[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
موت کو پڑھنا آسان نہیں!
[/vc_column_text][vc_column_text]
رات سورج سے پہلے جاگ اٹھی ہے
اور سلیپر پہنے
گھروں سے باہر نکل آئی ہے
اور سلیپر پہنے
گھروں سے باہر نکل آئی ہے
سمندر کنارے پر پھیلتا جا رہا ہے
یہاں تک کہ اُس کی گہرائی کم ہوتے ہوتے
صفر اعشاریہ ننانوے ملی میٹر رہ گئی ہے
اور مچھلیاں اپنی مادر زاد برہنگی چھپانے کے لیے
لاشوں کی طرح اوپر تلے گر رہی ہیں
آبی اور زمینی مخلوق میں معانی کا فرق بھی نہیں رہا
یہاں تک کہ اُس کی گہرائی کم ہوتے ہوتے
صفر اعشاریہ ننانوے ملی میٹر رہ گئی ہے
اور مچھلیاں اپنی مادر زاد برہنگی چھپانے کے لیے
لاشوں کی طرح اوپر تلے گر رہی ہیں
آبی اور زمینی مخلوق میں معانی کا فرق بھی نہیں رہا
وہ دیکھو متن اور حاشیے کے مابین
موت سایوں کی زبان میں لکھی ہوئی ہے
جسے سمجھنے کے لیے
ماقبل اور مابعد زمانوں کی تنہائی درکار ہے
موت سایوں کی زبان میں لکھی ہوئی ہے
جسے سمجھنے کے لیے
ماقبل اور مابعد زمانوں کی تنہائی درکار ہے
لفظوں اور منظروں کی خود کشی کے بعد
زندگی کو چُپ سی لگ گئی ہے
خوبصورت آنکھوں والے چہروں پر سیاہ چشمے دیکھ کر
بادلوں کا ہنسنا بلکہ ٹھٹا لگانا قدرتی بات ہے
زندگی کو چُپ سی لگ گئی ہے
خوبصورت آنکھوں والے چہروں پر سیاہ چشمے دیکھ کر
بادلوں کا ہنسنا بلکہ ٹھٹا لگانا قدرتی بات ہے
متن شناسی کے زعم میں مبتلا
پتلے کانوں والے نقاد
بوڑھے کچھووں کے راگ سُن سُن کر مدہوش ہو رہے ہیں
ایسے میں نظم لکھنا
اور موت کو پڑھنا آسان نہیں!
پتلے کانوں والے نقاد
بوڑھے کچھووں کے راگ سُن سُن کر مدہوش ہو رہے ہیں
ایسے میں نظم لکھنا
اور موت کو پڑھنا آسان نہیں!
Image: Joan Miro
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]