گلی میں جنوب سے شمال کا رخ کر کے چلا جائے تو بائیں جانب گیارہواں مکان حسن کاپڑتا تھا۔قریب قریب سو گز کا۔لیکن دو رہائشی کمروں،چھوٹی سی بیٹھک اور ایک بورچی خانہ پر مشتمل اس گھر کی سطح نہ صرف گلی کے دیگر گھروں سے اونچی تھی بلکہ یہ واحد مکان تھا جو پکی اینٹوں اور سیمنٹ سے بنا تھا۔مالک مکان حسن،جس کے پاؤں قرض میں دھنسے رہتے تھے،وہ تو اس پکے گھر کی ایک دیوار بھی بنوا نہ پاتااور ایک حسن ہی کیا،سارے محلے میں کوئی شخص پکے گھر کی طاقت کہاں رکھتا تھا؟ہاں اگر سارا محلا مل جل کر کوشش کرے تو ممکن تھا اور ہوا بھی۔وہ یوں ان کچی پکی اینٹوں کے بنے، عدم توازن کا شکار، ٹیڑھے میڑھے گھروں کے درمیاں قبلہ رخ، چار کونوں اور ایک منار والاخدا کا پکا گھر پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھا۔ایسا شاندار جیسے ٹاٹ میں مخمل کا پیوند لگا ہو۔ویسے آپس کی بات ہے اس کچی آبادی سےمحلے کے تمام باسی بہی اس وسیع و عریض خانہ خدا کو بنوانے پر قادر نہ تھے۔بھلا ہوپلاسٹک فیکٹری کے مالک یعقوب میمن کا جس نے اپنے مالی کی گذارش پرمحلے والی مسجد کا نامکمل کام نہ صرف مکمل کروایا بلکہ اس کی اراضی میں توسیع بھی ضروری سمجھی اور پھر مسجد کی ز د میں حسن کا مکان آگیا۔یوں گلی میں جنوب سے شمال کو چلتے یعقوب میمن کی طرف سے بنوا کر دیا گیا گیارہواں مکان حسن کی ملکیت میں آگیا۔اس گیارہویں مکان کے باسیوں میں حسن کی بیوی،ان کی چھ بیٹیاں،ایک بیٹا شامل تھا۔لیکن ایک بات قابل ذکر تھی یا ہے۔بڑھتے کنبے،قرضداروں کے تقاضوں،ناموزوں زمانوں کے باوجود اس گیارہویں مکان کےصحن نے قہقہوں سے گونجنا نہ چھوڑا۔یہ گونج اس وقت صحن کی حدود پار کرلیتی جب لڈو میں بے ایمانی کر تے،پکڑے جانے، جان بچانے کے لئے کمروں میں بھاگتے،چارپائیوں پراترتے چڑھتےحسن کو گھیرنے اس کی بیٹیوں کو صحن سے کمروں اور کمروں سے صحن میں دڑکیاں لگانی پڑجاتیں۔ اور کبھار ایسی آوازوں سے،جنہیں چیخوں کا نام دیا جاتا ہے،اس وقت گونج جاتا جب حسن بدبودار ہوا خارج کرکےمٹھی میں پکڑے اسکول کاکام کرتی کسی بیٹی کے ناک آگے جا چھوڑتا۔بس پھر الامان والحفیظ۔وہ ہل چل مچتی کہ باقی گھر والے پیٹ پکڑے اوندھا اوندھ ہوجاتے۔اورجس دن پاکستان کا کرکٹ میچ ہوتا اس دن کی چہل پہل اور ہل ہنگام بیان سے زیادہ محسوس کرنے سا ہے۔اس دن حسن رکشا دھکیل کر صحن میں کھڑا کردیتا اور گلی سے ملحق چھوٹی سی بیٹھک میں تین چارپائیاں گھسا دی جاتیں۔ایک پر ٹی وی سجا کر باقی دو پر گھر والے ٹک جاتے۔پھینکی اور کھیلی گئی ہر گیند پر شرطیں لگائی جاتیں، جن میں حسن کے تکے سب سے زیادہ ٹھیک بیٹھتے۔پتا نہیں اس کی چھٹویں حس کی حساسیت درجہ کی آخری حد تک تھی کہ کوئی اور بات۔ مگر شرط ہارے جانے پر وہ باقی سب میں سے کم بارسزا کا نشانہ بنتا۔ اکثر تیسرے نمبر والی فاطمہ،چوتھے نمبر والی برکت یا چھٹے نمبر والےیاسین کو کسی وقت ایک ٹانگ پر کھڑا ہونا پڑتا تو کسی وقت ان کی کان پکڑے اٹھک بیٹھک لگی رہتی۔حسن کی باری اگرچہ کم آتی مگر اس کے لئے یہ سزا طے تھی وہ مرغا بن کر تین بار ککڑوں کوں بولے۔اب حسن تھاتو حسن۔ وہ مرغا بننے کے بجائے رکوع کی طرح جھک کر کھڑا ہوجاتا اوربکری کی آواز میں،میں میں کرنے لگتا، پھر سارے مل ملا کر بکری کو مرغا بنانے پر تل جاتے۔ کوئی اس کے سر کو نیچے جھکانے لگ جاتی، کوئی اس کے بازو پکڑکر اس کے ہاتھوں سے اس کے کان پکڑوانے کی کوشش کرتی، اور یاسین حسن کی کمر پر دونوں ہاتھوں سے بوجھ کرتا،مرغے کی کمر مطلوبہ جگہ لانے لگتا۔کچھ دیر کی زورازوری کے بعد حسن زوردار پاد چھوڑتا اور اکثر دوسرے کہ تیسرے پر اس کی جان بخشی ہوجاتی، اور سارے بکری اور مرغا بھلا کر،ناک پکڑے بیٹھک سے دوڑجاتے۔پھر حسن سارے گھر میں ناک رگڑتا،پاد نہ مارنے کے وعدے کرتا،ایک ایک کو کھینچ کر بیٹھک میں لاتا اور ٹوٹا سلسلہ وہیں سے جڑ جاتا۔اس ساری ہڑبونگ کی آوازیں حسن کے پڑوسی کلیم اللہ تک پہنچ کر اس کا خون کھولاتیں اور کلیم اللہ اپنے صحن میں پیچ و تاب کھاتا،گالیاں بکتا اور نسوار تھوکتا رہتا۔حسن سا چکنا گھڑا کہاں ان سب کا اثر لیتا۔کلیم اللہ کو حسن پر ایک اور غصہ بھی تھا۔وہ جوان بیٹیوں کو پردہ نہیں کرواتا۔سمجھانے کا فائدہ نہ دیکھنے پر کلیم اللہ یہ شکایت یعقوب مسجد کے امام و خطیب مولوی عبد الصمد تک بہی لے گیا مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات۔مولوی عبد الصمد نے ایک دن مناسب موقعہ جان کر رکشا روک کر حسن سے یہ بات چھیڑی تو وہ جیسے سنی ان سنی کر کے ساتھ والے محلے کے مولوی محمود الحسن کا ذکر کرتے اس کے بارےکم و بیش کہنے لگ گیا جس نے پار سال اپنی مسجد میں خطاب کرتے مولوی عبد الصمد اور ان کے فضلا کے لئےنا مناسب باتیں سر منبر سنادی تھیں۔مولوی عبد الصمدکے بھی کھرنڈ لگے زخم چھل پڑے اور انہوں نے راہ میں کھڑے کھڑے پندرہ کہ بیس منٹ مولوی محمودالحسن کے بارے مغلظات ارشاد فرماتے گزاردیے۔ حسن بھی بڑھ بڑھ کر ہاتھ چلاتا، لقمے دیتا رہا۔بعدازاں کلیم اللہ مولوی صاحب کے پاس شکایت دہرانے آیا تو انہوں نے رسان سے اسے پڑوسی سے حسن سلوک کا درس دیااور ساتھ ساتھ صبر کی تلقین بھی کردی۔ ظاہر ہے کلیم اللہ کو گالیاں بکنے اور نسوار تھوکنے تک محدود ہونا پڑا۔سورج چاند،گرمی سردی آتی جاتی رہی۔حسن کا رکشا اب بوڑھا لگنے تھا اورحسن کو دیکھیں تو بس خضاب کا فرق آیا تھا۔باقی وہ ویسے کا ویسا،بڑھاپے سے ایک فاصلے پرکھڑا نظر آتا تھا۔اس کی طبیعت بھی اسی طرز عمل پر جمی تھی اور گھر کے درودیواربھی پہلے والے ہنسوڑپن اور مزاح کے رنگ میں رنگے تھے۔ہاں اس کی تیں بیٹیاں رخصت ہوچلی تھیں۔بڑے والی ہاجراں اسی محلے میں اور تیسرے والی فاطمہ اسی شہر میں بیاہی گئی تھیں۔دوسرے نمبر والی حسنہ کی شادی حسن کے آبائی گاؤں میں اس کے چچا کے بیٹے کے لڑکےسے ہوئی تھی۔حسن کی اپنی شادی کے عوض۔پتا نہیں کیوں حسن اس شادی کے نہ ہونے کے ارادے میں تھا اور اس نے بھاگ دوڑ بھی کی۔مگر ممکن ہی نہ ہوا۔