Laaltain

موت کی خبر اپنی اہمیت کھو چکی ہے

20 مارچ، 2015
پاکستان میں “موت” کی خبر اپنی اہمیت کھو چکی ہے، لوگ ناگہانی اموات کے عادی ہو چکے ہیں۔ اتوار کے روز جب پاکستان اور آئر لینڈ کا میچ اپنے عروج پہ تھا تب لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں خود کش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 15 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن میڈیا اور عوام کا کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا۔ کچھ دیر بعد اس حملے کے خلاف مظاہرہ کرنے والے مشتعل افراد نے دو نوجوانوں کوپہلے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر جلا دیا۔ لیکن یہ ظلم بھی ان کی تسکین کے لیے نا کافی ثابت ہوا اور دونوں افراد جن کی شناخت نعیم اور نعمان کے ناموں سے ہوئی، کی سوختہ باقیات چھے گھنٹوں تک سڑکوں پر گھسیٹتےرہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمیشہ کی طرح کچھوے سے دوڑ کا مقابلہ ہارنے کے بعد تھکے ماندے پہنچے اور رسمی کارروائی اور بیان بازی مکمل کر کے چلے گئے۔
پاکستانی عوام کا جیسے ہی میچ کی کامیابی کا خمار کم ہوا تو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹرپر اس واقعے کی مذمت اور انصاف کے مطالبے کو ٹرینڈ بنایا گیا۔ تاہم اس ٹرینڈ کے تحت بہت سے افراد نے اس واقعہ کو انسانی بنیادوں کی بجائے “مسلم بمقابلہ غیر مسلم ” کی عینک لگا کر دیکھا اورمساجد پر ہونے والے حملوں کا موازنہ چرچ حملہ سے کیا۔

ان ٹویٹس میں لوگوں کا موقف ہے کہ میڈیا اور انسانی حقوق کے علمبردار ادارے سارے واقعے سے لا تعلق بیٹھے رہے۔اگرچہ ان کا گلہ کسی حد تک بجا ہے لیکن اس معاملہ کو مذہبی رنگ دینا درست نہیں کیونکہ مرنے والے سب کے سب مظلوم اور مارنے والے ظالم لوگ ہیں۔ چاہے وہ خود کش حملہ آور ہو یامشتعل ہجوم۔
بعض لوگوں نے اس واقعہ کی آڑ لیتے ہوئے اسی شدت پسند اور نفرت آمیز فکر کا پرچار کیا جو اقلیتوں کے خلاف جرائم کی وجہ بنتی ہے۔

مغرب میں اسلاموفوبیا کے رحجان پر تنقید کرنے والے افراد کی جانب سے اقلیتوں کے لیے ایسے جذبات کا اظہار تشویش ناک ہے۔

دراصل اس موقع پر اپنی رائے کا اظہار کرنے والے افراد یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ ایسے وقت میں اقلیت یا اکثریت کی نہیں انسانیت کے لیے آواز اٹھانے والوں کی ضرورت ہےجو کسی بھید بھاو کے بغیر ہر طرح کی نا انصافی کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کریں۔ ہوشمندوی کی بجائے اس موقع پر بعض ٹویٹس میں پاکستانیوں کے عام مغالطوں کا برملا اظہار بھی دیکھنے کو ملا؛

بعض افرادنے ہر قسم کے تشدد کی م؟ذمت کرتے ہوئے مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا؛

ان ٹویٹس میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ مذہب اور قومیت سے بالا تر ہو کر شدت پسندی کا خاتمہ ضروری ہے۔ کسی کے بھی انفرادی فعل کا ذمہ دار پوری قوم کو نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔

بہت ہی کم لوگوں نے اصل مسئلے کی طرف اشارہ کیا اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمے داری نبھاتے اورموقع پر پہنچ جاتے تو یقینا اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ عدم برداشت معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ انصاف کا ناقص نظام ہے۔ جس سے عدم تحفظ اورغیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور عام لوگ خود منصف ببنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *