Laaltain

ملا نصرالدین ــ ایک سیاسی و معاشرتی تحریک

24 فروری، 2017
وسط ایشیائی مسلمان ریاستوں سے ابھرنے والا شہرۂ آفاق کردار ملا نصرالدین جسے ملا، خواجہ، حوجہ اور آفندی نصرالدین، کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، دنیا بھر میں عالم اسلام کا مشہور ترین ادبی اور داستانی کردار ہے۔ ان کے وطن مالوف اور قومیت کے بارے میں اختلافات ہیں۔ مقبول روایات کے مطابق وہ ترکی کے شہر قونیہ کے قریب چودہویں صدی عیسوی میں پیدا ہوئے اور وفات بھی وہیں پائی۔ ایرانیوں کا دعوی ہے کہ وہ ایران کے صوبہ آذرآبادگان سے تھے اور مشہور عالم دین امام فخرالدین رازی کے شاگرد تھے۔ اسی طرح ازبکستان کے ان کا وطن ہونے کا دعوی لیونسولوویف نے کیا جو کہ خود طرابلس میں پیدا ہوا تھا، دوسری عالمی جنگ کے دوران روس کی بحری فوج میں رہا اور بعد ازاں ازبک زبان کا نامور لکھاری بنا۔

 

مغرب میں ملا نصرالدین کے حالات زندگی پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جن میں جارج بارو (George Borrow) کی کتاب “The Turkish Jester” مطبوعہ 1884 قابل ذکر ہے جس میں ملا نصرالدین کی ظرافت اور لوک دانئی (Folk Wisdom) کے ساتھ ان کی حماقتوں کے قصے بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ان قصوں کا ایک اہم کردار ملا کا گدھا ہے جو کہ انہیں صحیح معنوں میں ایک عوامی کردار بناتا ہے۔ ملا ایک سیمابی طبعیت کے آدمی تھے اور انہوں نے کئی پیشے اختیار کیے جبکہ کئی ملکوں کا سفر بھی کیا۔

 

ملا سے منسوب اکثر قصوں میں صرف تفنن کا پہلو موجود ہے جو کہ اپنی سطحیت کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند اور تیسری دنیا میں مشہور ہیں لیکن شمالی کرے اور مغرب کے ممالک میں ملا نصرالدین کو ایک سیاسی و معاشرتی تحریک اور ایک مصلح (Reformer) کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ مصلح جس نے اپنی ظرافت اور طنزیہ صلاحیتوں سے اس زمانے کے عالم اسلامی کی سیاسی اور معاشرتی بدحالی پر چوٹ کی۔ ملا کی حماقتوں کا تربیتی پہلو اگر گزشتہ صدی کے کسی قصہ نویس کے ہاں نظر آتا ہے تو وہ لیوند سولوویف کی کتاب “The tales of Hodja Nasruddin” ہے۔ یہ کتاب “The begger in Heram” اور “Disterber of peace” کے عنوان سے مغرب میں بھی شائع ہوئی۔ اس کتاب میں ملا نصرالدین کی شخصیت کا انقلابی اور مزاحمتی پہلو نظر آتا ہے جوکہ چودہویں صدی عیسوی کے عالم اسلام کی اکثر جبری حکومتوں اور ملوکیت کے ردعمل میں سر اٹھاتا نظر آتا ہے۔ یہ زمانہ وسط ایشیا میں بادشاہوں کی مطلق العنانیت کے عروج کا زمانہ تھا۔ مسلمان رعایا اسلام کے نام پر ہر طرح کے استحصال کو راضی برضا برداشت کر رہے تھے۔ حکمرانوں کی اخلاقی حالت ابتر ہو چکی تھی اور رعایا ازحد بے حمیّت اور حریص ہو چکے تھے۔ دفاع کمزور پڑ رہا تھا اور سپاہی کام چور، بزدل اور بھاڑے کے ٹٹو بن چکے تھے۔ تمام طرح کے علوم و فنون پر جاہل عطائیوں کی اجارہ داری تھی اور ابو اسحاق، ابن رشد اور الکندی جیسے علماء و فیلسوف کی تعلیمات پر جھوٹ اور زندقہ کے الزامات لگ رہے تھے۔ اس پہ طرہ، جبر اور گھٹن بھی اسلامی معاشرے میں اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ حق کی بات پر سر کٹنا معمول بن گیا تھا۔ ایسے میں حماقت کے پردے میں حق کی بات کہنا اور گاؤدی کے بھیس میں معاشرتی اصلاح کی تحریک ملا نصرالدین کا اصل کارنامہ ہے جو کہ سولوویف کی کتاب میں بخوبی بیان کیا گیا ہے۔

 

ملا نصرالدین نے جس عیاری سے بخارا کے عوام کو محصولات کے خلاف ابھارا، وہ دراصل ان کے اقتصادی شعور کی جدت پسندی اور بلوغت کا اظہار تھا۔ انہوں نے مذہب کے نام پر بننے والے مالیاتی قوانین (اور دیگر ناروا محصولات) اور بادشاہ کے ہر حکم کو حکم خداوندی سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی روش کے خلاف جو آواز اٹھائی، اس پر ملا نصرالدین کو ملحد بھی قرار دیا گیا اور ان کے خلاف قتل کے فتاویٰ بھی جاری ہئے۔ ترک لوک کہانیوں میں بھی ملا کے الحاد کے دلچسپ شواہد ملتے ہیں۔ مشہور عرب کردار عمرو بن وہب (جسے بہلول کے عرفی نام سے بھی جانا جاتا ہے) اموی دور حکومت میں بنوہاشم کی حمایت میں سیاسی تحریک کے لیے دیوانگی کا سہارا لینے کی ایک اور مثال بھی تاریخ میں ملتی ہے لیکن عمرو سے منسوب کئی واقعات ملا نصرالدین سے بھی منسوب ہیں۔ یہاں نکتہ یہ ہے کہ ایسے دیوانے اپنی ذات میں تحریک ہوا کرتے ہیں۔

 

جمیز جسٹینئین موریئر (J.J. Morrier) نے 1825 میں مطبوعہ اپنی کتاب “The adventures of Hadji Baba of Isphahan in England” میں ایرانی ثقافت کا جو مذاق اڑایا ہے وہ بھی اپنی جگہ ایک مزاحیہ داستان سہی لیکن اس میں زوال پذیر مسلمان سلطنتوں کی معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی پسماندگی پر شدید طنز ملتا ہے۔ تاہم ‘حاجی بابا’ کے کردار کو وہ دوام اور شہرت نہیں مل سکی جو ملا نصرالدین کے حصے میں آئی۔ سولوویف نے ایشیائی ہونے کے ناتے سے جو انصاف اپنے موضوع کے ساتھ کیا ہے، وہ امتیاز موریئر اور جارج بارو جیسے انگریزوں کو حاصل نہ ہوا۔ اس کی داستان میں اسلامی ثقافت، مسلمانوں کی نفسیات اور ایشیا کے مسلمانوں کے مسائل کا گہرا ادراک ملتا ہے۔

 

برصغیر پاک و ہند میں ملا نصرالدین کو اب بھی صرف ایک مزاحیہ داستانی کردار کے طور پر لیا جاتا ہے جبکہ مغرب میں ان کی ظرافت اور طنز اور تاریخ ساز شخصیت کے پیش نظر یونیسکو (UNESCO) نے 1997ء کے سال کو دنیا بھر میں ملا نصرالدین کے سال کے طور پر منایا۔ ہمارے ہاں ملا نصرالدین کی شخصیت کے تربیتی پہلو کو عوام میں متعارف کروانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم جن معاشرتی اور سیاسی تجربات سے گزر رہے ہیں، وہ ملا نصرالدین کے زمانوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *