کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ مبینہ طورپر آنحضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر کو مسمار کر کے عوامی بیت الخلاکی تعمیر کے لیے استعمال کرنے پر کتنے اسلامی ممالک اور مذہبی تنظیموں نے صدائے احتجاج بلند کی ہے؟
ہرسال حج کے لیے آنے والے یاتریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ” تقدس اور روحانیت میں ملبوس صحرائی شہر” اب فلک بوس عمارتوں ، شاپنگ مالز اور پرتعیش شاندار ہوٹلوں پر مشتمل ایک جدید شہر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے ۔ تیل کی آمدنی سے مالا مال آل سعود قومی وقار کے نام پر مکہ اورمدینہ کو روحانیت کی بجائے اسٹیل ، کنکریٹ ، لوہے ، پتھر کی ٹھوس بنیادوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔چمکتی بلندوبالا عالی شان عمارتیں اور آسمان کو چھوتے ٹاور اب صدیوں سے قائم خانہ کعبہ کے اردگردترقی کا ہالہ بنائے کھڑے ہیں ۔مکہ میں مسلمانوں کا مقدس ترین مقام مسجد الحرام جواسلامی دنیا میں اخوت ، بھائی چارہ اور مساوات کی عظیم الشان علامت کے طورپر پہچانی جاتی ہے اب جدید ترین ” جبل عمر” کے زیر سایہ آچکی ہے ۔اس بلند ترین عمارت جبل عمر میں شاندار قیام گاہیں اور ہوٹل بنائے گئے ہیں جس کے ماتھے پر کلاک ٹاور نصب کیا گیا ہے ۔شاہی مکہ ٹاور نامی فلک بوس عمارت برج الخلیفہ کے بعد دوسرے بلند ترین عمارت بن چکی ہے ۔
گلف افیئر کی رپورٹ کے مطابق مکہ کی 95فیصد تاریخی اور مذہبی اہمیت کی حامل عمارتیں گذشتہ 20سالوں کے دوران تعمیروترقی کے نام پر منہدم کی جاچکی ہیں۔مکہ کوفلک بوس شہر بنانے کے جنون میں سعودی حکام نے ایک پورے پہاڑ کو ڈائنامیٹ سے اُڑا دیا جس پر عثمانی عہد کا ایک تاریخی قلعہ تعمیر تھا ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش کو اب لائبریری کی ایک پرشکوہ عمارت میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔وہ جگہ جہاں مساوات کی لازوال مثالوں کی بنیاد ڈالی گئی وہاں اب شانداراور شاہانہ فلیٹس کا ایک رات کا کرایہ 500ڈالر ہے ۔کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ مبینہ طورپر آنحضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر کو مسمار کر کے عوامی بیت الخلاکی تعمیر کے لیے استعمال کرنے پر کتنے اسلامی ممالک اور مذہبی تنظیموں نے صدائے احتجاج بلند کی ہے؟غزوہ خندق کے واقعہ سے منسوب اور مدینہ منورہ شہر سے باہر7 میں سے 5 مساجد کو مسمار کر دیا گیا ہے۔جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے سے منسوب ایک مسجد کو بھی راستے کا پتھرقرار دے کر ڈائنا میٹ سے اُڑا دیا گیا۔
کیا وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان مکہ مدینہ میں ترقی کے نام پر مقدس مقامات کی مسماری پر خاموش ہیں ؟اس حوالے سے مسلم دنیا کی خاموشی و بے حسی نہ صرف بزدلانہ بلکہ منافقانہ ہے ۔ یروشلم اور مسجد اقصیٰ کی مسماری کے حوالےسے اسرائیلی منصوبوں کو بے نقاب کرنے کا بیڑا اُٹھا نے والی امت آل سعود کی جانب سے مقامات مقدسہ کی مسماری پر کیوں خاموش ہے؟ہرروز چوراہوں ، گلیوں ، بازاروں ، ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں صیہونی سازشوں سے پردہ اُٹھانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن اسلام کے مقدس ترین شہروںمیں ترقی کے نام پر کمرشل عمارتوں کے قیام پر سبھی چپ ہیں۔تاریخی اور مقدس مقامات کو درحقیقت بدعت کہہ کر مسمار کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں طاقتور اور مستحکم مسلم ممالک کا کردار بھی مایوس کن ہے ۔ترکی اور ایران کے مطابق جب کبھی وہ سعودی حکام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو انہیں حج کوٹہ میں کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تنقید کرنے والے ممالک کے شہریوں کو مقدس مقامات کی زیارت پر بندش کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
امام علوی کے مطابق کوئی شخص بھی مدینہ کی توسیع کے خلاف نہیں ہے لیکن اس کے لیے جو طریقہ کا راختیار کیا گیا ہے وہ انتہائی کرب آمیز اور غلط ہے ،ان کے مطابق مکہ مدینہ کے تقریباً400سے 500تک تاریخی و مقدس مقامات ترقی کے نام پر مسمار کیے جاچکے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہےکہ سعودی عرب نے اقوام متحدہ کے عالمی ورثہ میں جن تین تاریخی جگہوں کو نامزد کیا تھا ان میں کوئی بھی اسلامی ثقافتی پس منظر کی حامل نہیں ۔قومی آثار قدیمہ کے ماہرین اور مورخین بھی اپنے تاریخی ، تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو سخت گیر علما کے تعمیراتی فتووں کے تلے روندتا دیکھ کر بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں ۔ ان کے مطابق وہ جگہ جو دنیا کے محبوب ترین انسان کے قدموں کی متبرک خاک رہی ہے وہ اب اشرافیہ کے لیے تفریح گاہ بن چکی ہے۔ اسلامی ورثہ ریسرچ فاونڈیشن کے ڈاکٹر عرفان امام علوی 10سال سے زائد عرصے سے اسلامی مقدس مقامات کی نام نہاد ترقی کے نام پر برپا ہونے والے تباہی وبربادی کو دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں ۔امام علوی کے مطابق کوئی شخص بھی مدینہ کی توسیع کے خلاف نہیں ہے لیکن اس کے لیے جو طریقہ کا راختیار کیا گیا ہے وہ انتہائی کرب آمیز اور غلط ہے ،ان کے مطابق مکہ مدینہ کے تقریباً400سے 500تک تاریخی و مقدس مقامات ترقی کے نام پر مسمار کیے جاچکے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین آثار قدیمہ اور مورخین اس سلسلے میں کیوں خاموشی کی مہر اپنے لبوں پر سجائے بیٹھے ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ کو قائم رکھنے کی خاطر تیل کے کنووں تک رسائی برقرار رکھنا اعلیٰ حکام کی حکمت عملی کا اہم حصہ ہو۔
محض الزمات اور افواہوں پر احتجاج کرنے والی امت اور اس کے ذرائع ابلاغ نے مکہ اور مدینہ میں مقدس اور تاریخی مقامات کی مسماری پر ایک عرصے سے خاموشی اختیار رکھی ہے
بہت سے ناقدین مکہ اور مدینے میں مقدس مقامات کی مسماری کو یکسر مسترد کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ ہر سال حج کے لیے اکٹھے ہوانے والے مسلم زائرین کی عارضی ، رہائش گاہوں اور انتظامات کو مقدس مقامات سے میلوں دور علاقوں میں تعمیر کیوں نہیں کیا جاتا؟کیا موجودہ دور میں امت مسلمہ کی زبوں حالی اور انتشار کے باعث ہر سال حج کی ادائیگی کرنے والوں میں کمی کرکے مفلس اور نادار مسلمانوں کی مدد نہیں کی جاسکتی ان کے معاشی و تعلیمی مسائل حل نہیں کیے جاسکتے؟اسلامی تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ حج کے فریضہ کو کن کن وجوہات کے وجہ سے کچھ حد تک ملتوی کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ حج کرنے والے زائرین اور حاجیوں کی تعداد کو عارضی طور پر کم کیا جاسکتا ہے ۔لیکن اس کے برعکس گذشتہ 20سالوں سے ان دونوں شہروں میں بلند عمارتیں، مہنگے ہوٹل اور وسیع وعریض شاپنگ پلازے تعمیر کر کے گلی کوچوں اور تاریخی راستوں کو مٹانے کا افسوس ناک عمل جاری ہے۔یہ امر تکلیف دہ اور افسوسناک ہے کہ مدینہ منورہ اور مکہ شریف میں بلند اورعالی شان عمارتوں کی تعمیرکے لیے بہت سے مضافاتی آبادکاروں کو ان کے گھروں سے زبردستی بے دخل کیا گیا تھا۔مسجد نبوی کی توسیع کے نام پر پیغمبراسلام کے قریبی ساتھیوں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پرانے گھروں کو بھی سعودی بلڈوزروں نے روندڈالا ہے اس کے علاوہ 7ویں صدی کی 3 مساجد بھی کھدائی کی نذر ہو چکی ہیں ۔
سعودی عرب ایک ایسا اسلامی ملک ہے جہاں وہابی فکرکی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔بت پرستی اور شرک کے خاتمے کے نام پر سخت گیر تکفیری فکرکواس ملک میں سختی سے نافذ کیا جاتا ہے جس کے مطابق قبروں ، مزاروں اور تاریخی مقامات کو شرک کے مراکزقراردے کر مٹانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ترقی کے نام پر پران مقدس شہروں کے تاریخی ، ثقافتی اور تہذیبی ورثے پر بلڈوزچلانا کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے مترادف ہے ۔اس سارے معاملے پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی منافقانہ خاموشی بھی سمجھ بالاتر ہے ۔محض الزمات اور افواہوں پر احتجاج کرنے والی امت اور اس کے ذرائع ابلاغ نے مکہ اور مدینہ میں مقدس اور تاریخی مقامات کی مسماری پر ایک عرصے سے خاموشی اختیار رکھی ہے ۔مکہ کے تاریخی اور مقدس ورثے کے بربادی پر کچھ عرصہ قبل صرف الجزیرہ چینل نے ایک دستاویز ی فلم تیار کی تھی اس کے علاوہ کہیں کوئی آواز بلند ہوتی سنائی نہیں دی ۔
رائٹر نیوز ایجنسی کے مطابق مکہ اور مدینہ میں اسلامی تاریخ کے روحانی اور تہذیبی خدوخال اب معدوم ہوتے جارہے ہیں اب یہاں بلند و بالا عمارتوں کے سوا کچھ نہیں ہے
بہت سے اسلامی ملکوں میں مقدس ہستیوں کی قبروں اور مزاروں کو بے حد تقدس اور احترام حاصل ہے ۔بہت سے مسلمان ہر سال ان مزارات، قبروں اور مقامات کی زیارت کے لیے دور دراز علاقوں سے ان متبرک جگہوں کی طرف رخت سفر باندھتے ہیں لیکن ایک بنیاد پرست مذہبی فکر کے تحت قبور اور مزارات کی زیارت کو شرک اور گناہ قرار دے کر تاریخی اہمیت کے حامل مقدس مقامات کو توسیع کے نام پر آہستہ آہستہ مسمار کررہاہے ۔ اس بحث سے قطع نظر کہ مزارات کی زیارت درست ہے یا نہیں اسلام کے ابتدائی دور کی یہ نشانیاں آثار قدیمہ کے طور پر بے حد اہم ہیں ۔ تحقیق اور تحفظ کی بجائے ان مقامات کا انہدام دولت اسلامیہ کی جانب سے عراق اور شام کے قدیمی آثار قدیمہ اور طالبان کے ہاتھوں بامیان کے مجسمے کی تباہی جیسا ہی قبیح جرم ہے۔ ڈاکٹرعلوی کے مطابق مکہ مدینے میں عمارتوں کی وسعت اور کشادگی اور ترامیم کا دائرہ تعمیر ایک دن سبز گنبد تک بھی پہنچے گا ۔ سعودی شاہی خاندان کا کوئی شہزادہ اگر اپنے محل کی توسیع کرنا چاہتا ہے تواسے کسی سے مشورے یا اجازت کی ضرورت نہیں ہے ۔ ڈاکٹر علوی کے مطابق اگرہمیں اہرام مصر کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں تو پھر ہم کیوں اسلامی تاریخ کو اپنے ہاتھوں سے غائب کر رہے ہیں ؟
اسلامی تعمیرات کے معروف سعودی ماہر سمیع انگاوی کاکہنا ہے کہ یہ سب کچھ ” مکہ کی فطرت اور خانہ خدا کے تقدس کے بالکل برعکس ہے ” جس کی جنتی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔رائٹر نیوز ایجنسی کے مطابق مکہ اور مدینہ میں اسلامی تاریخ کے روحانی اور تہذیبی خدوخال اب معدوم ہوتے جارہے ہیں اب یہاں بلند و بالا عمارتوں کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ تقدس سے قطع نظر مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات تاریخی اعتبار سے بھی مسلم تشخص اور تہذیبی ارتقاء کے مظہر ہیں جن کی تباہی سے مسلم امہ کی اجتماعی شناخت بھی خطرے میں ہے۔ یہ مقامات محض آل سعود یا مسلمانوں کی ہی نہیں کل بنی نوع انسان کی میراث ہیں اور ان کے تحفظ کی ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے۔

4 Responses

    • Furqan

      Ya islami tareek ka wo siah bab ha jis pay islam dhaikay dar mullah kuch nhe bolain gy kuen k Riyyal anna band ho jain gy

      جواب دیں
  1. Furqan

    Nasir Shabbir sb’ you have highlighted a big and neglected issue of Musalim Ummah which cause a severe damage to Islamic and world heritage. But one thing i want to add as you ask how many countries and religious organizations raise this issue. This destruction of holy sites starts from 8th Shawwal 1924 when Saudi’s bulldozed holy shrines of Jannat ul Baqee in Madina. On 8th Shawwal every year grand protests and rallies were held every year throughout the country on the call of TNFJ chief Agha Syed Hamid Moosavi and TNFJ also have an agreement with the government of Pakistan according to which Pakistan govt is bound to pressurize government of Saudi Arabia through diplomatic channel for the reconstruction of these holy sites. So where you are highlighting this humanitarion issue you also have to appericiate the work done by TNFJ in this regard although media have least interest in these kind of topics specially when matter comes to a friendly muslim country. Any how your this article may become the first drop of rain and media starts highlighting it. Hope we will see some more pieces on this topic in future as well.
    FURQAN
    Islamabad

    جواب دیں
  2. Maula Bakhsh

    despite of this that visiting the grave or shrines is legitimate in islam it is the matter of concern for every muslim that their heritage is being demolished by the saudi Plutocrats. This is a serious issue which should be taken at the highest possible forum and saudi’s must be compelled to stop further demolishing the ancient monuments of Muslim Rulers. I appreciate your work for this cause.

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: