
وہ کہتے ہیں ناں کہ حسِ رپورٹرانہ جینے نہیں دیتی لیکن کیا کیجیے کہ بروز جمعرات ‘لگی ساون کی جھڑی تھی’، اور بقول چوہدری نثار صاحب، ‘موسم اس قدر خراب تھا کہ کوئی پرواز بھی وفاق کی جانب جانے کو تیار نہیں تھی’۔ اگر وزیر داخلہ جیسے ‘صاحب وسائل’ بھی بے ایمان موسم کے آگے بے بس تھے تو پھر بھلا ہم جیسے معمولی صحافیوں کی کیا اوقات۔ بس اسی لیے ‘معرکہ حق و باطل بمقام جناح ایونیواسلام آباد’ کا نظارہ دیکھنے سے محروم رہ گئے (جس کا ہمیں زندگی بھر افسوس رہے گا) لیکن۔۔! رہیں یار سلامت تو پھر کس چیز کی کمی ہے۔ اور یار دوست اگر ہوں بھی رپورٹر تو پھر چائے کا کپ بھی مائیک ہی دِکھتا ہے۔ دستیاب شدہ تمام ٹی وی چینلز دیکھ مارے، رواں تبصروں کی بہتات، گویا تبصروں کا سیلاب امنڈ آیا ہو۔ تشنگی پھر بھی باقی رہی، ڈراپ سین بھی ہو گیا، ہیرو اور ولن کا تعین بھی آناً فاناً طے پا گیا لیکن ہائے۔۔۔ ‘حس رپورٹرانہ’!
اب سن لیجیے۔ چند ایک رپورٹرز ایسے بھی ہیں جن کے ہوش و حواس ہمیشہ بدرجہ اتم قائم و دائم رہتے ہیں۔ ہم نے بھر پور کوشش کی کہ ان سے مسلسل رابطے میں رہا جائے۔ ڈراپ سین کے بعد دو چار تفصیلی ٹیلی فونک نشستوں میں ‘مدعے’ کو سمجھنے کی کوشش کی تو برادر رائے شاہنواز (موصوف کا تعلق بھی حافظ آباد سے ہے) فرمانے لگے کہ کنول بی بی اور مرد مومن قبلہ سکندر صاحب ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان پر یقین کامل کر چکے تھے۔ بس ذرا سے ‘سیف پیسج’ کی حسرت باقی رہ گئی تھی۔ اس تناظر میں اس ‘شرعی’ جوڑے کو میڈیا سے دور کرنا مقصود تھا۔ ڈاکٹر رضوان نے اپنے تیئں تنبو لگا کر کسی حد تک میڈیا کو دور کرنے کی کوشش بھی کی۔ اور دوسری جانب ‘مقدر کے سکندر’ کو سندیسہ بھجوایا کہ وہ بھی اب ٹی وی چینلز پر ‘ایکسکلوزو خطبے’ بند کر دے۔ اس بیچ زمرد خان صاحب بھی آن پہنچے۔ یقینا ان کا اقدام دلیری اور بہادری کے زمرے میں آتا ہے لیکن اس ‘بہادری’ کی وجہ سے ڈاکٹر رضوان کا پلان شاید چوپٹ ہو گیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ جناب یہ ڈرامہ تھا ورنہ جب زمرد خان سکندر کو دبوچنے کے چکر میں گر پڑے تھے تو موقع پانے کے باوجود سکندر نے ان پر گولی کیوں نہ چلائی؟ تو اس کا بڑا آسان سا جواب ہے۔ مندرجہ بالا جملوں کو پھر سے پڑھ لیجیے۔ اوہ حضور، گولی اسی لیے نہیں چلائی کیونکہ یہ بات درست تھی کہ ‘شرعی جوڑے’ اور ڈاکٹر رضوان کے بیچ معاملات کافی حد تک طے پا گئے تھے۔ جس میں یقین کریڈٹ ڈاکٹر رضوان کو ہی جاتا ہے جنہوں نے موصوف اور موصوفہ کو یقین کامل کرنے پر مجبور کر ڈالا۔ اور اس بات کا برملا اعتراف کنول بی بی اپنی زبانی اسپتال پہنچ کے کر چکی ہے۔
رہی بات میڈیا کوریج کی، تو کوریج ضرور ہونی چاہیے تھی، بھرپور ہونی چاہیے تھی، مگر بہت بہتر انداز میں ہو سکتی تھی۔ نجم سیٹھی صاحب کو سنا، فرمایا، میڈیا کا کام ہی دکھانا ہے، دنیا بھر میں ایسے واقعات ہوتے ہیں اور میڈیا بھرپور کوریج کرتا ہے۔ سیٹھی صاحب نے تمام تر ذمہ داری حکومت پر ڈال دی۔ گزارش ہے کہ ہر ملک کے اپنے اپنے مسائل ہوا کرتے ہیں، جن کا تعین وہاں کے حالات و واقعات کرتے ہیں اور ہر ملک دستیاب حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی ترتیب دیتا ہے، جن میں سے کچھ کا تعلق قومی مسائل سے ہوتا ہے اور کچھ کا بین الاقوامی معاملات سے۔ اور یہ بات جناب سیٹھی صاحب اس ناچیز سے ہزاروں گنا بہتر جانتے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا جن ممالک کی ترجمانی کرتا ہے ان کے ہاں صحت عامہ، معیشت، حکومتی اصلاحات، ٹیکس، تعلیم، اور اِکا دُکا دہشت گردی کے واقعات شہ سرخیاں بنتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں، شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب سرخیاں واقعی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات سے ‘سرخ’ نہ ہوتی ہوں۔
پہلے بھی کسی تحریر میں گزارش کی تھی کہ دہشت گردی کے مقاصد میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ میڈیا کوریج حاصل کرنا بھی مطلوب و مقصود ہوتا ہے۔ گو کہ یہ بات درست ہے کہ میڈیا کے کردار کو کسی طور بھی جھٹلانا ممکن نہیں۔ یہ میڈیا ہی ہے جس کی کریڈٹ لسٹ ان گنت مثبت کارناموں سے بھری پڑی ہے، اور شاید میڈیا کے کردار پر تنقید کرنا دور حاضر کا ایک رواج بھی بن چکا ہے لیکن پھر بھی کیا یہ بات درست نہیں کہ بے ہنگم میڈیا کوریج کے ذریعے ہم دہشت گردوں کے اس مقصد کو فی سبیل اللہ یا غیر دانستہ طور پر اکثر پورا کر تے ہیں؟؟
پمز کے ماہر نفسیات کے مطابق سکندر ایک نفسیاتی مریض ہے جو سالوں سے انواع و اقسام کے نشوں میں مبتلا رہا ہے۔ ہاں یاد رہے کہ فی الحال تک یہی معلوم ہو پایا ہے کہ ملزم ‘چرس، افیون، گانجا، شراب وغیرہ وغیرہ نشوں کا عادی رہا ہے۔ معلوم حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ قبلہ ‘گولڈ لیف’ پیتے ہیں اور ساتھ میں ‘ریڈ بُل’ کی چکسکیاں لگانا بھی فرض سمجھتے ہیں۔ کہ شاید موصوف کو ‘روح افزا’ (مشروب ڈیرہ جیل) سے کسی قسم کی رغبت نہیں ہے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ کہیں ایکسٹرا میڈیا کوریج نے سکندر کو مزید ‘بلنڈر’ کرنے پر تو نہیں اکسایا تھا؟
سوشل میڈیا پر بھی رنگ برنگے تبصرے دیکھنے کو ملتے رہے۔ ہم بھی ‘رنگ میں بھنگ’ ڈالتے رہے کہ مختلف ‘نکات’ پر رد عمل درکار تھا۔ پانچ گھنٹے بیت گئے، اور عوامی صبر کی بس ہونے کو تھی زمرّد خان صاحب آن پہنچے۔ ‘پنڈی وال وکیل’ نے پہلے ‘جادو کی جپھی’ ڈالنے کی کوشش کی، کام نہ بنا تو پھر پہلوانی قینچی کا داو لگا دیا۔ گو کہ قینچی کسی حد تک ‘کُھنڈی’ نکلی لیکن اس دوران فورسز نے اپنا کام دکھا دیا۔ رانا ثنااللہ صاحب نے اس فعل کو حماقت سے تعبیر کیا اور چوہدری نثار صاحب نے اسے پولیس کی ناہلی قراردیتے ہوئے اعلی پولیس حکام کو معطل کرنے کا پروانہ جاری کردیا۔ باقی سب تو اپنی جگہ لیکن ‘معرکہ حق و باطل’ کی طوالت کی ذمہ داری بہر حال وزیر داخلہ نے کھلے لفظوں میں قبول کی ہے۔ جو یقینا مستحسن روایت ہے۔ لیکن کیا ہے نا کہ اب وزیر اعظم نے بھی برہمی کا اظہار کر دیا ہے۔ اور ذمہ داروں بارے استفسار فرماتے ہوئے فی الفور رپورٹ پیش کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ وزیر داخلہ نے تو پولیس حکام کی غیر ذمہ داری پر انہیں معطل کرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن کیا وزیر اعظم بھی پولیس حکام کے اعلی حکام یعنی وزیر داخلہ کے بارے ایسے ہی احکامات جاری کریں گے؟
(کیونکہ وزیر داخلہ تو اپنی غلطی کا اعتراف برملا کر چکے ہیں)
باقی، رہے نام اللہ کا۔۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔
اس ناٹک نے یہ ثابت کیا ایک دفعہ پھر کہ ہر سطح پر ہم سطحی ہوچکے ہیں۔