Laaltain

مفتی

26 جنوری, 2017
Picture of جیم عباسی

جیم عباسی

مفتی سجاد حسین پھر نماز پڑھاتے ہوئے بھول پڑے۔ فجر کی نماز میں پہلی رکعت مکمل کرکے تشہد میں بیٹھ گئے۔۔مسجد کے قدیمی نحیف وناتواں مؤذن گل محمد نے مفتی صاحب کو خبردار کرنے کے لیے پہلے تو اپنی بلغمی آواز میں کھگاریں ماریں۔مگر مفتی صاحب لاتعلق و بے خبر رہے۔تب گل محمد کو “اﷲاکبر” کی آواز بلند کرنی پڑی۔۔لیکن مفتی صاحب نے التحیات ،درود اور دعا پڑھ کے سلام پھیرا اور مقتدیوں کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئے۔ مقتدیوں کی صف سے بھنبھناہٹ ابھرنے لگی۔ گل محمد چانڈیو آگے ہوکر مفتی صاحب سے مخاطب ہوا
“مفتی صاحب آپ نے ایک رکعت کے بعد سلام پھیر دیا۔ نماز دوبارہ ہو گی۔” الفاظ سماعت تک پہنچے تو مفتی صاحب کو جھٹکا لگا۔ “اچھا! واقعی؟” انہوں نے خفت بھری آواز میں حاجی نزاکت علی سے استفسار کیا جو مؤذن کے دائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے۔

 

“جی مفتی صاحب ایسا ہی ہے۔ جلدی نیت باندھیں اور تکبیر کہیں۔” حاجی نزاکت نے ترشی بھرا جواب دیا۔ حاجی کو اب یہ خیال ستائے جارہا تھا کہ پھر مفتی صاحب کے پیچھے کھڑے ہوکر سست رفتار نماز پڑھنی پڑے گی۔یعنی دس بارہ منٹ اور لگ جائیں گے۔ مفتی صاحب مجرمانہ احساس لیے نظریں نیچی کیے اٹھے اور تکبیر تحریمہ کے لیے ہاتھ اٹھادیے۔ تب پہلی رکعت کے بعد پہنچنے والے وہ نمازی اپنی نماز توڑکر نئی جماعت میں شامل ہوئے جو ابھی تک قیام میں کھڑے کن انکھیوں سے یہ ماجرا دیکھے جارہے تھے۔یہ کچھ عرصہ پہلے ہی شروع ہوا تھا کہ مفتی سجاد حسین سے نماز پڑھاتے ہوئے تواتر سے غلطیاں سرزد ہو رہی تھیں۔ کبھی وہ ظہر یا عصر میں بلند آواز سے قرأت شروع کردیتے کبھی مغرب اور عشاء میں چپ سادھے کھڑے رہتے۔ کبھی تو یوں بھی ہوتا کہ تشہد میں بیٹھے بیٹھے سلام پھیرنا بھول جاتے پیچھے کھڑا گل محمد کھگاریں مارتا رہتا اور حاجی نزاکت پیچ و تاب کھاتا رہتا۔ حاجی نزاکت شہر کی گڑ منڈی کا مشہور بیوپاری اور مسجد کمیٹی کا نائب صدر تھا۔ روپے پیسے کے معاملے میں بخیل اور اپنے وقت کو بھی پیسوں میں تولنے کا عادی۔ جب نماز میں مفتی صاحب لمبی صورت شروع کرتے یا اب کے دنوں مفتی صاحب سے ہوجانے والے سہو کی وجہ سے دوبارہ نماز پڑھنی پڑ جاتی تو حاجی نزاکت کو لگتا کہ جیسے بہت مہنگی نماز اس کے پلے پڑ گئی ہو۔وہ ضبط کئے نماز میں دھیان لگانے کی کوشش کرتا رہتا مگر اس کا من طے کردہ سات منٹ کے بعد دوڑا دوڑا دوکان کی طرف جاتا رہتا۔ مفتی عبدالجبار کے پرتقدس شخصیت کی وجہ سے وہ اپنی زباں پر تالا لیے رہتا حتیٰ کہ پیٹھ پیچھے خیال آرائی کی ہمت بھی ٹوٹتی رہتی۔ مفتی عبدالجبار نہ صرف مسجد میں امامت کرواتے تھے بلکہ ساتھ واقع جامعہ دارالاحسان میں درجہ حدیث کے طلباء کو پڑھانے کے ساتھ دارلافتاء کے نگران کی حیثیت سے فتویٰ نویسی کی ذمہ داری بھی نبھاتے تھے۔یہ فرائض وہ پچھلے پچیس سالوں سے مسجد کمیٹی کے صدر اور جامعہ دارالاحسان کے مہتمم علامہ روح الامین کے والد اور جامعہ کے بانی مولوی عبداﷲ فاضلی المعروف “بڑے میاں جی” کے دور سے ادا کر رہے تھے۔ اس کے عوض وہ تنخواہ یا مشاہرہ کچھ بھی نہ لیتے تھے۔ بس عید شبرات پر ان کا کوئی عقیدت مند کپڑوں کا جوڑا لے آتا۔ محلے کے گھر سے ان کا تین وقت کھانا آجاتا اور اﷲ اﷲ، خیر صلا۔ انہوں نے اپنی ضروریات محدود کرنے کو زندگی کا جز بنائے رکھا تھا۔ حتیٰ کہ بشری تقاضوں کو بھی انہوں نے نفسانی خواہشات کا نام دے کر اپنے آپ سے پرے رکھا تھا۔ شادی اس لیے نہیں کی کہ کہتے تھے کہ بیوی اور اولاد ایسی آزمائشیں ہیں جو بندے کا ایمان خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔ شہر بازار کو شیطانی گھر سمجھتے اس لیے اس طرف کا کبھی رخ نہیں کیا۔ وہ نماز کے وقت مسجد میں اور بقیہ سارا وقت جامعہ کی لائبریری میں بیٹھے رہتے۔ تدریس اور فتویٰ کا کام بھی وہیں انجام دیتے۔ بس آرام کرنے اپنے حجرے میں جاتے۔ دو منزلہ مسجد کے وسیع صحن کے دائیں جانب، صحن سے متصل ہی جامعہ کی نصف دائرے میں پھیلی ہوئی عمارت تھی۔ جو اب زبوں حالی کی علامت نظر آتی۔ تدریسی کمروں کے بیچ میں ہال نما لمبا کمرہ تھا جو اندر کتابوں سے بھری بے ترتیب الماریاں لیے لائبریری بنا ہوا تھا۔ لائبریری کے ہمیشہ کھلے رہنے والے شیشم کے دروازے کے سامنے مفتی صاحب مشرقی دیوار سے پشت لگائے اپنی نشست گاہ پر بیٹھے پڑھتے یا پڑھاتے رہتے۔ نشست گاہ کے سامنے اور جنوبی طرف ڈیسک پڑے رہتے تھے جن پر مفتی صاحب کے زیر مطالعہ کتابوں کا ہجوم جما رہتا تھا۔ اسی نشست گاہ پر مفتی صاحب کی عمر کا تقریباً دو تہائی حصہ گذرا تھا۔ پڑھ کر جوں ہی افتا کا نصاب مکمل کیا تو بڑے میاں جی نے انہیں جامعہ دارالاحسان میں مدرس مقرر کردیا۔اور وہ کچھ بولے بنا سعادت مندی سے پڑھانے بیٹھ گئے تھے۔گھر والوں سے پوچھنا تو درکنار خبر بھی نہ کی تھی۔ خود مفتی صاحب کا پڑھنے کے لیے جامعہ میں آنا بھی ایک عجب داستان تھی جسے بڑے میاں جی ہر محفل چاہے خطاب میں فخریہ بیان کرتے تھے۔کہتے

 

“جب میں درس نظامی مکمل کرکے دین کی خدمت کے لیے یہاں آیا تو لوگوں کی دین سے دوری دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ مسجدیں ویران اور اوطاقیں آباد تھیں۔ کوئی نماز پڑھنے، اذان کہنے والا نہیں تھا۔اس مسجد میں تو کتیا نے کتورے جن رکھے تھے”۔ یہ جملہ سن کر سامعین کے منہ سے توبہ توبہ کی آواز نکل جاتی اور بعض تو کانوں کو ہاتھ لگانے لگ جاتے۔ “یہ بے دینی دیکھ کر ارادہ کیا کہ یہیں رہ کر اس مسجد کو دین کی روشنی سے منور کرنا ہے۔ میں نے مسجد کو صاف کرکے کتیا کو باہر نکالا اور عصر نماز کی اذان کہی۔ اذان کی آواز سن کر محلے والے متحیر ہوکر باہر نکل آئے۔ میں نے انہیں نماز کی دعوت دی تو اکثریت بڑبڑاتی رخصت ہوگئی۔ایک دو نیک دل باوضو ہوکر نماز کے لیے آئے۔ نماز کے بعد ان سے بات چیت ہوئی۔انہوں نے میری آمد پر خوشی ظاہر کی۔کہنے لگے کہ “ہمارے ہاں تو کوئی اسلامی تعلیم رکھنے والا ہے ہی نہیں۔ خدا کا احسان ہے اس نے آپ کو رہنمائی کے لیے بھیجا ہے۔ اب آپ ہم پر احسان کریں۔یہاں ٹھہریں اور ہمیں گمراہی سے بچائیں۔” ان کی یہ بات سن کر میرا جی بہت خوش ہوا۔ کیونکہ میں تو پہلے ہی یہ نیت کیے بیٹھا تھا کہ اس شہر کو آباد کرنا ہے۔ جو دین سے بے بہرہ اور برباد ہے۔ پس میں نے اس مسجد میں ڈیرا جمایا اور بازار، اوطاقوں میں جاکر لوگوں کو دین کی دعوت دینے لگا۔ انہیں آخرت سنوارنے کی رغبت دلاتا۔ غیرت ایمانی جگانے کے جتن کرتا۔ آہستہ آہستہ مسجد خوب آباد ہونے لگی۔ تب میں نے دینی شعور بیدار کرنے کے لیے یہاں مدرسہ شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ جمعہ کے دن خطبہ میں میں نے لوگوں سے اپیل کی کہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے لیے وقف کریں۔ یہی علم حقیقی ومنفعت ہے۔ یہ نہ صرف آپ کے بچوں کو بلکہ آپ کو بھی آخرت کے عذاب اور جہنم کی بھڑکتی آگ سے نجات دلائے گا۔ میری بات پر لوگوں نے لبیک کہا اور بچوں کو تعلیم کے لیے بھیجنا شروع کر دیا۔ مگر یہ معاملہ صرف قاعدہ اور قرآن کی تعلیم تک رہا۔ اکثریت اسکولوں میں پڑھنے والی اورکھیتوں میں کام کرنے والی تھی۔ لہٰذا علم حدیث و علم فقہ کی ابتدا نہ ہوسکی۔ مسافر طلبا کی رہائش کی سہولت نہ تھی لہٰذا شہر کے نیک پرور لوگوں کو جمع کیا اور انہیں توجہ دلائی کہ اگر مسجد کے ساتھ ہی مدرسہ تعمیر ہو جائے تو مسافر طلبہ آکر دینی تعلیم حاصل کریں گے اور قرآن و حدیث کا درس سیکھیں گے۔ پھر جب تک مدرسہ قائم رہے گا اور درس و تدریس ہوتی رہے گی آپ کے لیے آخرت کے چھٹکارے کا ثمر جمع ہوتا رہے گا۔ فوراً ہی مدرسہ کی عمارت کھڑی ہوئی اور میں دیہاتی علاقوں سے طلباء کے حصول کے لیے دورہ پر نکل کھڑا ہوا۔ ایک گاؤں سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں دیہاتی لوگ ویسے بھی روشن قلب ہوتے ہیں۔تو اس دورہ میں کئی بچے اسلام کے لیے وقف کئے گئے اور یہاں مدرسہ میں زیر تعلیم ہوئے اور آج ان میں سے کئی الحمدﷲ ملک کے مختلف حصوں میں بے دین لوگوں کو دین کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں۔”

 

یہاں بڑے میاں جی توقف کرتے۔ مفتی سجاد حسین کا نام پکارتے جو ان کے ساتھ ہی بیٹھا ہوتا اور اسے کھڑے ہوجانے کا کہتے “سب سے بڑی مثال ‘جناب مفتی’ آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔” وہ مفتی صاحب کو ہمیشہ جناب مفتی پکارتے تھے۔ “یہ وہ بچہ تھا جس کا والد صوبیدار اور گاؤں کا چودھری تھا۔ اس بچے نے میری دینی باتیں سن کو خود کو دین کے لیے وقف کردیا تھا۔ حالانکہ اس کا والد راضی نہیں تھا۔ ماں نے بھی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔ مگر ہزار آفرین اس بچے پر جس نے ماں باپ کو بھلا کر دین و شریعت کو اختیار کیا۔ کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ آج یہ آپ کی شہر کی ظلمت کو اپنی نورانیت سے منور کر رہا ہے۔” لوگوں میں سبحان اﷲ کا شور اٹھتا۔ اور یہ حقیقت بھی تھی کہ مفتی صاحب سارے رشتے ناتے بھلا آئے تھے۔ گاؤں جانے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔عیدین تک جامعہ میں کرتے تھے۔ جب ماں کا دل بے تابی کی باڑیں پھلانگنے کو آتا تو وہ ملنے آجاتی۔ کچھ لمحے بیٹے کو دیکھ کر، کچھ باتیں بول کر روتی سسکتی واپس چلی جاتی۔ مفتی صاحب پر کچھ اثر نہ آتا۔ چند ایک مرتبہ ہی گاؤں گئے۔والد صاحب کے وصال کے بعد کبھی کبھار ماں کے بلاوے پر چلے جاتے کہ اب ضعف اور بیٹے کی جدائی نے ماں کو سفر کے قابل نہ چھوڑا تھا۔ والدہ کی جہاں سے رخصتی کے بعد وہ کبھی کبھار کا جانا بھی چھوٹ گیا۔۔چھوٹا بھائی یا اس کے بیٹے ملنے کو آتے اور گاؤں چلنے پر زور بھی دیتے مگر مفتی صاحب کا جواب ناکار میں ہی ہوتا تھا۔کہتے “بھائی تمہیں پتا ہے وہاں کے ماحول کی وجہ سے میرا دل آنے کو نہیں کرتا۔اور اللہ تمہیں یہاں ملنے کے لیے بھیج بھی دیتا ہے تو میں یہیں اچھا ہوں”۔علاوہ ازیں مفتی صاحب چونکہ نفس کشی پر سدا کار بند رہے تو اگر کبھی دل نے گاؤں جانے کی تمنا بھی کی تو اسے نفسانی خواہش قرار دے کر کچل ڈالا۔ انہوں نے جا معہ ہی کوگھر بنایا تھا اور دینی علوم پڑھناپڑھانا مقصد حیات۔بڑے میاں جی کے وفات کے بعد ان کے فرزند ارجمند روح الامین نے جب مسجد اور جامعہ کو سنبھالا تو مفتی صاحب کی درجہ عزت میں کوئی کمی نہ کی بلکہ روح الامین خود مفتی صاحب کے شاگرد بھی رہ چکے تھے، لہٰذا اس نے مسجد کی امامت کا اعزاز بھی مفتی صاحب کو بخشا۔ مفتی صاحب نے خود کو مسجد کے ساتھ ساتھ لائبریری تک ہی محدود کر رکھا تھا۔اس لیے شہر بھر کے لوگ یا عام مولوی بھی فقہی مسائل کے حل یا فتویٰ کے پوچھنے کے لیے مفتی صاحب کے ہاں لائبریری میں حاضر ہوتے جہاں مفتی صاحب سارا دن میسر رہتے۔ خواتین بھی دینی معلومات یا خانگی جھگڑوں کے حل کی خاطر ان کے پاس بلا جھجھک آتی رہتیں۔ روز مرہ کی زندگی مفتی صاحب کے اختیار کیے ہوئے طریقے پر جاری تھی کہ زیب النساء نے آکر ان کے معمولات میں خلل ڈال دیا اور مفتی صاحب کے خیالات اور رجحانات کے مرکز کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ سویرے سویرے ابھی مفتی صاحب تسبیحات اور اشراق نماز پڑھ کر لائبریری میں داخل ہی ہوئے تھے کہ زیب النساء آپہنچی۔ زیب النساء جو ٹھسے کی عورت تھی۔۔ بیالیس،پینتالیس سال کی عمر میں بھی لمبے قد کے ساتھ بھرا بھرا جسم اور وہ بھی گٹھیلا۔ جب وہ مردوں طرح سینہ نکال کر چلتی تو گریبان کے بٹن ٹوٹنے کو آتے۔ محلے بھر کی عورتیں اسے اپنا امام مانتی تھیں۔ کسی نے خریداری کے لیے بازار جانا ہو، بچہ ڈاکٹر کو دکھاناہو، رشتہ کرنے کے لیے مشورہ لینا ہو۔ سلائی کڑھائی کا کوئی ڈیزائن سمجھنا ہو، گھر میں کوئی دینی محفل کروانی ہو سب کا رخ زیب النساء کی طرف ہوتا۔ اور وہ بھی بلاحیل وحجت ہر ایک کی مدد کے لیے تیار بیٹھی ہوتی۔ کچھ ماہ پہلے جب اس کے شوہر ماسٹر رمضان نے اسے طلاق دے دی تو محلے بھر کو سکتہ چھا گیا تھا۔ کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ اپنے شوہر اور بچوں سے محبت کرنے والی اور اتنی خدمت گذار کو طلاق کیسے ملی؟ وہ تو بعد میں بھانڈا پھوٹا کہ ماسٹر رمضان گرلزاسکول کی ایک ماسٹرنی کے عشق میں باؤلا ہوا پھرتا تھا۔اور اس کی فرمائش پر اس نے گھر برباد کرنے کی ٹھان لی تھی۔بعد میں خاندان کے بڑوں، دوستوں اور محلے والوں کی لعنت ملامت اور اپنے جوان بچوں کے تیرآنکھوں نے اسے ہوش میں لایا تھا اور اب وہ مائی زیبن کے آگے پیچھے گڑگڑاتا اور معافیاں مانگتا رہتا تھا۔ مگر مائی زیبن کی موت جیسی گہری چپ ٹوٹنے میں نہ آتی تھی۔ مایوس ہونے کے بعد ماسٹر رمضان کو مفتی صاحب کی ذات میں امید کا چراغ نظر آیا۔ اسے یقین تھا کہ مائی زیبن اپنے والد سمیت کسی کی بات مانے یا نہ مانے مگر مفتی صاحب کی بات نہیں ٹالے گی۔

 

ماسٹر رمضان مائی زیبن کے مفتی صاحب سے روحانی تعلق سے بخوبی آگاہ تھا۔ ماسٹر رمضان نے مائی زیبن کے ساتھ وقت بتاتے ہوئے دیکھا تھا وہ مفتی صاحب کو جیسے اپنا مرشد مانتی تھی۔۔ اگر بھولے سے بھی کسی کی زبان سے مفتی صاحب کے لیے احترام بھرا لفظ نہ نکلا تو وہ سامنے والے سے لڑائی پے تل جاتی۔بارہا ماسٹر رمضان نے نظارہ کیا کہ مفتی صاحب کا کھانا لے جانے میں اس سے یا اس کے بیٹوں میں سے کسی سے ذرا تاخیر ہوئی ہو تو مائی زیبن بے چین ہو جاتی۔ ماسٹر رمضان سے تو ذرا سی رعایت ہو جاتی مگر اپنے دونوں بیٹوں کے وہ لتے لے ڈالتی۔ اسی امید کے پیش نظر ماسٹر رمضان نے مفتی صاحب کی لائبریری کی چوکھٹ جاپکڑی۔ مفتی صاحب نے پہلے تو اسے سخت سست کہا، جائز کاموں میں سے خدا تعالیٰ کا سب سے ناپسندیدہ کام کرنے پر اسے شرم دلائی اور انجام کار اسے مائی زیبن کے والدین سے رابطہ کرنے کو کہا۔ تب ماسٹر رمضان زارو قطار رو پڑا

 

“مفتی صاحب میں سب حیلے بہانے آزما کر پھر یہاں آیا ہوں۔آپ مجھے مایوس مت کریں۔”

 

“ماسٹر توبہ نعوذبااﷲ۔ تمہیں فکر آخرت ہے یا نہیں؟ یعنی کہ میں مسماۃ زیب النساء کو کہلواؤں کہ وہ حلالہ کے لیے راضی ہوجائے؟ تمہیں علم ہے کہ شریعت میں موجودہ حلالہ کا تصور جو کہ مروج ہوگیا ہے، بالکل بھی نہیں ہے۔ شریعت نے یہ کہا ہے کہ ایک مطلقہ عورت تب اپنے طلاق دینے والے شوہر سے دوبارہ نکاح میں آسکتی ہے جب وہ کسی اور کے نکاح میں آجائے۔ اس بات سے یارلوگوں نے یہ جزی نکالی ہے کہ مطلقہ عورت کا نکاح اس بندے سے کرواتے ہیں جس سے شادی کی پہلی صبح پر طلاق دینے کی شرط عائد کی جاتی ہے۔ یہ اگر چہ غلط نہیں مگر غلط رواج ضرور ہے۔ میں ایسا عاقبت نااندیش نہیں کہ ایسے کام کا حصہ بنوں۔” مفتی صاحب کی اس بات کے بعد ماسٹر رمضان جیسے جی ہار بیٹھا۔ وہ مفتی صاحب کے پاؤں پکڑ کر بیٹھ گیا۔

 

“مفتی صاحب میں شیطان کے بہکاوے میں بہہ گیا۔ میری خطا ہے۔میں اس گناہ کی کب سے زیب النساء سے معافی مانگ رہا ہوں۔ مجھے میرے کئے ہوئے پر بہت سزا مل چکی ہے۔گناہ سے توبہ کرنے پر خدا بھی معاف کردیتا ہے۔آپ ہی زیب النساء سے میری خطا معاف کرواسکتے ہیں۔کسی کے گھر بسانے کے لیے کوشش کرنا بھی تو کار ثواب ہے۔ اب بس آپ میرا سہارا ہیں۔ خدا کے لیے میری امداد کریں۔” وہ روتا ہوا مفتی صاحب کے سامنے جھک گیا۔

 

“میاں کفر نہ بکو۔ خدا ہی سب کا سہارا ہے اور اسی کا سہارا قائم ودائم ہے۔تم جاؤ۔ میں استخارہ کرتا ہوں۔ اگر خدا کو منظور ہوا تو تمہارے لیے سعی کی جائے گی۔” اس جواب کے بعد ماسٹررمضان کی کچھ ڈھارس بندھی اور وہ رخصت ہوگیا۔ مفتی صاحب کی اس خاندان سے دلی وابستگی بھی تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس میں پڑنے والی دراڑ یں دو کنارے بن جائیں۔ انہوں نے استخارہ کیااور مثبت جواب آنے کے بعد انہوں نے مائی زیبن کو پیغام بھیجا “انسانی نفس شیطان کا ہمنوا ہے۔ انسان سے غلطیاں سرزد کروا دیتا ہے۔ آپ اگر ماسٹر رمضان کو معاف کر دیں اور اس کی دوبارہ گھر بسانے والی بات پر غور کریں تو بندہ ناچیز آپ کے لیے دعا گو رہے گا۔ میں نے استخارہ کیا ہے اس میں بھی مثبت جواب آیا ہے۔” مفتی صاحب کا پیغام ملنے کے پانچویں صبح زیب النساء لائبریری میں مفتی صاحب کی نشست گاہ پر ان کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔ مفتی صاحب نے زیب النساء کے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا’”وعلیکم السلام آپ اتنی صبح صبح؟”مفتی صاحب کو زیب النساء کی آمد کی وجہ کا اندازہ تو تھا مگر انہوں نے استفسار بہتر سمجھا۔
“مفتی صاحب ماسٹر جی سے دوبارہ ناتا جوڑنے کے لیے جب آپ کا حکم آیا تو میں نے اسی وقت ہی فیصلہ کر لیا تھا۔۔مگر میرا اندر پتا نہیں کیوں مان ہی نہیں رہا تھا۔ میری اتنی ساری عمر کے رشتے کو ماسٹر نے چند لفظوں سے دو کوڑی کا کردیا۔میرے وجود کو نکاح کے ذریعے اس سے جوڑا گیا تھا۔ جب اس نے اس کی پاسداری نہ کی تو اب میں دوبارہ خود کو اس سے جڑنے پر کیسے آمادہ کرلوں؟ بس خود سے منواتے منواتے کچھ دن لگ گئے۔میں تو اسی دن آپ کے پاس حاضر ہوکر ماننا چاہتی تھی مگر میں نے سوچا کہ اندر ابھی نہیں مان رہا تو ظاہر باہر سے کہہ کر میں مفتی صاحب سے منافقت کیسے کروں۔ اسی لیے کچھ دن دیر کی معافی چاہتی ہوں۔”‘زیب النساء کے الفاظ سن کر مفتی صاحب کو محسوس ہوا جیسے ہر لفظ کورے گھڑے کی طرح کھنکتا اور مٹی کی طرح خالص ہو۔

 

“دراصل میں نے صرف اس لیے پیغام بھیجا کہ میں اس گھر کو اور مکینوں کو آباد دیکھنا چاہتا تھا۔ اللہ میری نیت کو جانتا ہے۔”

 

“نہیں نہیں مفتی صاحب آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔میں آپ کی ذات کو جانتی ہوں۔” زیب النساء یہ الفاظ کہہ کر خاموش ہوگئی۔ مفتی صاحب زیب النساء کا اگلا جملا سننے کے انتظار میں رہے۔ لائبریری کے بڑے سے ہال میں سناٹا پیدا ہوگیا اور گذرتے لمحوں کے ساتھ اس کی عمر بڑھنے لگی۔تب مفتی صاحب کے نظر زیب النساء کے چہرے پر گئی اور انہیں یوں لگا جیسے جھکڑوں بھرا زوردارطوفان ان کی طرف بھاگا چلا آرہا ہو۔ تب زیب النساء بولنے لگی اور کمرے میں جامد سناٹا ریزہ ریزہ ہوگیا۔ “مفتی صاحب میں ماسٹر سے دوبارہ رشتہ جوڑنے کے لیے تیار ہوں۔ بس میری ایک درخواست ہے کہ حلالہ کا نکاح مجھ سے آپ کریں گے” زیب النساء کے ان الفاظ نے مفتی صاحب کے جڑوں کو ہلا ڈالا۔
“مائی صاحب یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔” مفتی صاحب بے اختیاراپنی نشست گاہ سے کھڑے ہوگئے۔

 

“مفتی صاحب میں نے کوئی گناہ کا کام تو نہیں بولا، میں نے تو بس نکاح کا کہا ہے۔”

 

“مائی صاحبہ میں نے زندگی بھر نکاح، عورت سے دور رہنے کا عہد کیا ہوا ہے۔ میں کبھی بھی یہ کام نہیں کرسکتا۔ آپ نے سوچا بھی کیسے؟”

 