اس معاملے پر حسنہ کی سسرال جو حسن کی بھی تھی،سے حسن کی ٹھن گئی اور ان کی مدد میں حسن کےدیگر رشتے دارہی کیا پوری قوم حسن کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ان کا کہنا تھا کہ حسن اگر اپنے باپ کا سگا نہیں بنتا اور باپ کی زبان سے پھرتےاسے شرم نہیں آتی تو ہم ابھی اتنے بے شرم نہیں بنے۔ہم ایسے بے غیرت نہیں کہ حسن کے باپ کی قبر پر کسی کو تھوکنے کا بہانہ دیں۔ہم اس کے قول کے مطابق حسنہ کی شادی حسن کے سالے کے بیٹے سے کروائیں گے۔حسن شاید پہلی بار بےچارہ بن گیا۔اس نے اپنا گاؤں تو بدل لیا تھا مگر قبیلہ اور رواج کیسے بدلتا۔ناچار حسنہ کو بیاہ کر سندھ بلوچستان کی سرحد پر بلوچستان کی حدود کے کئی کوس اندربیاہ کرجاناپڑا۔حسن سے وہ بہت دور ہوگئی۔حسن اس سے ملنے صبح نکلےتو مغرب کے قریب جا پہنچے۔اورلازماً دوسری صبح واپسی۔اگر ایک دن اور ٹک جائے تو یاسین کو دسویں کلاس کے سبق چھوڑ کر دو دن کے بجائے تین دن رکشا چلانا پڑجائے۔حسن کو یاسین کی اسکول سے دو دنوں کی چھٹی بھی قبول نہ تھی۔ اسی لئے حسنہ کے پاس سال دوجے سال جا پانا ممکن ہو پاتا۔حسن وہاں جاتا تو وہ باغ و بہار ہوجاتی۔باپ بیٹی سے چہلیں کرتا،چٹکلے سناتا رات بھراس کے ساتھ لگابیٹھارہتا۔بیٹی بہی اس سے الگ ہونا قبول نہ کرتی۔ اس دوران حسن بیٹی کے گھر کے ماحول کو دیکھتا اور اس کی خوشی جانچنے کی سوچ بہی ساتھ رکھتا۔مگر اس نے اسے کبھی غمزدہ یا دل گرفتہ محسوس کرنے میں کامیابی حاصل نہ کی۔وہ باپ کے ساتھ اسی طرح کھل کر ہنستی اور ہاتھ پر ہاتھ مارتی رہتی۔صبح جب حسن کے واپس جانے کا وقت آتاحسنہ باپ کے وقت رخصت اس سے چمٹ کر کھڑی ہو جاتی اور حسن کی نہ جانے کیوں جون ہی بدلنے لگتی۔وہ حسنہ کے سر پر دھپ بھی مارنے کی ہمت نہ کرپاتا۔واپسی کا سفر وہ چپ چپاتےاپنی گود میں رکھے ہاتھوں کو گھورتا گذار دیتا۔رات کو جاگے ہونے باوجود نیند اس کے قریب نہ ہوتی۔حالانکہ آتے ہوئے وہ بس میں بیٹھے مسافروں کے ساتھ ساتھ چیزیں بیچنے بس میں چڑھنے والوں کی بھی ٹانگیں کھینچتا آتا۔ایک صبح وہ حسب معمول منہ اندھیرے اٹھ کر رکشے کو کوٹڑی کی گلیوں سے گذارتا کوٹڑی پل کے راستے حیدرآباد کے لئے نکلا۔اس نےجوں ہی کوٹڑی پل سے پہلےوالے موڑ سے رکشا موڑتے چڑھائی چڑھنا شروع کی تو اس کے بوڑہے ہوتے رکشا کی پھٹ پھٹ بلند ہوتی گئی۔ اسے اچانک پھیلتی روشنی میں بیچ سڑک ایک بلی بیٹھی نظر آئی۔رکشا اسی رفتار سے چلتا آیا مگر حسن کویہ دیکھ کر عجیب لگا نجانے کیوں بلی اسی جگہ جمی رہی۔اس نے کسی خیال میں رکشا روکا اور بلی کو ہشکانے لگا مگر وہ ہلی تک نہیں۔حسن رکشا روک کر اترا اور قدم قدم رکھتا بلی کے نزدیک ہونے لگا۔وہ اسی طرح اپنے اگلے پاؤں کے سہارے، سڑک سے قدرے بلند، اسی جگہ ٹکی معصومانہ نظروں سے دیکھتی رہی۔اور تو اور حسن کے اتنے قریب جانے کے باوجود بلی نے آواز تک نہ نکالی۔حسن نے بلی اٹھائی تو اسے اندازہ ہوا کہ بلی کی پچھلی ٹانگیں کسی گاڑی نے کچل دی تھیں۔ وہ ہلنے جلنے سے معذور حالت میں تھی۔اس نےبلی کو گود میں بٹھایا اور رکشا گھر کی جانب موڑ دیا۔ بلی کی مرہم پٹی کرتے اچانک اسے حسنہ کی آنکھیں یاد آگئیں۔بلی کی آنکھوں میں اور ان میں کوئی فرق نہ تھا۔