youth-yell-featuredI am Malala کتاب پر ایک مرتبہ پھرتبصرے ، تجزیئے ، تشریحات اور اعتراضا ت کی بوچھاڑ جاری ہے ۔ ٹی وی چینلز کے پیشہ ور صحافی حسب معمول اس کتاب کو یہود ونصاریٰ کے علاوہ ہندوستانی و قادیانی سازش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اوریا مقبول جان اور انصار عباسی جیسے نرم خُو طالبانی باریش صحافی حضرات اس کتاب کے مندرجات کو بارہا "متنازع” بنا کر ملک اور اسلام دشمن قرار دے چکے ہیں۔ رہی سہی کسر ڈاکٹر دانش جیسے پیشہ ور ٹی اینکر نے چیخ وپکار کر کے پوری کر دی ہے جیسے تھر کے غریب بچے غذائی قلت اور امراض سے نہیں ، بلکہ ملالہ کی کتاب کے مندرجات یاد کرتے ہوئے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔

جس قسم کے اعتراضات ملالہ، اس کی کتاب اور اسے ملنے والی پذیرائی پر کیے جا رہے ہیں وہ انجینئر فرید صاحب کے کشش ثقل پر کیے گئے اعتراضات جیسے ہی ہیں۔
حیرت ہوتی ہے کہ پاکستانی سماج میں اس کتاب کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے؟ دنیا بھر میں ایسی کئی کتابیں شائع ہوتی ہیں جو اپنے اندازِ تحریر یامندرجات کے باعث اختلاف رائے کا راستہ کھول دیتی ہیں، جن پر اعتراضات کے طوفان کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن ان کا جواب دلیل سے ہی دیا جاتا ہے۔ ویسے بھی انگریزی زبان سے نابلد عوام کی کثیر تعداد نے اس کتاب پر کون سی مغزماری کرنی ہے؟ اس سےقبل سابق صدر پرویز مشرف کی کتاب "سب سے پہلے پاکستان ” بھی منظر عام پر آئی جس کے مندرجات پر بھی اسی طرح بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ اب وہی کتاب لاہور میں پرانی انار کلی کے قریب فٹ پاتھ پر کتب فروشوں کی بوریوں میں بند پڑی ہے۔ جہاں تک اس کتاب کے متنازعہ مندرجات کی بات ہے تو اس کا نہایت آسان طریقہ تو یہ ہےکہ ملالہ ان کے والد بزرگوار یا کرسٹینا لیمب کو کسی ایک چینل پر بٹھا کر ان سے براہ راست سوالات پوچھ لیے جائیں کہ آپ نے قائد اعظم کو جناح کیوں لکھا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے آگے درود کے الفاظ کیوں نہ تحریر کیے؟ لیکن ٹی وی چینلز ، سوشل میڈیا اور بلاگ وغیرہ میں ملالہ یوسف زئی پر یک طرفہ بیان بازی کرتے ہوئے اپنی ایمانی تاویلات پیش کر کے نسیم حجازی کے سربکف مجاہدین بننا کہاں کا انصاف ہے ؟

جس قسم کے اعتراضات ملالہ، اس کی کتاب اور اسے ملنے والی پذیرائی پر کیے جا رہے ہیں وہ انجینئر فرید صاحب کے کشش ثقل پر کیے گئے اعتراضات جیسے ہی ہیں۔ عین ممکن ہے کشش ثقل کے ڈھونگ کی طرح ملالہ یوسف زئی نامی کسی لڑکی کا سرے سے وجود ہی نہ ہو، اور اگر ہو تو اس پر کوئی حملہ نہ ہوا ہو اور اگر حملہ ہوا ہو تو بھی چڑیا مارنے والی بندوق سے کیا گیا ہو۔۔۔۔۔۔ پاکستان کے جہادی و فسادی ماحول میں یہ بات تسلیم کرانا کون سا مشکل ہے کہ ملالہ یوسف زئی اور اس کا خاندان یہودی ایجنٹ ہے، اس ناخلف اور نافرمان لڑکی کی کتاب کسی اسلام دشمن یہودی، ہندوستانی، قادیانی، پارسی، مسیحی یا دلت کی تحریر کا دیباچہ بھی ہو سکتی ہے یا اس کے کچھ مندرجات کسی اسلام دشمن بدکردار، بدنام زمانہ، خفیہ ایجنسی کے ذہین و فطین ملازم نے لکھے ہوں۔ اور ہو سکتا ہے کہ حال ہی میں پاکستانی عدالت نے ملالہ یوسف زئی پر حملہ کرنے والے جس گروہ کو سزا سنائی وہ بھی ہمارا وہم ہی ہو۔ ملالہ یوسف زئی سے متعلق "ابہام” اپنی جگہ لیکن پاکستان کے 70ہزار عوام کے قاتل اور ان کے ہمدرد اور حمایتی تو ایک حقیقت ہیں۔ جو آج بھی ہماری ریاست کے بدترین دشمن ہیں جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ہماری سالمیت و بقا کے لیے بدستور خطرہ ہیں جو ہمارے آئینی، قانونی، نجی اور سرکاری اداروں کی بنیادیں کمزور کر رہے ہیں، جو علم کے گہواروں کو تاریکی میں دھکیلنے کی مکروہ کوشش میں مصروف ہیں ان سے متعلق ابہام اور خاموشی کیوں؟

ملالہ پر حملہ اگر ڈرامہ اور سازش ہے تو کیا ہزاروں پاکستانیوں پر طالبان کے حملے اور قتل و غارت بھی ایک سازش اور ایک ڈرامہ ہے؟
ملالہ پر حملہ اگر ڈرامہ اور سازش ہے تو کیا ہزاروں پاکستانیوں پر طالبان کے حملے اور قتل و غارت بھی ایک سازش اور ایک ڈرامہ ہے؟ ملالہ یوسف زئی کی کتاب پر واویلا اور شوروغل مچانے والے لکھاری اور صحافی ہم پر حملہ آور ہونے والوں کے بارے میں بات کرنے سے کیوں گریزاں دکھائی دیتےہیں ؟ وہ جنہوں نے علم کا راستہ گولی سے روکا، بارود لگا کر سینکڑوں سکولوں کو ملبے کا ڈھیر بنا یا، جن کی خون آشام وارداتوں کا نقطہ عروج آرمی پبلک سکول میں معصوم اور بے گناہ بچوں کا قتل عام تھا، وہ جو سرے سے آئین پاکستان کو تسلیم کرنے سے علی الاعلان انکار ی ہیں، جو اسلام کو قتل وغارت کا مذہب بنانے میں سرگرداں ہیں جو آج بھی ہماری دانش گاہوں کو اجاڑنے کے درپے ہیں، جو سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو دہشت زدہ کر رہے ہیں ان کی مذمت کرنے کو کوئی تیار کیوں نہیں ہے؟ ایک عام طالب علم کے والدین ملالہ پر حملہ کرنے والوں سے کتنے خوفزدہ ہیں ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے جہادی و فسادی قارئین و لکھاری ہر گز نہیں جانتے۔

اپنے مذہبی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے قتل وغارت گری کو جائز قرار دینے والوں کے حمایتی و مددگار ہمارے سماج میں آج بھی موجود ہیں ۔گلی کوچوں ، محلوں اور بازاروں میں ان کے پیروکار عام لوگوں کے لیے خوف اور دہشت کی علامت بن چکے ہیں جو اپنے مخصوص مفادات کی خاطر اپنے مدمقابل حریف پر کسی بھی قسم کا الزام لگانے سے نہیں ڈرتے۔ جہالت، ناخواندگی اور لالچ کی گود میں پلنے والے یہ شرپسند عناصر اب ہمارے پورے سماج میں ایک زہر کی طرح سرایت کرچکے ہیں۔ چہروں پر ڈاڑھیاں سجائے یہ سفاک دہشت گرد امن پسند اور صلح جو علمائے کرام کے ماتھے پر بھی بد نما داغ بن چکے ہیں۔ ہمیں انہیں بے نقاب کرنے اور انہیں بے بنیاد ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply