگم بھاگ وضو کرنے لگا تو کسی کو مسواک گیلی کرنے کی سوجھی۔ جب گاڑی نے روانگی سے قبل سیٹی بجائی تو سب ایک ڈبے کے پاس اکھٹے ہو گئے اور ان میں سے ایک پختہ عمر کے شخص کے ارد گرد ہاتھ باند ھ کر اکھٹے ہو گئے۔ پختہ عمر کا آدمی ان کا امیر تھا۔ امیر نے کہا “حضرات ! سفر پر جانے کی دعا پڑھ لیجیے۔ اگرچہ سفر مختصر ہے لیکن میرا حکم ہے کہ سب ساتھی ہر اسٹیشن پر اترکر اپنے دیگر ساتھیوں کے متعلق با خبر رہیں۔” یہ کہتے ہی امیر نے سب کو اشارہ کیا اور وہ تمام ایک ایک کر کے الگ الگ ڈبوں میں بیٹھ گئے۔

 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

آخرش سفر شروع ہوا۔ چار نوجوان جس ڈبے میں بیٹھے تھے اسی میں امیر کا ایک ساتھی بھی موجود تھا۔ اس نے نوجوانوں کو دیکھ کر آنکھ بھوں چڑھائی اور تھوڑی دیر بعد اپنے سامان سے کتاب نکال کر پڑھنے لگ گیا۔ نوجوان اس کے وجود سے بے خبر اپنے کام میں مصروف رہے۔ ڈبے کی باقی سواریاں بھی منزل پر خیرو عافیت سے پہنچنے کی دعا مانگ رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ سفر کو آسان بنانے کی مختلف تراکیب آزما رہی تھیں۔ کوئی اپنے ہم سفر کے ساتھ باتو ں میں لگ گیا تو کسی نے موبائل میں پناہ ڈھونڈی۔ سگریٹ نوش دروازے کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور لڑکیاں کانوں میں کھسر پھسر کرنے لگ گئیں۔ تھوڑی دیر بعد آدمی نے کتاب بند کی، ڈبے کی سواریوں کو ایک نظر دیکھا گلا کھنکار کر سواریوں سے مخاطب ہوا “خواتین و حضرات! جس طرح ہم اس وقت سفر کر رہے ہیں اور منزل پر پہنچنے کے انتظار میں وقت گزار رہے ہیں ٹھیک ویسے ہی یہ دنیا بھی مسلمان کے لیے سفر ہی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی اصل منزل، اصل گھر آخرت ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ایسے اعمال کریں جس سے ہمیں آخری اور اصلی منزل کی ٹکٹ آسانی سے مل جائے۔ اللہ ہم سب کو نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ میں دو ہی دن قبل عمرے کی سعادت حاصل کر کے وطن واپس لوٹا ہوں۔ آپ سب میرے مسلمان بہن بھائی ہیں اس لیے بطور تبرک آپ کو یہ آب زم زم پیش کرتا ہوں”۔ یہ کہہ کر اس آدمی نے بوتل میں سے تھوڑا تھوڑا پانی سب کو پلانا شروع کیا۔ ڈبے کی فضا میں یکلخت ہی نور چھا ساگیا۔ عین اسی لمحے جب آدمی یہ تقریر کر رہا تھا ایک دوسرے ڈبے میں بیٹھا اس کا امیر بھی یہی باتیں کر رہا تھا۔ اس ڈبے کی سواریوں میں موجود ایک عورت اپنے چھ ماہ کے بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔ اس نے جب یہ باتیں سنیں تو اس کے چہرے پر فوراً ہی امیر کے لیے عزت کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ اس نے دل ہی دل میں دعا مانگی “کاش میرا بیٹا بھی بڑا ہو کر انہی مولوی صاحب جیسا بنے”۔

 

“حضور! آپ کی دعا سے خیرو برکت رہی۔ میں جس ڈبے میں تھا اس میں شادی سے واپس گھروں کو جانے والے خاندان تھے۔ وہ ڈبہ بڑا ہی با برکت تھا۔ میں نے تقریر ختم کرنے کے فوراً بعد انہیں پانی پلایا ۔ کافی مال اکھٹا ہو گیا ہے۔ “
٭٭٭٭٭٭٭٭

 

گاڑی سیٹیاں بجاتی، ہچکولے کھاتی اور دھول اڑاتی مختلف چھوٹے موٹے اسٹیشنوں پر رکتی رہی۔ ہر اسٹیشن پر ڈبے میں موجود اور کوئی سواری اترے نہ اترے ڈاڑھی والے حضرات ضرور اترتے۔ ایک دوسرے سے تھوڑی دیر کے لیے کچھ جملوں کا تبادلہ کرتے، اور دعائیں دیتے ہوئے اپنے ڈبے میں بیٹھ جاتے۔ ایک اسٹیشن پر چاروں نوجوان بھی اترے۔ ایک سگریٹ پینے لگ گیا جب کہ دو چائے لینے کے لیے دوڑے۔ چوتھا ابھی بھی ہلکی آواز میں فون پر باتیں کرتے ہوئے زیرِ لب مسکرا رہا تھا۔ جب گاڑی چلنے لگی تو بھاگا لیکن کیونکہ دھیان کسی اور طرف تھا اس لیے پائیدان پر پاؤں رپٹا۔ وہ تو شکر ہوا کہ اس کے ساتھی نے سنبھال لیا ورنہ کچھ اور ہی منظر ہوتا۔

 

٭٭٭٭٭٭٭٭

 

تھوڑی دیر مزید گزری تو صبح کی سپیدی کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے۔گاڑی بھی اپنی منزل پر پہنچنے ہی والی تھی۔ سواریاں جو سو رہی تھی وہ جاگ گئیں اور آنکھیں مسلتے سیٹ پر چوکنا ہو بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی اپنی منزل پر پہنچ گئی اور مسافر اترنے لگے۔ چاروں نوجوان اسٹیشن پر اترے ایک دوسرے سے گلے ملے، شام کو ایک کلب میں ملنے کا پلان بنایا اور اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے اسٹیشن سے باہر نکل گئے۔ امیر اور اس کے ساتھی اسٹیشن پر اکھٹے ہو گئے۔ جب سب پورے ہو گئے تھے تو باجماعت چلنا شروع کر دیا۔ اس دفعہ ان کے ساتھ دو نوعمر بچے بھی تھے۔ یہ سب لوگ ا سٹیشن سے تھوڑی ہی دور ایک نسبتاً ویران سی مسجد میں چلے گئے۔ امیر نے دیوار سے ٹیک لگا لی جب کہ باقی سارے اس کے سامنے بیٹھ گئے۔ امیر نے کہا “ہاں تو ساتھیو! کیسا رہا سفر؟”

 

تیسرا بولا “میں جس ڈبے میں تھا اس میں چار نوجوان تھے۔ چاروں ہی بڑے فیشنی تھے، پہلے تو وہ بات ہی نہیں سن رہے تھے لیکن میں نے بھی آپ کی دعاؤں کی بدولت انہیں رام کر ہی لیا۔ یہ نقدی ان سے برآمد ہوئی ہے”۔ اس نے پیسے صف پر رکھتے ہوئے کہا۔
اس پر ایک آدمی بولا “حضور! آپ کی دعا سے خیرو برکت رہی۔ میں جس ڈبے میں تھا اس میں شادی سے واپس گھروں کو جانے والے خاندان تھے۔ وہ ڈبہ بڑا ہی با برکت تھا۔ میں نے تقریر ختم کرنے کے فوراً بعد انہیں پانی پلایا ۔ کافی مال اکھٹا ہو گیا ہے۔ “دوسرا روہانسی آواز میں بولا “میں جس ڈبے میں تھا اس میں تین تو فوجی تھے، دو چھوٹے بچے اور باقی ساری عورتیں تھیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ بچے کزن ہیں اور گھر سے بھاگے ہوئے ہیں۔ فوجی ابھی ایک اسٹیشن پہلے اترے ہیں اس لیے میں پانی نہیں پلا سکا کسی کو۔ اورآپ جانتے ہیں عورتوں سے ہمیں کوئی کام نہیں ہے۔ یہ دو بچے ہی نظر آئے انہیں ہی اپنے ساتھ لے آیا ہوں۔ یہ آگے چل کر ہمارے بہت کام آئیں گے”۔ بات ختم کرتے ہی وہ کمینی ہنسی ہنسنے لگا۔ تیسرا بولا “میں جس ڈبے میں تھا اس میں چار نوجوان تھے۔ چاروں ہی بڑے فیشنی تھے، پہلے تو وہ بات ہی نہیں سن رہے تھے لیکن میں نے بھی آپ کی دعاؤں کی بدولت انہیں رام کر ہی لیا۔ یہ نقدی ان سے برآمد ہوئی ہے”۔ اس نے پیسے صف پر رکھتے ہوئے کہا۔

 

“اور ہاں! ایک اور چیز بھی ہے لیکن میرا خیال ہے اس کی کسی کو ضرورت نہیں ہے۔”
“کیا ہے وہ چیز ؟” امیر نے پوچھا۔
“وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔” آدمی ہکلایا۔
“بتاؤ جلدی ۔ تمہیں پتہ نہیں ہے کہ ہمارا اصول ہے کہ ہم ہرچیز میں ایک سا حصہ رکھتے ہیں۔”اب کی بار امیر جھنجلاہٹ اور غصے سے بولا۔
اس پر اس آدمی نے اپنے نیفے میں اڑسا ہوا رسالہ نکالا، رسالے پر ہیجان خیز عریاں تصاویر بنی ہو ئی تھیں۔

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *