[blockquote style=”3″]

ادارتی نوٹ: ہارون خالد کا یہ مضمونScroll کی ویب سائٹ پر27 ستمبر کو شائع کیا گیا تھا۔ ہارون خالد The White Trail کے مصنف ہیں اور آج کل اپنی نئی کتاب In Search of Shiva پر کام کررہے ہیں۔

[/blockquote]

1992 میں ہندوستان میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ایک طرف جب مدرسوں کے کچھ طلبہ ہجوم کی شکل میں مندروں کو نقصان پہنچانے میں مصروف تھے تو دوسری جانب بعض ایسے بھی تھے جو مدارس میں بدل دیئے جانے والے ان مندروں کا تحفظ کر رہے تھے۔
ملکہ ہانس کا یہ مندر اب مذہبی عالم سے سیاست دان بننے والےعلامہ طاہر القادری کی مذہبی تنظیم منہاج القرآن کے شعبہ خواتین کے زیراستعمال ہے
ہم مندر کے داخلی دروازے پر اس شش و پنج میں کھڑے تھے کہ پتہ نہیں ہمیں داخلے کی اجازت بھی ملے گی یا نہیں۔ یہ مندر ایک دومنزلہ عمارت پر مشتمل تھاجس میں ایک محراب دار بالکونی بھی تھی۔ منقش چوبی دروازے کےاردگرد دیوروں پر کی گئی استرکاری ماند پڑتی جارہی ہے۔ داخلی دروازے کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ عمارت کا اندرونی حصہ کس قدر شاندار ہوگا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ یہ مندر اب خالی نہیں رہا تھا۔ اور تقسیم کے وقت غیرمسلموں کی چھوڑی ہوئی بیشتر عمارتوں کے برعکس اس پر کسی ایک خاندان کا قبضہ بھی نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو میں اس عمارت میں رہنے والوں سے اسے اندر سے دیکھنے کی درخواست کرسکتا تھا۔ لیکن ملکہ ہانس کا یہ مندر اب مذہبی عالم سے سیاست دان بننے والے علامہ طاہر القادری کی مذہبی تنظیم منہاج القرآن کے شعبہ خواتین کے زیراستعمال ہے۔

 

Entrance to the temple at Malka Hans Credit: Rida Arif

Entrance to the temple at Malka Hans
Credit: Rida Arif


 

پورے مندر میں دیویوں اور دیوتاوں کے چوبی مجسمے نصب ہیں جن کے تلے برقع پوش خواتین قرآن کی تلاوت کررہی ہیں۔ دیواروں پر ہندو بھگوانوں کی تصاویر نقش ہیں اور ان کے آس پاس مسلم خواتین توحیدالٰہی کا درس دے رہی ہیں
میں نے دروازے پر لگی گھنٹی بجائی لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ اس عمارت میں مقیم خواتین کا کیا ردعمل ہوگا۔ ایک نوجوان لڑکا دروازے پر نمودار ہوا اور ہماری آمد کا مقصد جان کر دوبارہ اندر چلاگیا۔ وہ تھوڑی دیر بعد نمودار ہوا اور بتایا کہ مرد اندر نہیں جاسکتے تاہم ہمارے ساتھ آئی خواتین اندر جا سکتی ہیں۔ مندر کے صحن میں خواتین کے لیے درس قرآن جاری تھا۔ میری اہلیہ انعم اور میری دوست ردا کیمرے کے ساتھ مندر جو اب مدرسے میں تبدیل ہو چکا تھا داخل ہوگئیں۔
ہم پنجابی کے مشہور شاعروارث شاہ کی تاریخی مسجد کی زیارت کے لیے لاہور سے دوسو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تاریخی شہر ملکہ ہانس میں موجود تھے۔ وارث شاہ ہیررانجھا کی لوک داستان کو ازسرنو منظوم کرنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ وارث شاہ کی مرتبہ ہیر کی داستان اس قدر مقبول ہوئی کہ ہیر رانجھا کے تمام سابقہ نسخے متروک ہوگئے ہیں۔ اب اس داستان وک ہیر وارث شاہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق وارث شاہ نے ہیر ملکہ ہانس کی مسجد کے تہہ خانے میں اس وقت رقم کی جب وہ وہاں امامت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
(1992) میں مشتعل ہجوم کے حملے کے وقت تک یہ مندر بھی مدرسے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ مقامی لوگوں کے مطابق جب انتہا پسند اس مندر کی دیواروں پر چڑھ کر اسے گرانے کی کوشش کررہے تھے تب وہاں درس قرآن جاری تھا۔
یہ مندر اس مسجد کے بالکل سامنے سڑک کی دوسری جانب واقع ہے۔ اگرچہ آج ایسا ہونا محال ہے لیکن اٹھارہویں صدی کے دوران وارث شاہ کے عہد میں مسجد اور مندر کا ساتھ ساتھ ہونا اچھنبے کی بات نہ تھی ۔ وارث شاہ کی مسجد اور اس سے متصل ہندو مندر سے متعلق کئی حکایتیں مشہور ہیں جہاں بعض روایتوں کے مطابق وارث شاہ کی محبوبہ روازنہ باقاعدگی سے حاضر ی دیتی تھی۔ یہ مندر سترہویں صدی کے ایک ہندو بزرگ چھجو بھگت کے عقیدت مندوں سے منسوب تھا۔
اس گلی میں کئی قدیم مکانات تھے جو یقیناً تقسیم سے پہلے یہاں بسنے والے ہندووں کی ملکیت رہے ہوں گے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہاں بسنے والے ہندو 1947 میں کس حال میں اپنے گھر بار چھوڑ کے نکلے ہوں گے۔ وہ یقیناً ان گھروں کو عارضی طور پر مقفل کرکے اور اپنی قیمتی اشیاء زمین میں دبا کر اس امید پر نکلے ہوں گے کہ کسی نہ کسی دن واپس لوٹ آئیں گے۔ لیکن وہ کبھی نہ لوٹ سکے ، مگر ہوسکتا ہے انہوں نے اپنے ورثاء کو ان مکانات اور اس مندر کا پتہ دیا ہو؟ ہوسکتا ہے زندہ ہندوستان پہنچ جانے والوں کے ذہنوں میں اس مندر سے متعلق کتنی داستانیں محفوظ ہوں گی؟

