جب مولانا رومی تصوف سے چھلکتی ہوئی اپنی شاعری سے صرف ایران ہی نہیں، بلکہ سارے عالم اسلام کو اپنا گرویدہ بنا رہے تھے توکیا کولمبس نے امریکا دریافت کر لیا تھا یا نہیں، سوال یہ نہیں ہے۔ سیدھا سادہ سوال یہ ہے کہ مولانا جلا ل الدین رومیؔ کو ایران سے چل کر امریکا تک پہنچنے میں اتنی صدیاں کیوں لگیں؟ دیر آید درست آید! خبر یہ ہے کہ اب اکیسویں صدی میں مولانا کے یہاں پہنچتے ہی جیسے سارا امریکا ان کے سامنے بچھ گیا ہو۔ اس کی اکلوتی وجہ یہ ہے کہ امریکا میں کسی بھی شاعر، فنکار، ایکٹر، رقّاص، یا گلو کار کو قبول عام کی سند حاصل کرنے کے لیے اس عظیم ملک کے شوبز show biz کے مرکز یعنی ہالی وُڈ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ مولانا رومی جیسا مقّدر تو کوئی ہی رکھتا ہو گا، کیونکہ ان کی “با ادب با ملاحظہ ہوشیار!” آمد کی خبر سنتے ہی ہالی وُڈ کے دروازے ان کے لیے وا ہو گئے، خوش آمدید کے زرّین قالین بچھ گئے اور اب وہ اپنے صوفیانہ کلاہ اور ریش دراز کے ساتھ قبول عام کی کرسیٔ صدارت پر جلوہ افروز ہیں۔
امریکا میں کسی بھی شاعر، فنکار، ایکٹر، رقّاص، یا گلو کار کو قبول عام کی سند حاصل کرنے کے لیے اس عظیم ملک کے شوبز کے مرکز یعنی ہالی وُڈ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔
کچھ سال پہلے ہی امریکا کے ’پاپ کلچر‘ Pop Culture کے ایک نئے ہندوستانی نژاد گرو نے مولانا رومی کی شاعری کو انگریزی کے جدید امریکی روز مرہ یعنی عام بول چال کی street language میں ترجمہ کرنے کے بعد انہیں ہالی وُڈ کے چوٹی کے موسیقاروں اور گلوکاروں کے تعاون سے اک سی ڈی کی شکل میں جب پیش کیا تو ہالی وُڈ تو کیا، پورا شمالی امریکا مولانا کے قدموں تلے بچھ گیا۔ یہ ہیں پاپ کلچر اور یوگا ابھیاس کے جانے مانے ہوئے گرو دیپک چوپڑا جنہیں ہالی وُڈ کی ماڈل حسیناؤں، چوٹی کے پروڈیوسروں، اداکاروں اور کروڑ پتی فلم سازوں کی سرپرستی حاصل ہے۔
اس سی ڈی کے کتنے ہزار یا کتنے لاکھ البم اب تک بک چکے ہیں، اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ بزنس کے ماہر یار لوگوں نے کتنی جعلی C.Ds بنائی ہیں اس کا بھی کوئی اندازہ نہیں ہے۔ ہاں، اندازہ ہے تو اس بات کا ہے کہ یہ سی ڈی ہر اس گھر میں موجود ہے جو دیپک چوپڑا یا گلوکارہ میڈانا کا گرویدہ ہے، جس نے مولانا رومی کی “شاعری” کو اپنی آواز کا جادو عطا کیا ہے۔
اس سی ڈی کا نام Gift of Love ہے۔ مولانا رومی کے شعروں کا ترجمہ گیتوں کی شکل میں کیا گیا ہے اور مترجم ہیں: ڈاکٹر دیپک چوپڑا! ڈاکٹر صاحب پنجابی نژاد ہیں اور امریکا میں یوگا سکھانے والے گرو کے طور پر ان کی شہرت مسّلمہ ہے۔ یوگا ابھیاس کے درجنوں سینٹر ان کی رہنمائی میں چلتے ہیں اور یہ ایسے تربیتی کیمپ بھی آرگنائز کرتے ہیں جن میں دولتمند بوڑھی عورتیں اور مرد اپنی گئی گزری جوانی کو دوبارہ واپس لانے کے جتن کرتے ہیں۔ ہالی وُڈ کی حسینائیں اپنی جوانی کو سدا بہار رکھنے کے لیے لاکھوں ڈالر دے کر ان سے یوگا کی تربیت لیتی ہیں۔ ڈاکٹر چوپڑا ایک کامیاب ناول نگار بھی ہیں۔ ان کے ناول ادبی لحاظ سے کہتر ہونے کے باوجودخوب بکتے ہیں کیونکہ یہ ناول عام طور پر ہندو مت کی روحانی تعلیمات کا رشتہ مغرب کی مادی اقدار سے جوڑنے کے مرکزی خیال پر انحصار رکھتے ہوئے ان عجیب و غریب واقعات اور کرداروں پر مبنی ہوتے ہیں، جنہیں امریکی قارئین شوق اور انہماک سے پڑھتے ہیں۔
الف لیلہ اور امیر حمزہ کی داستانوں کے ترجمے جب انگریزی میں ہوئے تو یہی تصور پختہ ہوا کہ مشرق وسطیٰ کے لوگ اسی مقولے پر کاربند ہیں: بابرؔ بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست!
“گفٹ آف لو” کی تیاری میں جن اہم ہستیوں نے کاروباری سطح پر ڈاکٹر چوپڑا کو تعاون دیا ان میں مقبول و معروف موسیقار فلپ گلاسؔ کا نام سر فہرست ہے۔ گلوکاروں میں کچھ نام تو بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ ان میں شہرہ آفاق گلو کارہ میڈونا بھی شامل ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنی جوانی کو سدا بہار، شاداب اور تر و تازہ رکھنے کے لیے وہ جس یوگا ابھیاس کی مرہون منّت ہے، وہ دیپک چوپڑا صاحب کا ہی سکھایا ہوا ہے۔ دیگر شرکاء میں مارٹن شینؔ، گولڈی ہانؔ اورڈیمی مورؔ ہیں، اور ان کے نام اس بات کی ضمانت ہیں کہ سی ڈی کے گانے اعلیٰ پائے کے ہیں۔
اب آئیں، وہ سوال پوچھیں جو آپ کے اور میرے دل میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ وہ کیا جادو ہے جو اتنی صدیوں کے بعد سر چڑھ کر بول رہا ہے؟ مولانا رومی تو شمس تبریز کے عقیدت مند اور بزرگ صوفی شاعر تھے۔ ان کا دیپک چوپڑا صاحب اور ہالی وُڈ کے کروڑ پتی اداکاروں اور ڈائریکٹروں سے کیا واسطہ؟ کہیں کچھ دال میں کالا ہے۔ آئیے، اسے تلاش کریں۔ صورتحال یہ ہے کہ آج سے لگ بھگ دو صدیاں پیشتر جب فٹز جیرالڈ نے عمر خیام کی رباعیات کا ترجمہ کیا تو ایک ایسے غلط تصور کی بنیاد پڑی، جو آج تک قائم ہے۔ تب یہ فرض کر لیا گیا کہ عرب اور عجم کی جملہ شاعری صرف ایک قدر راسخ سے وابستہ ہے، اور وہ ہے شراب و شباب یا حسن و عشق۔ اس سے قبل بھی الف لیلہ اور امیر حمزہ کی داستانوں کے ترجمے جب انگریزی میں ہوئے تو یہی تصور پختہ ہوا کہ مشرق وسطیٰ کے لوگ اسی مقولے پر کاربند ہیں: بابرؔ بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست! اور اس خطّے کا ادب بڑی حد تک عیش و عشرت اور حسن پرستی کے موضوعات کو ہی لے کر لکھا گیا ہے۔
یہ 1975عیسوی کے وسط کی بات ہے کہ یونیورسٹی آف جارجیا کے پروفیسر کولین بارکس نے رومی کی غزلوں اور رباعیوں کو انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ان کی کتاب کا نام The Essential Rumi تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کی اب تک پانچ لاکھ جلدیں فروخت ہو چکی ہیں، لیکن پروفیسر بارکس پہلے اسکالر نہیں ہیں جنہوں نے مولانا رومی سے مصافحہ کیا ہو۔ یہ آج سے آٹھ برس پہلے کی بات ہے ۔ راقم الحروف تب یونیورسٹی آف دی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا واشنگٹن ڈی سی سے منسلک تھا۔ پروفیسر کولین بارکس سے ایک ٹیلیفون انٹرویو کے لیے استدعا کی تو وہ مان گئے۔ بات چیت کے دوران انہوں نے ایک عجیب و غریب داستان سنائی جس کا خلاصہ یہ ہے۔
یوں ہوا، انہوں نے بتایا، کہ ایک دن ان کے پاس معروف امریکی شاعر رابرٹ بلائیؔ آئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک کرم خوردہ کتاب تھی۔ یہ انیسویں صدی میں مطبوعہ مولانا رومی کی غزلیات اور رباعیات کا ایک ترجمہ شدہ مجموعہ تھا۔ بلائیؔ نے انہیں کندھوں سے پکڑ کر کرسی پر بٹھایا اور کہا، “جب تک میں اس کتاب سے پڑھتا رہوں گا، تم کرسی سے اٹھو گے بھی نہیں اور کچھ بولو گے نہیں!”
