ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں اس نے مذہب کے تحفظ، ترجمانی اور تشریح کے جملہ حقوق ازراہِ عقیدت مولوی صاحبان کو تھما رکھے ہیں۔ملاحضرات زندگی کے تقریباً ہر شعبے کواپنے عقیدے اور اپنے مسلک کی عینک لگا کے دیکھتے ہیں اور ہماری رہنمائی کا فریضہ سَر انجام دیتے ہیں ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے كہ ہم نے سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کا اختیار انہیں تفویض کیا ہوا ہے ۔نتیجتاً علماء حضرات نے ریل گاڑی سے ڈی این اے ٹیسٹ تک ہر چیز پہ طبع آزمائی کرتے ہوئےہمیں فکری جمود کا شکار کیا ہے۔
مذہب سے غیر متعلقہ ہر چیز کو بھی مذہب کے نقطہ نظر سے دیکھنے کے باعث سوچنے، سوال اٹھانے، تحقیق کرنے، اپنی غلطی تلاش کرنے اوراپنی اصلاح کرنے کاعمل معاشرے میں مفقود ہوچکا ہے۔ جب بھی علم و فکر کے کسی متلاشی نے کسی عالم، مذہبی رہنما یا مقدسات کے طرز عمل پہ تنقید کی یا سوال اُٹھائےتواسے براہ راست اسلام پہ حملے اورکفریہ سازش سے تعبیر کیا گیا ،گویا ملا صاحبان سے اختلاف انسان کو دائرہ اسلام سے باہر کرنے اورغداروں کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے کافی ہے۔ اِس معاملے میں شدت پسندی اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ روایتی مذہبی تشریحات اور قدماءسے اختلاف کرنے والے معتدل رائےکے حامل علماء کو بھی انتہا پسند طبقات کی تنقید اور شدت پسندی کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ یہ انتہا پسندی خواہ وہ احتجاجی مظاہروں، توڑ پھوڑ یا طعن و تشنیع کی شکل میں ہو یا انتہا پسندوں کی طرف سے گولیوں کی صورت میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے فکری جمود کا شاخسانہ ہے۔یہ فکری جمود اختلاف راے کو جرم قرار دیتاہے۔
مذہب سے غیر متعلقہ ہر چیز کو بھی مذہب کے نقطہ نظر سے دیکھنے کے باعث سوچنے، سوال اٹھانے، تحقیق کرنے، اپنی غلطی تلاش کرنے اوراپنی اصلاح کرنے کاعمل معاشرے میں مفقود ہوچکا ہے۔ جب بھی علم و فکر کے کسی متلاشی نے کسی عالم، مذہبی رہنما یا مقدسات کے طرز عمل پہ تنقید کی یا سوال اُٹھائےتواسے براہ راست اسلام پہ حملے اورکفریہ سازش سے تعبیر کیا گیا ،گویا ملا صاحبان سے اختلاف انسان کو دائرہ اسلام سے باہر کرنے اورغداروں کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے کافی ہے۔ اِس معاملے میں شدت پسندی اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ روایتی مذہبی تشریحات اور قدماءسے اختلاف کرنے والے معتدل رائےکے حامل علماء کو بھی انتہا پسند طبقات کی تنقید اور شدت پسندی کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ یہ انتہا پسندی خواہ وہ احتجاجی مظاہروں، توڑ پھوڑ یا طعن و تشنیع کی شکل میں ہو یا انتہا پسندوں کی طرف سے گولیوں کی صورت میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے فکری جمود کا شاخسانہ ہے۔یہ فکری جمود اختلاف راے کو جرم قرار دیتاہے۔
جب بھی علم و فکر کے کسی متلاشی نے کسی عالم، مذہبی رہنما یا مقدسات کے طرز عمل پہ تنقید کی یا سوال اُٹھائے تواسے براہ راست اسلام پہ حملے اورکفریہ سازش سے تعبیر کیا گیا، گویا ملا صاحبان سے اختلاف انسان کو دائرہ اسلام سے باہر کرنے اورغداروں کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے کافی ہے۔
پاکستان میں مقبول عام نظریات کے علاوہ کسی نظریے پہ یقین رکھنا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ غداری سے لے کفر تک کے فتووں سے با آسانی لگایاجا سکتا ہے ۔ ہماری درسی کتب سے لیکر معاشرتی طرز عمل تک ہمیں ہر بات کو مقررہ زاویوں سے ہی دیکھنا سکھایا جاتا ہے ۔یہاں کسی بھی دینی شخصیت پہ تنقید کا مطلب خود کو صلیبی ایجنٹ ثابت کرنا ہے اورکسی بھی فرقے سے اختلاف کا مطلب خود کو کافر قرار دینا ہے کیوں کہ ہمیں شروع سے ہی اختلاف رائے اورآزادی اظہار رائے کی تربیت ہی نہیں دی جاتی۔ دنیا کودین و مذہب کی رو سے پرکھنا سکھایا جاتا ہے اور عموماً اپنی غلطی ماننے سے گریز کر تے ہوئےخامیوں اور ناکامیوں کو الزامات، سازشی مفروضوں اور اسلام دشمنی کی دھول اڑا کر چھپانے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ تمام طبقات اور سیاسی جماعتیں بھلے وہ لبرل ہو یا یا دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں کوئی بھی اختلاف برداشت کرنے اور مکالمہ کا آغاز کرنے کا قائل نہیں نتیجتاً ایک ایسا گھٹن بھرا ماحول پنپ رہاہے جس میں تحقیق اور اصلاح کی گنجائش کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ دینی حلقوں کے نزدیک ان سے اختلاف رکھنے والا ہرشخص لا دین اور مغرب کا پیروکار ہے کیوں کہ ہر مذہبی جماعت خود کو اسلام کی واحد نمائندہ جماعت سمجھتی ہے ۔جبکہ دوسری طرف سیکولر و لبرل طبقات کی طرف سے بھی معتدل طرز عمل کی بجائے اکثر مذہبی عقائد کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جومقامی لوگوں کی روحانی وابستگی کے باعث ان کے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے اور اشتعال کا باعث بنتا ہے۔
ہمارے ہاں کسی دوسرے کی نقطہ نظر سے آگَہی اوراعتقادات کا مطالعہ بہتر تفہیم کی بجائے استرداد اور خامیوں کی نشاندہی کی نیت سے کیا جاتا ہے۔ اس کا عملی مشاہدہ یو ٹیوب پہ ” ایکسپوزڈ ” کے عنوان کے تحت دی جانے والی ویڈیوز یا سیاسی جماعتوں اور ان کے حامیوں کی سوشل میڈیا پوسٹوں وک دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ ہماری رائے میں مطلق العنانیت کا عنصر ضرور شامل ہوتا ہے اورہم مباحث کے دوران اپنی جگہ سے ہلنے کے لیے ذرا بھی تیار نہیں ہوتے۔ یہ تمام عناصر عدم برداشت کی اس فضا کا باعث ہیں جسکا سامناہمیں عوامی مقامات، درسگاہوں اور عبادت گاہوںمیں کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے ہاں کسی دوسرے کی نقطہ نظر سے آگَہی اوراعتقادات کا مطالعہ بہتر تفہیم کی بجائے استرداد اور خامیوں کی نشاندہی کی نیت سے کیا جاتا ہے۔ اس کا عملی مشاہدہ یو ٹیوب پہ ” ایکسپوزڈ ” کے عنوان کے تحت دی جانے والی ویڈیوز یا سیاسی جماعتوں اور ان کے حامیوں کی سوشل میڈیا پوسٹوں وک دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ ہماری رائے میں مطلق العنانیت کا عنصر ضرور شامل ہوتا ہے اورہم مباحث کے دوران اپنی جگہ سے ہلنے کے لیے ذرا بھی تیار نہیں ہوتے۔ یہ تمام عناصر عدم برداشت کی اس فضا کا باعث ہیں جسکا سامناہمیں عوامی مقامات، درسگاہوں اور عبادت گاہوںمیں کرنا پڑتا ہے۔
جب ہمارا معاشرہ مذہبی تعلیم کے اداروں کو اپنے زرخیزاذہان مہیا نہیں کر رہا تو پِھر معاشرے کو مدارس سے فارغ التحصیل علماء سے زیادہ توقعات بھی وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔
ہر چیز کو مشرق اور مغرب کی نظر سے دیکھنے کا ایک نقصان یہ بھی ہوا ہےكہ ہم اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو بدنامی کے ڈر سے نہ صرف چھپانےلگے ہیں بلکہ ان کا ہر ممکن دفاع بھی کرتے ہیں۔مغرب سے آنے والی یا حمایت یافتہ ہر تبدیلی، سوچ اور ایجاد سازشی نگاہوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔
مذہب کی عینک سے ہر معاملہ کو دیکھنے کا قصور وار محض علماء کو نہیں قرار دیا جا سکتا، مذہبی تعلیم کا غیر معیاری نظام اور اسلام کی تشریح کا اختیار ان طلبہ کے ہاتھ میں دے دینا جوغیر معیاری نصاب، طریقہ تدریس اورفرقہ پرست اساتذہ سے تعلیم حاصل کرہے ہیں ان مسائل کی اصل وجہ ہیں۔مدرسوں میں جانے والے بچوں میں سے بہت کم ایسا ہوتے ہیں جو شوق كی خاطر اِس شعبے میں آتے اورتعلیم حاصل کرتے ہیں زیادہ تر طلبہ کو دینی تعلیم کے حصول پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جب ہمارا معاشرہ مذہبی تعلیم کے اداروں کو اپنے زرخیزاذہان مہیا نہیں کر رہا تو پِھر معاشرے کو مدارس سے فارغ التحصیل علماء سے زیادہ توقعات بھی وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ نکاح، طلاق، نماز ، روزے اور جنازے کے علاوہ علماء حضرات کو معاشرے میں وہ فعال کردار ادا نہیں کر پارہے جو بحیثیت ایک مذہبی رہنما وہ کر سکتے ہیں، علماء کے اس غیر ترقی پسندانہ رویہ کی بنیادی وجہ دقیانوسی مذہبی تعلیم اور اختلاف رائے کے لئے مذہبی حلقوں میں پایا جانے والا عدم برداشت کا رویہ ہے۔
مذہب کی عینک سے ہر معاملہ کو دیکھنے کا قصور وار محض علماء کو نہیں قرار دیا جا سکتا، مذہبی تعلیم کا غیر معیاری نظام اور اسلام کی تشریح کا اختیار ان طلبہ کے ہاتھ میں دے دینا جوغیر معیاری نصاب، طریقہ تدریس اورفرقہ پرست اساتذہ سے تعلیم حاصل کرہے ہیں ان مسائل کی اصل وجہ ہیں۔مدرسوں میں جانے والے بچوں میں سے بہت کم ایسا ہوتے ہیں جو شوق كی خاطر اِس شعبے میں آتے اورتعلیم حاصل کرتے ہیں زیادہ تر طلبہ کو دینی تعلیم کے حصول پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جب ہمارا معاشرہ مذہبی تعلیم کے اداروں کو اپنے زرخیزاذہان مہیا نہیں کر رہا تو پِھر معاشرے کو مدارس سے فارغ التحصیل علماء سے زیادہ توقعات بھی وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ نکاح، طلاق، نماز ، روزے اور جنازے کے علاوہ علماء حضرات کو معاشرے میں وہ فعال کردار ادا نہیں کر پارہے جو بحیثیت ایک مذہبی رہنما وہ کر سکتے ہیں، علماء کے اس غیر ترقی پسندانہ رویہ کی بنیادی وجہ دقیانوسی مذہبی تعلیم اور اختلاف رائے کے لئے مذہبی حلقوں میں پایا جانے والا عدم برداشت کا رویہ ہے۔
مُلا جو کبھی ایک مثبت سوچ کا حامل شخص تھا، داڑھی جو کبھی تقدس کی علامت تھی، شلوار قمیض شریفوں کا لبادہ، اور دین مساوات محبت اور امن کا پرچارک۔ لیکن یہ سب علامتیں اور نشانیاں اب ایک پراسرار اور خوف میں لپٹی کہانیاں کیوں بن گئی ہیں۔؟
مسجدیں جو کبھی امن اور عافیت کی جگہیں تھیں وہاں بالخصوص بچوں کے جنسی استحصال کی کہانیاں ہیں یا پھر اشتعال انگیزی پر مبنی وعظ۔ لیکن کیوں؟
جو دروازے لوگوں پر چوبیس گھنٹے کھلے رہتے تھے اب ان کے اوقات مقرر ہیں اور آنے جانے والوں خاص طور پر ہر نو وارد کو مشکوک نظروں سے گھورا جاتا ہے۔ اللہ کے گھر کی حفاظت انسان کر رہے ہیں۔ لیکن سوال وہی کہ اس حفاظت کی نوبت کیوں کر آئی۔
we still live in world of denial ….!!!