 

Angels at the temple at Malka Hans Credit: Rida Arif

Angels at the temple at Malka Hans
Credit: Rida Arif


 

ردا اور انعم کچھ دیر بعد سرشار لوٹیں۔ ردا بولی ،”مندر میں جاتے ہی ایک ماورائی سا احساس ہمیں گھیر لیتا ہے۔” اس نے بتایا کہ "پورے مندر میں دیویوں اور دیوتاوں کے چوبی مجسمے نصب ہیں جن کے تلے برقع پوش خواتین قرآن کی تلاوت کررہی ہیں۔ دیواروں پر ہندو بھگوانوں کی تصاویر نقش ہیں اور ان کے آس پاس مسلم خواتین توحیدالٰہی کا درس دے رہی ہیں۔ دیواروں پر نصب ان بتوں اور تصویروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا ہے۔” ان عورتوں کو ایک ہندو مندر میں اسلام کی درس و تدریس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

 

Jain Mandir at Multan Credit: Alie Imran

Jain Mandir at Multan
Credit: Alie Imran


 

ملکہ ہانس سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ملتان کا تاریخی شہر میں بھی ہمیں ایسی ہی تعمیرات دیکھنے کو ملیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں وہاں ہلادپوری بھگت کے ظالم باپ ہریکشپ کی حکومت تھی ۔ قدیم شہر کی فصیلوں کے اندر ہمیں ایک جین مندر ملا۔ ابھی ہم دروازے سے اندر داخل بھی نہ ہوپائے تھے کہ ہمیں بچوں کی تلاوت قرآن کی آوازیں آنے لگیں جو اپنا سبق دہرا رہے تھے۔ مندر کے ہال میں دوطرفہ چٹائیاں بچھی تھیں جن کے سامنے نیچی میزیں دھری تھیں۔ ان صفوں پر بیٹھے بچے لہک لہک کر اپنا اپنا سبق پڑھ رہے تھے۔ ان بچوں کے سامنے ان کے قاری صاحب بیٹھے تھے۔ قاری صاحب ایک نوجوان اور باریش آدمی تھے جن کے شانے پر چوگوشیہ رومال دھرا تھا۔ ایک کم سن لڑکا ان کے کندھے دبا رہا تھا۔ ہمارے داخل ہوتے ہی بچوں کی اوازیں تھم گئیں اور سب کی نظریں ہماری جانب اٹھ گئیں۔ میں نے سلام کیا،”اسلام علیکم” اور سب نے بیک وقت جواب دیا”وعلیکم اسلام”۔ میں نے پوچھا” کیا ہم اس مندر کو دیکھ سکتے ہیں اور تصویریں کھینچ سکتے ہیں۔” اس مرتبہ ان کے استاد نے جواب دیا،”بالکل کیوں نہیں، آپ اسے اپنا ہی سمجھیے”۔ طلبا دوبارہ قرآن پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔
مندر کی چھت لکڑی کی تھی جس پر رنگین شیشے نصب تھے۔ دیواروں پراسترکاری کی مدد سے جیومیٹری کی خوبصورت اشکال نقش کی گئی تھیں۔ کمرے کے ایک جانب ایک سنہری دروازہ مندر کے اندرونی حصے کی جانب کھلتا ہے۔ دروازے کے قریب 24 تیرتھنکروں کی تصاویر بنی ہوئی تھیں جن میں سے ہرایک جین تکوینیات میں ہر کائناتی کرے کے نصف کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ میں مندر کی خوبصورتی میں اس قدر محو ہو چکا تھا کہ مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ تلاوت کی آواز رک چکی ہے۔ بچے اور ان کے قاری صاحب اپنا آج کا درس ختم کرکے جا چکے تھے۔

 

One of the Tirthankar at the temple in Multan Credit: Alie Imran

One of the Tirthankar at the temple in Multan
Credit: Alie Imran


 

بعد میں جب میں اپنے دوست اقبال قیصر کے ہمراہ ایک دکان پر مندر کے برج کے سامنے کھڑا پیپسی کی ٹھنڈی بوتل پی رہا تھا تو دکاندار نے ہمیں بتایا کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد بہت سے دوسرے پاکستانی مندروں کی طرح اس پر بھی 1992 میں مذہبی بنیاد پرستوں نے حملہ کیا تھا۔ تاہم مدرسے کی انتظامیہ مشتعل مجمعے کو مندر کو زیادہ نقصان پہنچانے سے بازرکھنے میں کامیاب رہی۔ وہ ہجوم کو یہ باور کراتے رہے کہ ،”یہ اب مندر نہیں بلکہ ایک مدرسہ ہے”۔

 

Bhagat Prahlad Mandir and the shrine of Shah Rukn-e-Alam in the background Credit: Alie Imran

Bhagat Prahlad Mandir and the shrine of Shah Rukn-e-Alam in the background
Credit: Alie Imran


 

ملتان شہر سے ذرا باہر شہر کی فصیلوں کے رخ کسی زمانے ہندو صوفی بزرگ بھگت پرہلاد کا مندر قائم تھا۔ اس مندر کی دیوار مسلم صوفی شاہ رکن عالم کے دربار سے متصل ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے ملتان شہر کے سرپرست خیال کیے جاتے ہیں۔ 1992 میں مشتعل ہجوم کے حملے کے وقت تک یہ مندر بھی مدرسے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ مقامی لوگوں کے مطابق جب انتہا پسند اس مندر کی دیواروں پر چڑھ کر اسے گرانے کی کوشش کررہے تھے تب وہاں درس قرآن جاری تھا۔ حملے کے بعد مدرسہ مستقل طور پر بند کردیا گیا جبکہ مندر کی عمارت کو شدیدنقصان پہنچا۔

 

Sitla Mandir in Lahore Credit: Haroon Khalid

Sitla Mandir in Lahore
Credit: Haroon Khalid


 

سیتلا مندر لاہور کی کہانی بھی یہی ہے۔ اس مندر کے برج کا منہدم حصہ اس قیامت خیز دن کا گواہ ہے۔ اپنے ہونے کا احساس دلانے کے لیے برج کے ایک طاقچے پر ایک تختی جس پر”اللہ” رقم ہے دھری ہے۔

 

A plaque reading Allah at the turret of the Sitla Mandir in Lahore Credit: Haroon Khalid

A plaque reading Allah at the turret of the Sitla Mandir in Lahore
Credit: Haroon Khalid


 

اسی عمارت میں ایک مدرسہ چلایا جارہا ہے جس کے طالب علموں نے 1992کے فسادات کے دوران توڑپھوڑ میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ معاملہ ٹھنڈا پڑجانے کے بعد وہ اسی عمارت میں دوبارہ پڑھنے جانے لگے جسے انہوں نے خود توڑپھوڑ کا نشانہ بنایا تھا۔

Leave a Reply