10 اپریل 2017 کو سائنس کے ایک اعلی ترین جریدے فزیکل ریویو لیٹرز میں ایک پرچہ شائع ہوا جس کے محققین نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے روبیڈیم نامی ایک عنصر میں منفی کمیت کے رجحا نات کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ تجربہ انہوں نے امریکی ریاست واشنگٹن کی ایک مشہور یونیورسٹی میں سرانجام دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ منفی کمیت کا رجحان طبیعات کے قوانین میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس تجربے میں پنہاں مختلف طبعی عوامل کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں۔
اس تجربے کو سمجھنے کے لئے ہمیں کچھ بنیادی اصطلاحات سے واقفیت ضروری ہے۔
نیوٹن کا دوسرا قانون حرکت یہ بتاتا ہے کہ جب کسی ذرے یا جسم پر قوت لگائی جائے تو اس کی رفتار کی مقدار یا حرکت کی سمت میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے جسے اسراع یا اکسلریشن کہتے ہیں۔ کسی جسم کی کمیت کی مقدار یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ایک قوت اس جسم میں کتنا اسراع پیدا کرے گی۔ اسی طرح اسراع کی سمت بھی قوت کی سمت کے ہمراہ ہوتی ہے۔ یعنی اگر کسی جسم پر دائیں جانب قوت لگائی جائے تو اس میں اسراع بھی دائیں جانب پیدا ہوگا۔
کوانٹم میکانیات سے مراد طبیعات کی وہ شاخ ہے جو انتہائی چھوٹی مائکروسکوپک اشیاء کی حرکت سے متعلق قوانین پیش کرتی ہے۔ اس تھیوری کے مطابق ان اشیاء میں ایک خاص کیفیت پائی جاتی ہے جسے لہروذرہ کی دوئی کہا جاتا ہے۔ مادہ اپنی بنیاد میں جن بنیادی ذرات سے مل کر بنتا ہے ان میں لہر اور ذرے کی باہمی خوبیاں موجود ہوتی ہیں۔ کبھی تو یہ ذرات ایک ٹھوس شے کی مانند معلوم ہوتے ہیں اور کبھی یہ ایک لہر کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔
بوزآئن سٹائن آمیزہ کی دریافت 1924 میں ایک انڈین سائنسدان ستیندرناتھ بوز اور مشہور سائنسدان آئن سٹائن نے کی۔ اس سے مراد مادے کی وہ حالت ہے جس میں اسے انتہائی ٹھنڈا کردیا جاتا ہے۔ اس قدر تھنڈی حالت میں مادے کے ایٹموں کی حرکت بہت سست ہو جاتی ہے اور وہ لہروں کی مانند ہوجاتے ہیں لہذا ان پر کوانٹم میکانیات کے اصول لاگو ہوتے ہیں۔ بوز کے اس کام کی اہمیت کے پیش نظر ذرات کی ایک خاص قسم کو بوزون کا نام دیا گیا ہے۔ بوزون ایسے ہم ساخت ذرات کو کہا جاتا ہے جن کی سپن صحیح اعداد کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ بوزون خاندان کا ایک مشہور ذرہ فوٹون ہے جو روشنی کا ذرہ بھی کہلاتا ہے۔ اس حالت پر مزید تحقیقات سے مادے کی نئی حالتیں دریافت ہوتی رہی ہیں جن میں سوپرفلوئڈ اور سپرسولڈ قابل ذکر ہیں۔ 1995ء میں پہلی دفعہ روبیڈیم کی گیسی حالت میں اسکے ایٹموں کو 170 نینوکیلون تک ٹھنڈا کرنے سے اسکا بوز آئن سٹائن آمیزہ تیار کیا گیا تھا۔ اور 2017 کی دریافت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی میں ہونے والے حالیہ تجربے میں دوبارہ اسی روبیڈیم کو گیسی حالت میں منفی 273 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب درجہ حرارت پر ٹھنڈا کیا گیا جس سے وہ ایک بوز آئن سٹائن آمیزے میں تبدیل ہو گئی۔ اس کے لئے سائنسدانوں نے لیزر کا استعمال کیا۔ آمیزہ کی تیاری کے بعد لیزر کی ہی مدد سے گرم ذرات کو باہر نکال لیا گیا جس سے یہ مزید ٹھنڈا ہوتا چلا گیا۔ اس طرح ان ایٹموں کو ایک پیالہ نما شکل میں قید کر لیا گیا جس کا سائز ایک میٹر کے ایک لاکھویں حصے سے بھی کم تھا۔ اگر اس پیالہ نما شکل کو توڑا جائے تو روبیڈیم ایک جھٹکے سے باہر کی جانب پھیلے گی۔ لیکن ابھی اس حالت میں اس کی کمیت ایک مثبت کمیت ہی رہتی ہے یعنی قوت کی جانب اسراع پیدا ہوتا ہے۔ اب اگر ایک دوسری قسم کی لیزر کی مدد سے ان ایٹموں کو آگے پیچھے دھکیلا جائے تو ان کی سپن میں خاص تبدیلی پیدا ہوتی ہے جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایٹموں میں منفی کمیت کا رجحان پیدا ہورہا ہے یعنی قوت کی سمت کے مخالف اسراع پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس حالت میں کسی شے کو آگے کی طرف دھکیلا جائے تو یہ پیچھے کی جانب دوڑے گی جیسے کسی گیند کو دیوار کی طرف پھینکا جائے تو وہ ٹکرانے کے بعد پیچھے کو دوڑتی ہے۔
اس دریافت کی اشاعت کے بعد دنیا بھر کے میڈیا میں یہ خبر چلنے لگی کہ سائنسدانوں نے منفی کمیت دریافت کر لی اور اس سے بہت سی نئی امیدیں وابستہ کر لی گئی ہیں۔ یہ کہا جانے لگا ہے کہ اس نئی دریافت سے کائنات کے بہت سے راز افشاء ہوسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر طبیعات کے اصولوں اور اس شائع شدہ پرچہ کو بغور دیکھا جائے تو حقیقت کچھ اور معلوم ہوتی ہے۔ جس چیز کو دریافت کیا گیا ہے وہ طبیعات میں کوئی نئی شے نہیں اور نہ ہی ان سائنسدانوں نے “منفی کمیت” کو دریافت کیا ہے۔ بلکہ انہیں ایک تجربے میں ایسی “مؤثرمنفی کمیت” ملی ہے جو اس سے پہلے کسی بوزآئن سٹائن آمیزہ میں نہیں ملی۔ کسی شے کی اصل مقدارہونا اور اس کی مؤثر مقدار ہونے میں بہت فرق ہے۔ اس کی دیگر مثالیں کسی کہکشاں کا “مؤثررداس” اور کسی نیوکلیس کا “مؤثرچارج” وغیرہ ہیں لیکن یہ اصل مقداروں کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ کسی تھیوری میں ضرورت کے تحت سامنے آتا ہے۔
منفی کمیت کی مؤثر مقدار کا حصول ایک خاص مساوات سے ہوتا ہے جسے “ڈسپرشن” کی مساوات کہا جاتا ہے۔ اس مساوات کی ایک جانب توانائی اور دوسری جانب مومینٹم ہوتا ہے۔ اگر اس مساوات پر دو دفعہ کیلکولس کے عوامل دہرائے جائیں تو ہمیں معکوس کمیت ملتی ہے۔ اس طرح ہم موجودہ پرچہ کو سمجھ سکتے ہیں کہ اس میں ایک آمیزہ کے ایٹم باہر کی جانب پھیلاؤ کی بجائے رک جاتے ہیں۔ اس کی وجہ ایک قوت جو روبیڈیم کے سالمے میں کوانٹم پریشر کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے بیرونی قوت کی مخالفت کرتی ہے اور اس طرح باہر کی جانب پھیلاؤ رک جاتا ہے۔ لیکن اس تحقیق کا تعلق بلیک ہول اور ڈارک انرجی جیسے تصورات سے جوڑنا ایک عجیب فعل ہے جسے میڈیا کی سنسنی خیال کیا جا سکتا ہے!