موت مجھے بلاتی ہے
لیکن مجھے وہ شام بھولتی ہی نہیں
جب درختوں میں ہوا چل رہی تھی
میں رک گیا تھا ۔۔۔۔ ایک منظر کے سامنے
گزر جانے کے لیے
اپنی مٹی اور بادلوں کے درمیان
وقت کے بہاؤ کی عین وسط سے
نکل جانے کے لیے
آہستہ آہستہ قدم رکھتے ہوئے
تم میرے دل سے گزرے تھے
یا شاید میں تمھارے دل سے ۔۔۔۔
اور چاندنی، ہماری انگلیوں سے الجھ رہی تھی
زمین پر ایسی شام
شاید ہی کہیں اتری ہو
کیفے کی باڑھ سے
دنیا ہمیں دیکھتی تھی
پاس بلاتی تھی
اور ہم
لوٹ گئے تھے ۔۔۔۔۔ اپنے اپنے جہنم کو
اذیت اور انکار کی ہر رات
اس شام کی پناہ میں ہے
وقت کم ہے یا زیادہ
کچھ پتا نہیں چلتا
میں ایک خواب سے دوسرے خواب میں
اس شام سے گزر کر جانا چاہتا ہوں
تم کہاں ہو
موت مجھے بلاتی ہے
Image: Edward Munch