[blockquote style=”3″]
عرضِ مصنف: پاکستانی فلم "مُور” پاکستانی سینماؤں میں نمائش کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ تبصرہ تب لکھا تھا جب مُور پہلی بار دیکھی. اب یہ تبصرہ ایک بار پھر اس لیے پیش کیا جا رہا ہے کیونکہ مُور دوبارہ سینماؤں کی زینت بن رہی ہے۔ انگریزی زُبان میں تو مُور پر بہت کچھ لکھا جا چُکا ہے۔ سوچا کہ پیاری اُردو اِس سے کیوں محروم رہے؟ سو، ایک طالب عِلمانہ کوشش کی ہے اپنی پسندیدہ فلم پر ایک مختصر نوٹ لکھنے کی؛ قبول فرمائیے۔
[/blockquote]
پاکستانی فلم انڈسٹری کے احیاء کی کوششیں کافی عرصے سے جاری تھیں۔ گاہے بگاہے اچھی فلمیں بھی دیکھنے کو مل رہی تھیں۔ خدا کے لیے، بول، میں ہوں شاہد آفریدی، زندہ بھاگ، جلیبی، نامعلوم افراد، گڈ مارننگ کراچی، دُختر، آپریشن زیرو ٹو ون، اور وار جیسی فلمیں بہرحال بہتری کی طرف ایک ایک قدم تصور کی جا سکتی ہیں۔ اس کڑے سفر میں نئے ڈائریکٹرز، نئے اداکار اور نئے موسیقار متعارف ہوئے؛ اور نئے سینما گھر بھی تعمیر ہوئے۔ ارتقاء ہو یا احیاء، اس کی رفتار سست ہوتی ہے۔ یہی مقسوم ہے۔ مگر بعض اوقات کوئی ایک جست، ایک چھلانگ لگتی ہے اوربہتری کی طرف بہت سارا سفر چشم زدن میں طے ہو جاتا ہے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے احیاء کا سفر بھی اپنی مخصوص رفتار سے جاری تھا کہ ایسے میں اچانک "مُور” ریلیز ہوئی۔ اگرچہ "مُور” کے ساتھ پانچ دیگر فلمیں بھی ریلیز ہوئیں۔ تین ’بِن روئے، کراچی سے لاہور اور رانگ نمبر‘ عیدالفطر پر جبکہ دو’دیکھ مگر پیار سے اور شاہ‘ یومِ آزادی پر؛ مذکورہ پانچ فلمیں ایک ایک قدم ہی کہلائی جا سکتی ہیں مگر حیران کُن حد تک باصلاحیت ڈائریکٹر "جامی” کی "مُور” جسے یومِ آزادی پر ریلیز کیا گیا، احیاء کے سفر میں ایک جست ثابت ہوئی۔
پاکستانی فلم انڈسٹری کے احیاء کا سفر بھی اپنی مخصوص رفتار سے جاری تھا کہ ایسے میں اچانک "مُور” ریلیز ہوئی۔
"مُور” کے ساتھ جدید پاکستانی فلم نئے دور میں داخل ہو گئی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ اس فلم کے تمام ڈیپارٹمنٹس پر ایک بھر پور تحقیقی مقالہ لکھا جائے، فلم کے اسٹوڈنٹس کو اسائنمٹ دی جائے کہ اِس کے تمام شعبوں پر تحقیق کریں اور اپنا مقالہ تحریر کریں، یا ایک ڈیپارٹمنٹ پر ایک طالبعلم کو مامور کیا جائے تاکہ کم از کم مندرجہ ذیل پہلوؤں پر محققانہ اور ناقدانہ زاویے سے کی گئی بات ناظرین اور قارئین تک پہنچ سکے:
ا۔ مُور کی اسٹوری کیا ہے؟ اس میں ڈرامائی عناصر کی موجودگی کی اہمیت اور کہانی کی اصالت
ب۔ مُور کا اسکرین پلے کیسا ہے؟ اس میں انٹروڈکشن، پروگریشن، کلائمیکس اور ریزولیوشن کس انداز سے وارد ہوتے ہیں؟ فلیش بیک کی تکنیک استعمال کرنا کیوں ضروری تھا؟ پلاٹ پوائنٹس کون کون سے ہیں؟ سب پلاٹس کیا کیا ہیں وغیرہ
ج۔ مُور کے مکالموں میں کتنی جان ہے؟ کرداروں کی اُن کی زبان کے ساتھ کتنی مانوسیت ہے؟ مکالموں کی طوالت مناسب ہے؟ ہر کردار کا اُس کی زبان، اور مکالمہ ادا کرنے کا الگ الگ تجزیہ
د۔ مُور میں کیا کہیں ‘مِس کاسٹنگ’ بھی ہوئی؟ یا تمام فنکار اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کرتے دِکھائی دیتے ہیں؟
ر۔ شاٹ ٹیکنگ کیسی ہے؟ کن زاویوں سے سبجیکٹ کو شُوٹ کیا گیا ہے؟ اِس زاویے کی کانوٹیشن کیا ہے اور ڈینوٹیشن کیا؟
س۔ چند منتخب فریمز کے "میز آن سین” کا اجمالی تعارف اور جائزہ
ش۔ کلر پیلیٹ کا استعمال کس تناسب سے کیا گیا ہے اور اس کی کہانی سے مناسبت کیا ہے اور معنویت کیا؟
ص۔ ساؤنڈ ڈیزائن کیسا ہے؟ کیا کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتا ہے؟ کیا تصویر کے اثر کو بڑھاتا ہے یا کم کرتا ہے؟ فولی کتنی اچھی تھی اور کتنی سنکرونائزڈ تھی؟ ڈائجیٹک اور نان ڈائجیٹک ساؤنڈز کہاں تھیں اور کیوں؟
ض۔ بیک گراؤنڈ اسکور نے تصویر پر کیا اثرات چھوڑے؟ اور ناظر پر بھی؟
ط۔ پوسٹ پروڈکشن میں ایڈیٹنگ اسٹائل کیسا تھا؟ فلیش بیک میں کلر گریڈنگ کا استعمال درست تھا کہ نہیں؟ اس کی معنویت کیا تھی؟ مُور میں صوتی اور بصری علامتوں کا کہاں کہاں استعمال کیا گیا؟ کیا سی جی آئی کا استعمال بھی ہوا؟ آفٹر ایفیکٹس بھی استعمال ہوئے؟
ظ۔ پوائنٹ آف ویو شاٹس اور ساؤئڈز کہاں کہاں تھے؟ اور کیوں تھے؟
ع۔ لائٹ کے زاویے، شدت، ٹَون، شیڈوز یعنی سائے، اور عکس، وغیرہ کا مکمل تعارف؛ برف میں اور دھوپ میں اوریجنل لائٹس اور ریفلیکٹرز کیسے، کون کون سے اور کہاں کہاں استعمال ہوئے، پوسٹ میں کہاں کہاں لائٹ کنٹرول کرنا پڑی، اور اس میں کتنی کامیابی ہوئی؟
غ۔ اداکاری کے شعبے میں تمام افراد کی کارکردگی کا جائزہ، اُن کے کاسٹیوم سے لے کر چہرے کے تاثرات، مکالمے کی ادائیگی، جسم کی حرکت، آواز کا زیروبم وغیرہ، تمام پر ایک طائرانہ نظر۔
ف۔ سینماٹوگرافی کیسی تھی؟ اور ڈی او پی کی کارکردگی کا ایک جائزہ۔
ق۔ پراپس کی معنویت۔ سیٹ اور سیٹنگ پر ایک ناقدانہ نظر
ک۔ کہانی، میوزک اور شاعری کی بِیٹس پر ایڈیٹنگ میں کَٹ کیسے لگایا گیا، اور اُس کٹ سے نئی معانی نے جنم لیا یا نہیں؟
گ۔ ناظرین کا مُور کے حوالے سے سینیمیٹک ایکسپیرینس کیسا رہا؟ کیا حُب الوطنی، ویوژل لطف، صوتی مسرت وغیرہ ایسے تمام احساسات اُجاگر ہوئے؟
ل۔ یانرا کیا بنتا ہے؟ کیا صرف ڈرامہ یانرا کہہ دینا کافی ہے؟ کس حد تک رئیلسٹک ہے اور کس حد تک اسٹائلسٹک؟ کیا ہم اِسے واقعی ایکسپیریمنٹل کہہ سکتے ہیں؟ یا ہائبرڈ یانرا ہے؟
م۔ محقق کے ریکمنڈیشنز اور تحفظات کیا ہیں؟
ان، اور ان سے منسلک سے دیگر نکات پر تفصیلی کام کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرِ دست، خاکسار ایک مختصر تاثراتی جائزہ پیش کرتا ہے:
مُور سے پہلے جامی نے آپریشن زیرو ٹو ون بنائی۔ اس فلم سے جامی کے دبستانِ فلم سازی کا اندازہ ہو رہا تھا کہ آئندہ بحیثیت ڈائریکٹر جامی کیسا کام کریں گے۔ مُور، جامی کے کیریر میں اس حوالے سے ایک خوشگوار اضافہ ہے۔ اس فلم میں سب سے پہلی چیز جو ناظر کی توجہ حاصل کرتی ہے وہ شاٹ ٹیکنگ اور ساؤنڈ ڈیزائن ہے۔ مناظر جس انداز سے عکسبند کیے گئے ہیں اور ان کو جن آوازوں کے ساتھ ملا کر سینما میں بیٹھے ہوئے ناظرین کو پیش کیا گیا ہیں، وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ مناظر کہیں تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں اور کہیں اتنا دھیرے دھیرے کہ ناظر خود کو اُس منظر کا حصہ سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ایڈیٹنگ کی رفتار میں یہ تبدیلی دراصل کہانی کا ٹمپو کنٹرول کرنے کے لیے ہے۔
مُور کی کہانی بلوچستان کے دور دراز علاقے بوستان سے ژوب کے درمیان ریلوے ٹریک پر ایک معدوم ہوتے ہوئے ریلوے اسٹیشن اور اُس کے اسٹیشن ماسٹر کے خاندان کی کہانی ہے۔ یہ نفسیاتی اور معاشرتی کشمکش کی کہانی ہے۔ بے پناہ دباؤ میں اعلٰی اخلاقی اقدار اور سچ کی جیت کی کہانی ہے۔ یہ کہانی بدعنوانی کے خلاف پاکستانیت کی جیت کی کہانی ہے۔
کہانی آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہے اور ناظر پر اپنا آپ کھولتی چلی جاتی ہے۔ مگر یہ اُسی ناظر پر کھلتی ہے جو پیچدار اور تہہ دار کہانیاں دیکھنے اور سننے کا عادی ہو۔ عام ناظر کے لیے مُور کی کہانی کی تہیں کھولنا ایک مشکل کام ہے، لہٰذا، اُسے کہیں کہیں بوریت کا احساس ہونے لگتا ہے۔
مگر جیسا کہ مُرشد رُومی نے کہا؛ طعمہِ ہر مُرغکِ انجیر نیست؛ یعنی ہر پرندہ انجیر جیسا عُمدہ پھل کھانے کا اہل نہیں ہوتا، سو مُور بھی ہر ناظر کی فلم نہیں۔ مگر اِسے ہر ناظر کے لیے ذرا سی مزید توجہ دے کر بنایا جا سکتا تھا۔
ہمیں کہنے دیجئے کہ اسکرین پلے رائٹر اگر اس مشکل پر قابو پا لیتا تو اِس صورتِ حال سے بچا جا سکتا تھا۔ اسکرین پلے رائٹر کانفلکٹ کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اُجاگر کرتا رہے تو فلم بِین کی توجہ اسکرین پر مرکوز رہتی ہے۔ اسکرین پلے کی اس خامی کو مگر حیران کُن حد تک دل موہ لینے والی سینماٹوگرافی نے پورا کر دیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ جو ناظرین انٹروَل تک فلم کی کہانی کی پروگریشن کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں بنا رہے تھے، وہ فلم کے اختتامی مناظر پر اپنی نشستوں سے اُٹھ کر تالیاں بجا رہے تھے۔
اگرچہ مُور کا میوزک بہت اچھا ہے۔ اور شاعری بھی مناسب ہے مگر یہ شاعری مزید بہتر ہو سکتی تھی۔ ہمارے خیال میں فلم میکنگ سکھانے والے اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے کورسز کی ابتداء شاعری کے کورس سے کریں۔ تاکہ ڈائریکٹرز نہ صرف اچھی شاعری منتخب کریں، بلکہ یہ شعری اپروچ اُن کے ویوژل کام میں بھی جھلکے۔ فلم علامت اور استعارے کا موثر استعمال، فریم میں تہہ دار معانی سمونا، اور لطیف انداز میں سٹوری ٹیلنگ کی مشق اعلیٰ شاعری پڑھنے سے ہی ممکن ہے۔
اداکاری کے شعبے میں اکا دُکا استثنیات کے ساتھ سبھی نے متاثر کُن پرفامنس دی۔ جوشندر اور سونیا ہو یا عبدالقادر، حمید شیخ ہو یا سمیعہ، گاؤں کے ماسٹر جی ہوں یا للو؛ تمام لوگوں نے بہترین اداکاری کی ہے۔ ایاز سمو کو البتہ مزید محنت کی ضرورت ہے۔ اور، شاز خان کو لیڈ رَول کے بجائے کوئی اور رَول دے دیا جاتا تو بہتر تھا۔ فلم آخر فلم ہوتی ہے۔ اِس کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ اگرچہ شاز نے بہت محنت کی جو صاف نظر آ رہی تھی، مگر جامی اگر اِحسان کے رَول کے لیے کسی منجھے ہوئے اداکار کو منتخب کر لیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ مزید برآں، بعض جگہوں پر کیمرہ بلاوجہ پین، ٹریک ان، ٹریک آؤٹ، اور ٹِلٹ کیا گیا۔ بعض جگہ جِب/کرین کا عمدہ استعمال کیا گیا ہے۔ اور آخر میں جیپ کے دروازے پر پڑتے عکس کی مدد سے گرفتاری دِکھانے سے منظر میں معانی کی ایک نئی جہت پیدا ہوئی۔ جس کا بہت لُطف آیا۔
مُور کی لاتعداد خُوبیاں، اس کی چند خامیوں پر یوں حاوی ہیں جیسے پھول اپنے رنگ، جسامت اور حُسن کی وجہ سے اپنے نیچے موجود کانٹوں کو چھپا لیتا ہے۔
مُور اپنے موضوع، اپنے کرافٹ، اور اپنے ڈائریکٹر جامی کی جرات آمیز پیشکش کے انداز کے باعث ایک یادگار فن پارہ بن گئی ہے۔ یہ مدتوں یاد رہنے والی فلم ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ یہ دیکھنے والے کی شخصیت کا حصہ بن کر ہمیشہ اُس کے ساتھ رہے گی۔
Leave a Reply