Laaltain

منٹو ۲۰۱۲ء

31 جنوری, 2013
Picture of اسد فاطمی

اسد فاطمی

سال ۲۰۱۲ء بھی گزر گیا۔ پچھلی صدی کو اس کے وسط میں منٹو جیسا تیسا چھوڑ گیا تھا، ویسی ہی تاریک رہی، اور آنے والی صدی کا پہلا عشرہ ہی ہم نے اس سے بھی زیادہ سیاہ اور تاریک تر بنا لیا۔ حبس پہلے سے سوا ہوتا گیا اور کھڑکیاں ہوا بند ہی رہیں۔ منٹو “کھول دو، کھول دو!” چلاتا رہا لیکن ہم نے تازہ ہوا کو راستہ دینے کے دریچے وا کرنے کے بجائے، فسادات میں پامال ہوئی سہمی ہوئی سکینہ کی طرح اپنے ازار بند کھول ڈالے۔ حالات بدلنے سے بہت پہلے ہم نے اسے منٹو کا سال قرار دے دیا، دیر کرنے پر معذرت بھی کی، لیکن منٹو کے لیے یہ ایک بہت قبل از وقت انتساب، بلکہ شاید ایک نہایت بھونڈے مذاق سے کم نہ ہو۔ پینسٹھ سال سے واہگہ پار سے کوئی جاتری، ایک پیر پر کھڑے بشن سنگھ کی خیر خبر لینے نہیں آیا۔ ہلالی شمشیروں نے کرپانوں اور ترشولوں کو تو بھگا دیا، مختون اور غیر مختون کے دنگے میں ایک رنگ کے لوگوں نے ختنے کو نشانی رکھ کے دوست دشمن کی پہچان کی اور چن چن مارا، لیکن پھر بدعت و رفع بدعت کے شور میں یہی امت مختون آپس میں وہ جھگڑی کہ اسی ہلالی شمشیر نے کبھی سیاہ کپڑے نشانی طے کی اور کبھی اخضری عمامے۔۔ پکڑ پکڑ مارا۔۔۔ یوں منٹو کی نصیباں ماری سلطانہ کی کالی شلوار، جان کے خوف سے کھونٹی پر ہی ٹنگی رہ گئی۔ وہ اب امام باڑے جانے کے تصور سے ہی ڈرتی ہے۔

ٹوبے کے پاگل خانے کی توسیع آئے روز، اور زور شور سے ہو رہی ہے۔ عماموں ڈاڑھیوں والے، کوٹ پتلون والے کلین شیو، اور بڑی بڑی مونچھوں اور واسکٹوں والے نیم خواندہ جنونی۔۔ جوق در جوق بھرتی کیے جا رہے ہیں۔ کوئی کاندھے پر کدال رکھے سب سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ تن تنہا سلطنت ترکیہ کو اکھاڑ لائے گا اور یہاں بو دے گا، ایک طرف کوئی چھت پر چڑھ کر خدا ہونے کا دعوی کرتا ہے، ادھر کوئی پاگل ہونے کا سرٹیفیکیٹ ہاتھ میں لیے کلاشنکوف سے اسے مار گراتا ہے اور قہقہہ مار کر کہتا ہے کہ وہ موسی نبی کا اوتار ہے۔۔۔ ایک طرف کوئی ناک پر چشمہ اور سر پہ قضاوت کی کلاہ رکھ کر سب کو بری کرنے کا اعلان کر دیتا ہے۔ خوب رونق لگی ہے۔ لیکن بھائی بشن سنگھ اب بھی کونے پر کھڑا، کچھ نئی گالیوں کے اضافے کے ساتھ “اوپڑ دی گڑ گڑ۔۔۔” والا مہمل منتر لگاتار بڑبڑا رہا ہے۔

 اپنے منٹو صاحب کی بیشتر بدبودار کہانیوں کی سکہ بند ٹکسال، اور اپنے غلام عباس صاحب کی “آنندی” یعنی شہر کے کوٹھے جو تمدن کا نقطہ آغازقرار پائے تھے، اب بحمداللہ تطہیر کے عمل نیک کے ذریعے ہمارے شہر ان سے پاک تر ہو گئے ہیں۔ کراچی اور پشاور کا علم نہیں کہ وہاں سے بجز بارود اور تاڑ تڑاخ کے کچھ خبر نہیں پہنچتی۔ لاہور کا بہرحال جانتا ہوں کہ یہاں سماج کا یہ ناسور دبا دیا گیا ہے، پیپ ہر چند کہ ہر رگ میں پھیل گئی ہے لیکن خدا کے فضل سے پھوڑا چھپ ہی گیا ہے۔ زینت المعروف زینو جیسی کئی کشمیری کبوتریاں جو بیسوائی مزاج نہ ہونے کے باوجود دھندے میں جھونکی گئی تھیں، اور طوائفانہ عشوے نہ سیکھ پانے کے کارن اندھیر گلی میں ناکام رہیں، اب اندھیر گلی میں ایمان کے قمقمے جل اٹھنے کے بعد گرہستی کو پلٹی ہیں تو منٹو کے قلم سے ان کے سر لکھی نیک نیت بدنامیاں ہی ان کے ماتھے کا کلنک بن گئی ہیں۔ حیدر آباد کے کسی محمد حسین کے گھر میں کوئی بھی ان کے ہاتھ پر پکی روٹی نہیں کھاتا۔ باہر مردوں کی دنیا میں آج ہر اونچے رنگلے کلس کے ساتھ رحیم سینڈو، غفار سائیں اور غلام علی جیسے طفیلیے پہلے سے ذیادہ چپکے دکھائی دیتے ہیں، رہا بابو گوپی ناتھ، وہ بیچارہ احساس اور آدمیت کا دھڑن تختہ ہوتے ہی یہاں سے ہجرت کر گیا ہے۔

جی میں تو یہ بھی آتا ہے کہ نیلی آنکھوں والی نٹ کھٹ گوری موذیل کے لب و رخسار کے احوال بھی دو جملوں میں کہے جائیں، لیکن وہ سالی تو یہودن ہے۔ اس کے بارے میں مزید ایک بھی جملہ اور اضافہ کرنا، عین ممکن ہے یار لوگوں کے لیے غیر آئینی حرکت اور موساد کی حمایت کے مترادف ہو۔

منٹو کی”آخری سلیوٹ” والی کہانی جب بھی پڑھتا ہوں تو مجھے اپنی سپاہیانہ زندگی میں ڈرل ماسٹروں کا وہ سبق بہت یاد آتا ہے کہ دنیا میں خون کے رشتے سے بڑا سانگا اگر کوئی ہے، تو وہ “پلٹن کا رشتہ” ہے۔ سن ۴۷ء میں ۶/۹ رجمنٹ دولخت ہو گئی، پھر سن ۴۸ء میں دونوں ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے کشمیر چھیننے بھیج دیا گیا۔صوبیدار رب نوازاور رام سنگھ جیسے ٹولی وال پیٹی بندوں نے منٹو کی مخبری کے مطابق جو غدارانہ یار باشی دکھائی تھی، جنگ کا خاتمہ بھی ایسا ہی بیہودہ ہوا۔ برما اور سوڈان میں ایک ساتھ لڑنے والے پیٹی بند شناہوں نے کشمیر آپس میں آدھا آدھا بانٹ لیا اور لاشیں سمیٹ کر دوسرے چوتھے محاذ سنبھال لیے۔متحدہ فوج کا وہ آخری ٹولہ باعزت ریٹائر ہوا ہے اور ان کی آخری پنشنیں ان کی تجہیز و تکفین پر کفایت سے پوری آئی ہیں۔اگلے بَیچز نے ایک کامل اور اجلے قومی شعور کے ساتھ محاذ سنبھالا  ہے، بات کشمیر سے سیکڑوں فٹ اوپر تک پہنچ گئی ہے۔ قوم پر عزم ہے کہ فتح کا پرچم اور پھوٹ کی باڑھ ہمالہ کی بلند ترین چوٹی تک لے جائیں گے، برفانی ریچھ اور پہاڑی بکرے بھی موسمی ہجرتوں کے لیے ویزے کروانے اسلام آباد اور دلی جائیں گے۔ طرفین کے فاقہ کش برف پر گندم اگا کر اپنی بھوک مٹائیں گے۔

استاد منگو کی جگہ اب اس کا بیٹا، باپ کا اکّا بیچ کر یادگار سے شاہ عالمی تک، پیلا چنگ چی چلاتا ہے۔ وہ آئے روز یادگار چوک کے جلسوں میں شریک ہونے والی نیلی پیلی جھنڈیوں والی سواریاں یہاں سے وہاں ڈھوتا ہے، اس کے کان، ان سواریوں کی زبانی نئے پرانے دساتیر کی باتیں سن سن کر سُن ہو گئے ہیں۔۔ لیکن وہ ان کی کسی بات پر کان نہیں دھرتا کہ اس نے اپنے باپ کا قصہ سن رکھا ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ اب اقتدار اعلی میں اس کا کوئی حصہ نہیں اور یہ بات نئے دستور کے محضر پر لکھ دی گئی ہے۔

خیر، ہمارا مقصد یہاں منٹو کے کرداروں کو آگے بڑھانا یا ان کے امروزی احوال سنانا نہیں تھا، کہ منٹو کی تو سبھی کہانیاں ابھی ناتمام اور جاری ہیں۔  اور منٹو کا سال۔۔  ایک سراسر معذرت خواہانہ اور کھسیانہ سا انتساب ہے احباب! اس برس ایسا کچھ نہیں تھا کہ جوپچھلے چونسٹھ برس سے ہٹ کر تھا۔ وہی پاگل خانہ ہے، وہی گنجے فرشتے اور ان کے ہاتھ میں مصالحت کی کنگھیاں ہیں۔ ویسا ہی خلق خدا پر بنامِ خدا تلواروں کا سونتنا۔۔ ویسا ہی خلوت کدوں میں مجبور کسبیوں کی شلواروں کا نوچنا۔۔ منٹو کے ساتھ ایک اور سرکاری مذاق! منٹو کا سال ابھی سالوں دور ہے، منٹو کی صدی ابھی صدیاں آگے ہے۔۔ شرمندہ باد!!۔

تحریر:اسد فاطمی

(Published in The Laaltain – Issue 6)

ہمارے لیے لکھیں۔