وہ جادو کیا ہے جو مولانا رومی کی شاعری میں سر چڑھ کر بولتا ہے اور جس نے مغرب کے عیش پرست اور لا دین اشرافی کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔
ایک استفسار کے جواب میں کول مین بارکس نے کہا، “میں کرسی سے کیسے اٹھ سکتا تھا؟ جب تک رابرٹ بلائی مجھے پڑھ کر سناتا رہا، میں مبہوت سا، خمار اور نشے کی حالت میں بیٹھا سنتا رہا۔” اور تب رابرٹ بلائیؔ نے جیسے تحمکانہ لہجے میں مجھے کہا، “یہ الفاظ پنجرے میں بند پرندوں کی طرح پھڑپھڑا رہے ہیں۔ انہیں ان کے پنجرے سے آزاد کر دو!”
The Essential Rumi کا جنم اس گفتگو کے ایک برس کے بعد، یعنی 1975 میں ہوا۔ اور وہی کتاب “ملآئے رومی” اب اتنے لاکھ جلدوں میں فروخت ہو چکی ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر رومی سے متعلق درجنوں ویب سائٹس موجود ہیں۔ شائقین آن لائن کتب فروشوں، مثلاً “ایمے زان” سے اسے خرید سکتے ہیں۔ رسالوں، اخباروں، نیوز لیٹرزاور فلائیرز سے “ملائے رومی” کے بارے میں نئی نئی باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں۔ Nigel Watts کی ایک ڈاکوماینٹری The Way of Love اسی سلسلے یعنی مولانا رومی کو کمرشلائز کرنے کی ایک کڑی ہے۔
وہ جادو کیا ہے جو مولانا رومی کی شاعری میں سر چڑھ کر بولتا ہے اور جس نے مغرب کے عیش پرست اور لا دین اشرافی کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ میں ٹورونٹو (کینیڈا) کے نواحی قصبے کیمبریج میں رہتا ہوں اور مجھے ٹورونٹو تک اپنی کار میں جانے کے لیے صرف پنتالیس منٹ درکار ہیں، اس لیے جب اخبارات میں یہ اشتہار چھپا کہ رائے تھامسن ہال میں مولانا رومی کی شاعری پر مبنی ایک میوزیکل شو پیش کیا جا رہا ہے تو میں بھی پچیس ڈالر کا ٹکٹ خرید کر وہاں پہنچ گیا۔ شو کا نام تھا Monsters of Grace جو کہ بجائے خود ایک معّمہ تھا کیونکہ ’گریس‘ اور ’مانسٹرز‘ بعد المشرقین ہیں۔ کمپوزر فلپ گلاسؔ اور ڈائریکٹر رابرٹ ولسنؔ (جن کا ذکر پہلے آ چکا ہے) بنفس نفیس موجود تھے۔ یہ ایک ویکلی انگریزی اخبار کے کالم نگار ہونے کا چمتکار تھا یا میرا نام اردو کے شاعر کے طور پر ہی اتنا معروف تھا کہ مجھے اسٹیج کے پیچھے ان سے دو چار منٹ گپ شپ کرنے کا موقع مل گیا۔ مجھے پتہ چلاکہ اس شو میں پیش کی جانے والی غزلیات اور رباعیات The Essential Rumi سے ہی اخذ کی گئی ہیں۔
یہ البم اب لاکھوں گھروں تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔ بہت سے نغمے مشرق وسطیٰ کے صحرائی ساز یعنی اکتارے کی سحر کن موسیقی سے شروع ہوتے ہیں۔
Where Everything is Music عنوان تھا پہلی قرات کا۔ عرب کا لامحدود صحرا اس کا پس منظر تھا، جو تھری ڈی میں اسٹیج کے عقبی پردے پر ابھارا گیا تھا۔ (یہ خیال صرف مجھ جیسے شخص کو ہی آ سکتا تھا کہ مولانا رومی کا وطن ایک سر سبز و شاداب چمن کی طرح تھا اور عرب کے ریگزاروں سے اس کا دور کا واسطہ بھی نہیں تھا، لیکن گورے کینیڈین یا کینیڈا میں مقیم بھیڑ چال چلنے والے نو دولتیے ہندوستانی اور پاکستانی یہ کہاں سمجھتے تھے!) اسے اردو مشاعروں کے ترنم میں فارسی اور انگریزی کی مخلوط زبان میں گایا گیا تھا۔ شو کے ختم ہونے پر میں نے کچھ لوگوں سے سوالات کیے۔ مثلاً میں نے پوچھا “کیا آپ تصّوف یاصوفی ازم کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟ جواب تھا، نہیں، میں اس لفظ سے واقف نہیں ہوں۔ سوال تھا، تو پھر قبلہ آپ کیا سننے یا دیکھنے کے لیے یہاں آئے؟ جواب تھا۔ شاعری اور موسیقی! او گاڈ! کیا لوگ تھے یہ تیرہویں صدی میں! کیا خوبصورت کنیزیں تھیں! میرے خیال میں شراب کی تو شہروں میں نہریں بہتی ہوں گی! اور اغلام! کیا یہ سب لوگ gay تھے؟مجھے ابکائی آ گئی لیکن میں نے خود پر قابو پا لیا۔
یہ البم اب لاکھوں گھروں تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔ بہت سے نغمے مشرق وسطیٰ کے صحرائی ساز یعنی اکتارے کی سحر کن موسیقی سے شروع ہوتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے صحراؤں کے خانہ بدوش لوگوں کی یادیں جو کہیں ہمارے لا شعور میں محفوظ ہیں، بیدار ہو گئی ہوں۔ اگر میں یہ کہوں کہ میں خود ہال کے اندر بیٹھے ہوئے کچھ دیر کے لیے اس طلسم ہوش ربا میں کھو گیا تھا تو یہ غلط نہیں ہو گا۔ دیپک چوپڑا کی اپنی آواز بری نہیں ہے۔ اس کی آواز میں جب نغمے کا مکھڑا سن پڑتا ہے تو نشّہ سا آ جاتا ہے۔
My heart is burning with love
All can see its flames!
All can see its flames!
یہ سُر مدھّم سے شروع ہوتا ہوا، آیتوں کی قرات سا ابھرتا ہے اور پھرمدھم ہوتے ہوئے میڈونا، ہانؔ، بلائتھ ڈینرؔ، اور مارٹن شینؔ کی آوازوں میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ باری باری سے solo یا کبھی کبھی duet میں گلوکار اور گلوکارائیں اس کو اپنی مترنم آواز میں پیش کرتے ہیں۔ لگ بھگ ایک گھنٹے تک یہ سحر آگیں سماں بندھا رہتا ہے۔ میں نے اسٹیج کے پیچھے ہندوستانی ساز دیکھے تھے اور جب میں نے بیک گراؤنڈ میوزک میں ستار، اکتارہ اور بانسری (اور یہاں تک کہ ہارمونیئم بھی) سنا تو مجھے خود یہ احساس ہوا کہ (بقول شخصے) میرے ٹکٹ کے پیسے وصول ہو گئے! ڈاکٹر چوپڑا نے ایک اخباری انٹرویو میں بتایا کہ یہ نغمے لفظ بلفظ ترجمے نہیں ہیں، بلکہ “موڈ” ہیں جو میں نے دوبارہ تخلیق کیے ہیں۔
امریکا میں ’نیوز ویک‘ کے تبصروں کا ایک اہم مقام ہے۔ اس لیے جب نیوز ویک میں اس البم کو ایک پر معنی لقب سے نوازا گیا تو لوگوں کااشتیاق اور بڑھ گیا۔
امریکا میں ’نیوز ویک‘ کے تبصروں کا ایک اہم مقام ہے۔ اس لیے جب نیوز ویک میں اس البم کو ایک پر معنی لقب سے نوازا گیا تو لوگوں کااشتیاق اور بڑھ گیا۔ ’نیوز ویک‘ نے اسے The Love Machine کہا۔ اس ایک انگریزی لفظ Love میں بسیارالاضلاح معانی چھپے ہوئے ہیں، جو تصوف کی روحانی بلندیوں سے لے کر عشق کی سطح مرتفع اور پھر وہاں سے تعشق اور تکمیل نفس کی پستیوں میں جا گرتے ہیں۔
اس سارے عمل میں مولانا رومی (بے چارہ مولانا رومی!) امریکا کے پاپ کلچر میں کھو جاتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہو گا کہ مغربی موسیقی کے شائقین کے لیے مولانا رومی کا تصوف اگر کچھ معنی رکھتا بھی ہو تو وہ صرف جامعات کے ادب اور موسیقی کے شعبہ جات تک ہی محدود ہے۔ پاپ کلچر کے شیدائیوں کے لیے مولانا رومی کی شاعری پر مبنی البم اور ایسے شو صرف حسن پرستی کا دوسرا نام ہے۔ شاید اس سے دوستوں کو اندازہ ہو کہ قدیم ایرانی اور عربی کلچر کو ایک عام امریکی یا یورپی شہری کس نظر سے دیکھتا ہے۔