“مفتی صاحب میں نے تو وہ بات کہی ہے جسے نبی نے اپنی سنت بتایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا ہے کہ اس دنیا میں میری تین پسندیدہ اشیاء میں سے نماز، خوشبواورعورت ہے۔” مفتی صاحب کو یہ سنتے ہی چپ لگ گئی۔زیب النساء مفتی صاحب کو چپ دیکھ کر پھر بول پڑی۔ “مفتی صاحب آپ تو صاحب علم ہیں۔ آپ تو لوگوں کو نبی کی راہ پر لگانے والے ہیں۔ آپ کیسے بھول پڑے؟نبی کی سنت، ان کی پسند سے دور ہوگئے؟” زیب النساء کے لہجے میں وحشت تھی۔ مفتی صاحب کو یوں لگا جیسے ان کے وجود کے انیٹیں گرتی جارہی ہوں وہ خود کو سمٹتا ہوا محسوس کرنے لگے۔ “میں تو وہ کام کر رہی ہوں جو حضرت خدیجہ نے کیا تھا۔ میں تو ان کے نقش قدم پر آپ کو نکاح کا پیغام دے رہی ہوں۔” آہستہ آہستہ اس کے لہجے میں بے خودی، بے ربطی اور وحشت انگیزی بڑھنے لگی۔ “مفتی صاحب میں تب سے آپ کو من میں بسائے ہوئے ہوں جب میں بارہ تیرہ سال کی عمر میں مسجد میں قرآن شریف پڑھنے آتی تھی۔ پتا نہیں کیسے آپ کی تصویر میرے من میں چھپ گئی۔میں نے اسے گناہ سمجھ کر مٹانے کی بڑی کوششیں کی ہیں مگر میں کامیاب نا ہوئی۔ پوری عمر اسی کشمکش میں گذری۔اب میں خود کو گناہ گار نہیں سمجھتی۔ جس بات پر میرا بس ہی نہیں چلتا، میری قدرت ہی نہیں میں اس معاملہ میں گناہ گار کیسے ہوسکتی ہوں؟ خدا جانتا ہے جب میرے والدین نے ماسٹر رمضان سے میری شادی کی میں اس کے کھونٹے سے بندھی رہی۔میری تمام تر توجہ محبت، خوشیوں کا مرکز ماسٹر رہا۔ میں نے اس کو جی جان سے چاہا۔مگر میں آپ کو نکال نہیں پائی۔چاہنے کے باجود میں ناکام رہی۔ میں نے خود کو بچوں میں، محلے والوں کے کام کاج میں مصروف رکھ کر بھی کوشش کی مگر خدا کے راز خدا ہی جانتا ہے۔ اب اس جاتی عمر میں اگر قسمت نے یہ موقعہ دیا ہے تو میں اسے حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ آپ خدا کے لیے مجھ سے نکاح کرلیں۔ چاہے ایک رات کے لیے سہی مگرمیں آپ کے نکاح میں آنا چاہتی ہوں۔” بات کے اختتام پر زیب النساء کا چہرہ آنسوؤں نے گھیر رکھا تھا۔ مفتی صاحب نے وجود میں کمزوری پھیلتی محسوس کی۔ خود کو کھڑے ہونے کے قابل نہ پاکر نشست گاہ پر ڈھے گئے۔
“مائی صاحبہ میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں۔ میرے دل میں آپ کا بہت احترام ہے۔”

 

“مجھے نہیں چاہیے عزت۔ نہیں چاہیے احترام۔ اگر آپ نے دینا ہے تو وہ دیں جو میں چاہتی ہوں۔ اور شریعت بھی مجھے اس کی اجازت دیتی ہے۔” وہ بپھر گئی۔ “ آپ شادی نہ کرکے کوئی نیکی کا کام نہیں کر رہے بلکہ آپ سوچنے لگیں توآپ گناہ گار بن رہے ہیں۔ ” اس بات کے اختتام پر پھر عاجزانہ انداز اور آنسو لوٹ آئے۔ “مفتی صاحب خدا رسول کے لیے مجھے قبول کرلیں۔”

 

“مجھے معاف کیجئے گا۔ میں یہ نہیں کرسکتا۔” مفتی صاحب کے پاس بجز ان الفاظوں کے کوئی جواب نہیں تھا۔
“آپ یہ کریں یا نہ کریں۔لیکن یاد رکھیے گا آپ خود کو شادی سے دور رکھ کر کوئی نیکی کا کام نہیں کر رہے بلکہ گناہ در گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔” زیب النساء ہسٹریائی انداز میں چلائی۔ “ میں جارہی ہوں لیکن پھر آؤں گی اور آپ کو یہ کرنا پڑے گا۔” وہ جملے کے اختتام تک تیز تیز قدم اٹھاتی لائبریری سے نکل چکی تھی۔

 

زیب النساء کے جانے کے بعد لائبریری میں خاموشی اتری اور مفتی صاحب کے وجود پر بھی چھانے لگی۔ اس کے اثرات مفتی صاحب کے اندر تک پہنچنے لگے۔ مفتی صاحب نے برداشت کرنے کے لیے زور لگایا مگر خود کو بے بس پاکر اٹھے اور نوافل کی ادائیگی میں لگ گئے۔ طلبا جب کتب احادیث اٹھاکر درس لینے کو پہنچے تو مفتی صاحب نوافل میں مشغول تھے۔ سبق پڑھاتے ہوئے آج ان کی یکسوئی مفقود تھی۔ حدیث کی عبارت پڑھتے ہوئے زیب النساء کے الفاظ ذہن میں آتے تھے۔ بار بار” لاحول ولا” پڑھ کر ذہن کو عبارت اور معنیٰ میں لگانے کی کوشش کرتے تھے مگر خیالات انکے قابو میں نہیں آتے۔ دو اسباق سے زیادہ پڑھا نہ پائے۔ اٹھ کر اپنی اقامت گاہ میں چلے گئے۔ تین تسبیحیں پڑھنے کے بعد ذرا جی ہلکا ہوتا محسوس کیا۔ چاردن کے بعد جب جمعے کی صبح مفتی صاحب داڑھی کو مہندی لگانے کی تیاری میں تھے تو زیب النساء پھر نازل ہوگئی۔ زیب النساء پر نظر کیا پڑی مفتی صاحب کو محنت سے پیدا کی ہوئی طمانیت رخصت ہوتی محسوس ہوئی۔ وہ پریشان خیالی میں آگئے۔ زیب النساء بنا کچھ کہے مفتی صاحب کے سامنے بیٹھ گئی۔اس کا چہرہ یوں تھا جیسے اس پر مرگ واقع ہوچکا ہو۔ ہمیشہ سے اس کا اٹھا ہوا چہرہ آج اٹھتا نہ تھا۔ٹھسا غائب اور آنکھیں بے روح تھیں۔مفتی صاحب کو کبھی کوئی میت بھی اس قدر زرد نہ دکھائی دی تھی۔ مفتی صاحب زیب النساء کی مرگ صورت کو وقفے وقفے سے اپنی گری ہوئی آنکھیں اٹھاکر دیکھتے رہے مگر وہ چپ سادھے آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی۔تادیر جب مفتی صاحب محسوس کرنے لگے کہ اتنا زمانہ بیت چکا ہے گویا قیامت کا اذن آنے والا ہے۔ زیب النساء نے آنکھیں کھول کر مفتی صاحب کو دیکھا۔ آہستہ آہستہ ان نگاہوں کی گہرائی بڑھتی گئی۔مفتی صاحب کو یوں محسوس ہونے لگا وہ نظریں ان کے گوشت، رگوں اور ہڈیوں کو چیرنے لگی ہیں۔تب زیب النساء اٹھی اور “میں پھر آؤں گی۔” کہہ کر چلتی گئی۔ زیب النساء کے جاتے ہی مفتی صاحب کا جسم جھرجھرایا اور ان کی کمر کمان کی طرح تن جانے کے بعد پیچھے پڑے تکیے پر جا پڑی۔ اس دن مفتی صاحب بہت کچھ بھول گئے۔ مہندی لگانا بھولے۔ زوال کے بعد صلوٰۃ الستبیح پڑھنا بھولے۔ جمعہ نماز پڑھاتے ہوئے بھولے۔ انہیں صرف زیب النساء کی اٹھتے وقت کی برمے کی طرح سوراخ بناتی آنکھیں یاد رہیں۔ رات کو بے چینی بلاتی رہی اور نیند کے کچھ پل ہی ان کے ہاتھ آئے۔ اگلی صبح کو جب وہ شل دماغ کے ساتھ مفلوج بیٹھے تھے تو زیب النساء پھر آن پہنچی۔ آج مفتی صاحب اس کی زبان حال کی شدت سہا ر سکے۔ چیخ پڑے۔ “مائی صاحبہ آپ کیوں میرے ایمان کے درپے ہو گئی ہیں؟ جب میں بتا چکا ہوں کہ میں یہ نہیں کرسکتا، آپ سے نکاح نہیں کرسکتا تو آپ کیوں روز روز آکرمیرے سکوں میں خلل ڈالتی ہیں؟” تب زیب النساء کی کنویں سے آتی آواز ابھرنے لگی۔
“مفتی صاحب آپ نے تو سالوں سے میری حیاتی میں خلل ڈالا ہوا ہے۔ مگر میں نے تو اس کو کبھی آپ کا قصور نہیں سمجھا۔ یہ تو رنگی رب کے رنگ ہیں۔ شکوے کرنے ہیں تو اس سے کریں۔ میں بھی اس سے کرتی ہوں۔ اس نے میرے دل کو بدل دیا تو میں کیا کروں۔ میں نے تو بہت کوششیں کی چھٹکارے کی۔”

 

“مائی صاحبہ یہ نفس کی چال ہے۔ آپ شیطان کے ورغلانے میں نا آئیں۔” مفتی صاحب نے اتنا کہا تھا کہ زیب النساء پہلے دن کے روپ میں آگئیں۔ “مفتی صاحب آپ نے کیا دین پڑھا ہے جو نبی کی سنت کو شیطان کا ورغلانااور نفس کی چال کہتے ہیں؟”زیب النساء کے گرجتے الفاظ مفتی صاحب پر کوڑے کی طرح پڑے۔ “استغفار کریں ایسے الفاظ پر۔” زیب النساء کے الفاظ سن کر مفتی صاحب کے فکر کے زنگ آلود کواڑ جیسے دھڑام سے جا گرے۔ ان کا دل صدق سے استغفار کرنے لگا۔ “مائی صاحبہ خدارا آپ مجھے بخش دیں۔ میں آپ کو ہاتھ جوڑتا ہوں۔” مفتی صاحب کی بے بسی انتہا تک جا پہنچی تھی۔ یہ جملہ کہہ کر وہ تیر کی طرح لائبریری سے باہر نکل جانا چاہتے تھے۔ مفتی صاحب میں پھر آؤں گی۔ ” زیب النساء کا جملہ تعاقب کرتا ان تک پہنچا۔ مفتی صاحب کا وجودجھکڑوں کی زد میں تھا۔ اپنی اقامت گاہ کے فرش پر لیٹے انہیں چین نہ آتا تھا۔ وقفے وقفے سے زیب النساء کا جملہ ” مفتی صاحب آپ نے کیا دین پڑھا ہے جو نبی کی سنت کو شیطان کا ورغلانا اور نفس کی چال کہتے ہیں؟” ان کے دماغ میں کسی توپ کے دھماکے کی طرح گونجتا تھا۔ انہوں نے خواہشوں کے ترک کرنے کو جو اسلام کا جز بنا رکھا تھا اس فکر کی سد سکندری کی طرح موٹی دیوار آج زلزلے کی زد میں تھی۔ وہ پوری کی پوری لرزتی گرتی جا رہی تھی۔ مفتی صاحب کو سمجھ نہ آتی تھی کہ ان سے اتنی بڑی غلطی کیسے ہوئی؟ انہوں نے کیوں نفس کشی کو ہی نیکی وتقویٰ کا معیاربنا لیا؟ انہیں یاد آیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا تھا اسلام میں رہبانیت نہیں۔ پھر حدید سورۃ کی آیت بھی آنکھوں کے سامنے آکھڑی ہوئی۔” رہبانیت ان لوگوں نے خود شروع کی۔ ہم نے ان پر لازم نہیں کی تھی۔”

 

مفتی صاحب کو اپنی جہالت پر رونے کی سوا کوئی راہ نظر نہ آئی۔ وہ عمر بھر کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر کھوپے چڑھائے خود کو پیستے رہے۔ وہ روتے ہی رہے۔ دل ودماغ ماتم میں مصروف تھے۔ اس دن تدریس پر بھی نہیں گئے۔ اندر کا مفتی انہیں گناہ گار ٹھہراتا، تفسیر وحدیث کے پڑھانے کا قابل نہیں مانتا تھا۔ تب قاری نورالحسن ان کے پاس چلے آئے۔ وہ مفتی صاحب کے دوست اور جامعہ میں شعبہ حفظ سنبھالتے تھے۔ دو بیویوں اور گیارہ بچوں کے باپ قاری نور الحسن درمیانہ سے ذرا کم قد رکھتے تھے۔ ہلکی پھلکی جسامت۔ چہرے پر شرعی داڑھی۔ تسبیح پھرو لئے ہوئے قاری صاحب مفتی سجاد حسین کی اقامت گاہ میں داخل ہوئے۔ مفتی صاحب مصلے پر دو زانو قبلہ رخ ہچکیوں میں تھے۔ نورالحسن ٹھہر گئے کہ مفتی صاحب دعا سے فارغ ہولیں۔ مگر دعا اور ہچکیاں لمبی ہوتی رہیں۔ بالآخر مجبور ہوکر قاری نور الحسن نے بلند آواز سے مفتی صاحب کو پکارا۔مفتی صاحب کو اندازہ ہوا کہ کمرے میں کوئی اور بھی ہے۔ کچھ لمحوں تک وہ آنکھیں بندے کیے ضبط کرتے رہے۔پھر مصلے سے اٹھے۔ قاری نورالحسن نے ان کے چہرے پر گریہ کے واضح آثار دیکھے۔ “کیا بات ہے مفتی صاحب آج آپ تدریس کے لیے بھی تشریف نہیں لائے۔ کوئی پریشانی لاحق ہے؟” قاری نور الحسن کے استفہام کے باوجود مفتی صاحب قاری نورالحسن کو ابھی واقعات سے آگاہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔ مگر پچھلے دنوں سے ان کے اندر میں جو تلاطم تھا اس کی کیفیت اتنی اذیت خیز تھی کہ وہ زبان پر قابو کھوبیٹھے اور انہوں نے ماسٹر رمضان کی آمد سے لیکر زیب النساء کی شدت بھری تقاضا اور اس کی باربار آمد کا تذکرہ کردیا۔ بات کے اختتام تک قاری نورالحسن کی گھنی بھویں آپس میں جا ملی تھیں اورخشونت سے پیشانی بھر آئی تھی۔ “مفتی صاحب یہ آپ پر شیطان کا حملہ ہے۔ وہ آپ کی عمر بھر کی کمائی تباہ کرنا چاہتے ہے۔ چھوڑیں اس کو۔ اس بات سے دور بھاگیں۔” “قاری صاحب میں خود اس سے بھاگ رہا ہوں۔لیکن مائی زیب النساء میرے پیچھے پڑگئی ہے۔ میری جان ہی نہیں چھوڑتی۔” بات ختم کی تو مفتی صاحب کو ایسے لگا جیسے ایسا کہہ کر انہوں نے غلطی کردی ہو۔ “مفتی صاحب وہ تو ہے ہی ایک فاحشہ عورت۔ بدذات۔ کیسی بے حیائی سے خود کو پیش کررہی ہے۔۔آپ نے کبھی دیکھا سنا کہ کسی عورت نے خود کوبے حیاؤں کی طرح جاکے پیش کیا ہو؟ کوئی پاکباز عورت ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔ کسبی عورتوں کا یہ طریقہ ہوتا ہے۔” قاری نورالحسن کا غضب ناک لہجہ تھوکیں اڑا رہا تھا۔ مفتی صاحب کے سامنے زیب النساء کی صورت شکوہ سے آکھڑی ہوئی۔ “مفتی صاحب یہ آپ نے بھری بازار میں میری چادر کو تارتار کرکے رسوائی میں ڈبو دیا۔ میری سالوں کی اطاعت، نیکی، پاکیزگی یوں ایک لمحے میں ملیا میٹ ہوگئی۔” تب مفتی صاحب بول پڑے “ قاری صاحب کچھ دھیان کریں۔ کسی نیک عورت پر ایسے الزام آپ پر زیب نہیں دیتے۔ اور حضرت خدیجہؓ نے بھی رسول اﷲ کو دعوت نکاح بھیجی تھی۔آپ الفاظ کے انتخاب میں محتاط رہیں۔” “استغفراﷲ۔استغفراﷲ” قاری نورالحسن اچھل کر کھڑے ہوگئے۔ “ ایسی پاک ہستی سے آپ ایک بدکردار کو تشبیہ دے رہے ہیں۔ توبہ کریں مفتی صاحب توبہ کریں۔ آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ اس بدذات کو تو شوہر نے بھی طلاق دے رکھی ہے۔ اگر اتنی پاک پوتر ہوتی تو طلاق کیوں ملتی اسے؟ آپ خدا سے معافی مانگیں اور اس عورت سے دور ہو جائیں ورنہ آپ کا دین ایمان لے جائے گی۔” قاری نور الحسن ناراض ناراض سلام کیے بغیر چلے گئے۔

 

دن مفتی صاحب کے لیے دشوار ہوتے چلے گئے۔ان کی سوچیں دائرے میں سفر کرتی رہتیں۔ نکلنے کا راستہ نہ ملتا تھا۔بے چینی جسم کے ارد گرد ہی پھرا کرتی۔کوشش کے باوجود دور نا جاتی تھی۔عبادت میں یکسوئی ختم ہوگئی۔ تدریس میں دھیان نہ لگتا تھا۔ یہی وہ دن تھے جب مفتی صاحب سے نمازیں پڑھاتے سہو سرزد ہونے کی کثرت ہونے لگی۔ ہفتہ ایک بعد زیب النساء نے لائبریری میں پاؤں رکھا تو مفتی صاحب نتیجے تک پہنچ چکے تھے۔ “آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھے جہالت سے نکال لیا۔ مجھے خود پر شرمندگی ہے کہ میں اندھیرے کو روشنی مانتا رہا۔ میں عمر بھر رہبانیت کی سوچیں خود پر سوار کیے یہ سمجھتا رہا کہ یہی دین کی اصل روح ہے۔ میں نکاح سے دور رہ کر فخر کرتا رہا کہ میں نیکی، تقویٰ کا صاحب ہوں۔ مجھے پتا ہی نہیں لگا کہ میں تارک سنت بن گیا ہوں۔ مجھے خود پرشرمندگی ہے۔ بہت شرمندگی۔” مفتی صاحب آج بولتے ہی جارہے تھے۔ “مگر میں یہ عرض کروں کہ میں حلالہ کا نکاح کرنے سے معذور ہوں۔ یہ شرع میں پسندیدہ فعل نہیں ہے۔میں نکاح کروں گا۔ نبی کی سنت کی تابعداری کروں گا۔لیکن میں آپ سے حلالہ کے نکاح کرنے سے معذور ہوں۔”

 

“ مفتی صاحب میری تویہ آرزو ہے کہ میں روز محشر آپ کی منکوحہ بن کر اٹھائی جاؤں۔ میں آپ کے نکاح میں مرنا چاہتی ہوں۔ مجھ سے آپ عقد کرلیں۔ میں حلالہ کا نکاح نہیں چاہتی۔”زیب النساء کی آواز تھرتھرارہی تھی۔ “ آپ کاگھر اور بچے ہیں۔ آپ کا شوہر آپ سے محبت رکھتا ہے۔۔ وہ دوبارہ گھر کو آباد کرنا چاہتا ہے۔ میں اس گھر کو برباد کرنا نہیں چاہتا۔ ” میرا کون سا گھر ہے مفتی صاحب؟ کیا کسی عورت کا گھر بھی ہوتا ہے؟ وہ تو دوسروں کے در پر گذاراہ کرتی ہے۔ باپ کا گھر کچھ اس کا اپنا ہوتا ہے جو اس کے جانے کے بعد بھائی کا بن جاتا ہے۔ بھلا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی عورت باپ کے جانے کے بعد اس گھر کی مالکہ ہوئی ہو؟ اور شادی کے بعد تو وہ شوہر کے رحم وکرم پر گذارتی ہے جو کسی بھی لمحے لات مار کر اسے گھر سے نکال سکتا ہے۔ اور پھر شوہر کے گھر کے مالک بھی بیٹے بن جاتے ہیں۔ گھر کا عورت سے کیا کام مفتی صاحب؟ میرا کوئی گھر نہیں۔ اس لیے آپ اس بات کی فکر چھوڑدیں۔” زیب النساء کی باتوں سے عورت کی بے گھری نمایاں تھی۔ “ مگر لوگ کیا تو یہی کہیں گے کہ مفتی نے ماسٹر رمضان کا گھر اجاڑ دیا۔”

 

“مفتی صاحب لوگ تو خدا اور رسول کے بارے میں بھی کہتے رہتے ہیں۔ آپ لوگوں کی بات نہ کریں۔” زیب النساء یہ بات کہنے کے بعد مفتی صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھنے لگی۔ مفتی صاحب نے جواب سے خود کو معذور پایا۔ “میں روح الامین صاحب سے مشورہ کے بعد آپ کو بتا سکوں گا۔ فی الوقت میں کچھ کہنے کی راہ نہیں پا رہا۔” اس واقعے کے چوتھے دن جب مفتی صاحب پراگندہ خیال سے عاجز ہو گئے۔ دماغ سوچوں کا انبار اٹھانے سے قاصر ہوگیا۔تب اس دن نماز عصر کے بعد مفتی صاحب نے روح الامین سے تخلیہ میں بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ “آپ کے والد گرامی مرحوم حضرت کے مجھ پر صدہا احسانات ہیں کہ انہوں نے مجھے راہ دکھائی اورحیوان سے انسان بنایا۔ خدا انہیں اپنے مقربین کے قرب وجوار میں جگہ عنایت کرے۔ بیشک وہ اسلام کے داعی، مصلح اور کامل شخص تھے۔انکے مجھ پر بے پایاں عنایات رہیں کہ انہوں نے میرے سر پر ہمیشہ اپنا دست شفقت تھامے رکھا۔ حالانکہ اس کا نہ میں اہل تھا نہ حقدار۔ ان کی رحلت کے بعد جس طرح نوجوانی میں آپ کے کندھوں پر بار ذمہ داری ومنصب آیا آپ نے اسے بطریق احسن نبھایا ہے۔ یقیناً آپ کے والد گرامی کی روح کو اس بات پر فخر محسوس ہوتا ہو گا۔ اللہ آپ کی عزت ومرتبے میں اضافہ کرے میں ایک ذاتی مسئلے میں آپ سے رہنمائی چاہتا ہوں۔” مفتی صاحب یہ بات کہہ کر خاموش ہوگئے۔ “حضرت میں تو صرف کوشش کرتا ہوں۔ اﷲقبول فرمائے۔ آپ حکم فرمائیں۔ “ “ ماسٹر رمضان اور اس کی بیوی کی علیٰحدگی کا تو آپ کو علم ہے۔ اب زیب النساء خاتون مجھ سے نکاح کرنے کی خواہش مند ہیں۔ آپ مجھے مشورہ دیں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ آپ اور آپ کا مشورہ میرے لیے محترم ہیں۔ “

 

مولانا روح الامین مفتی صاحب کی بات سن کر اچھنبے میں آگئے۔ “حضرت آپ کی پاکبازی ونیکی تقویٰ کی لوگ قسم کھاتے ہیں آپ اتنی بزرگ ہستی ہیں۔ اگر آپ نے زیب النساء سے عقد کیا تو کل کلاں لوگ زہر اگلتے پھریں گے۔صرف آپ کی ذات پر نہیں بلکہ اس دینی ادارے کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ لوگ تو ویسے ہی دین سے دوری کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اور اگر انہیں یہ بات ہاتھ آگئی تو دعوت و تبلیغ کو بڑا نقصان پہنچے گا۔بالخصوص ہمارا مخالف پیر برکت علی ہر جگہ ہر محفل میں ٹھٹھے اڑاتا پھرے گا۔” “مگر میں تو سنت نکاح کرنا چاہتا ہوں۔کوئی غیر شرعی عمل تو نہیں کرنا چاہتا۔” مفتی صاحب نے کمزور لہجے میں مدافعت کی۔ “آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر حالات اور معاشرے کو بھی دیکھ کر چلنا پڑے گا۔ ورنہ والد گرامی کی محنت اکارت چلی جائے گی۔ کیونکہ آپ کی ذات اور ارادہ الگ الگ نہیں ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک یہ بات مناسب نہیں۔ باقی آپ کے عقد کا خیال صائب اور مناسب ہے۔ کوئی اچھا رشتہ دیکھ کر یہ سنت جلد پوری کی جائے گی۔میں خود بھی اس بارے میں کوشش کرلیتا ہوں۔” مولانا روح الامین کی اس بات کے بعد گفتگو کی گنجائش نہ رہی تھی۔ مفتی صاحب کو ان کی باتوں میں وزن بھی نظر آیا۔ لہٰذا وہ کہہ کر اٹھ پڑے “بہت بہتر مشورہ ہے۔۔آپ نے صحیح فرمایا ہے۔ یہی ٹھیک رہے گا کہ عقد کے لیے کوئی اور رشتہ دیکھا جائے۔” مفتی صاحب کی بات کے بعد روح الامین نے بھی راحت محسوس کی۔ “آپ بے فکر رہیں۔ لوگ تو نیک رشتوں کی تلاش میں پریشان رہتے ہیں۔ جلد ہی کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈ کر آپ کو اطلاع کروں گا۔”

 

مفتی صاحب کو اب زیب النساء کو جواب دینے کا مشکل مرحلہ عبور کرنا تھا۔مگر روح الامین کی باتوں کے بعد وہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ ان کے کسی فعل کی وجہ سے ادارہ پرایسا وقت آئے جس میں ان پر اتہام آئے یا دین کو بدنام کیا جائے۔ چند ایک دن کے بعد انہوں نے زیب النساء کو پیغام بھیجا۔ زیب النساء گویا اڑتی آپہنچی۔ “مائی صاحبہ میرا خاندان دنیادار اور ظاہر پرست تھا۔ عزیز رشتہ داروں بشمول والد صاحب کا دین ایمان سے کوئی خاص تعلق نہیں تھا۔ بلکہ میں یہاں تک کہوں کہ وہ صرف کلمہ گو تھے اور روایات کو ایمان کا درجہ دیتے تھے۔ حضرت عبداﷲ فاضلی مرحوم کو اﷲ غریق رحمت کرے انہوں نے مجھے روشن راہ دکھائی۔ شرعی علوم سے آراستہ کیا ورنہ میں بھی آج بھنگ افیون کا چسیارا ہوتا اور سور وں، کتوں کی لڑائیاں کرواتا ہوتا۔ مرحوم حضرت عبداﷲ نے مجھے دینی کام میں اپنا شریک کیا اور جامعہ ہٰذا میں اہم ذمہ داریاں سونپیں۔۔ میری جو بھی عزت وحیثیت ہے وہ اس ادارے کی وجہ سے ہے۔ اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے ادارے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی ہو۔ میں اگر آپ سے عقد کرتا تو مخالفین کو ایک ذریعہ ہاتھ لگ جائے گا جس کے بعد وہ اس ادارے کو بد نام کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس لیے میں خود کو معذور سمجھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ بھی مجھے معذور سمجھیں گی۔”

 

مفتی صاحب نے بات ختم کی تو زیب النساء کو یوں لگا کہ جیسے اس کی رگوں شریانوں میں دوڑتا خون منجمد ہوگیا ہو۔ اس نے اپنے دماغ میں گھپ اندھیرا پھیلتا محسوس کیا۔۔ چاروں اطراف روشنیاں خستہ اور کمزور ہو کر رہ گئیں۔ “مگر مفتی صاحب۔” زیب النساء نے بولنا شروع ہی کیا تھا کہ مفتی صاحب نے اس کی بات قطع کرکے قطعی لہجے میں مخاطب ہوئے۔ “دیکھئے آپ میرے نزدیک بہت معتبر ہیں۔ مگر ادارے کے تقدس وعظمت پر کچھ گوارا نہیں کرسکتا۔ اور اگر میری ذات کی وجہ سے دین پر کوئی حرف آئے میں اس سے پہلے مرنا پسند کروں گا۔ میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔آپ مجھے معذور سمجھیں۔” مفتی صاحب نے زیب النساء کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔ “ نہیں مفتی صاحب نہیں۔ خداکے لیے نہیں۔” زیب النساء نے مفتی صاحب کے جڑے ہاتھوں کو بے اختیار تھام کر کھولتے ہوئے کہا۔۔ “آپ مجھے اتنا ذلیل نا کریں کہ میں زندہ ہی رہ نہ پاؤں۔ بس جیسے آپ کی مرضی۔” زیب النساء اٹھی اس کے چہرے پر مقتل گاہ کی طرف جاتے ہوئے سزائے موت کے قیدی کی طرح ناامیدی واضح تھی۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں کے چلتی اوجھل ہو گئی۔ مفتی صاحب نے اسے جاتے ہوئے دیکھ کر اپنے اندر اذیت کی لہر جسم میں چمکتی بجلی کی طرح پھیلتی محسوس کی۔ زیب النساء کے لوٹ جانے کے بعد مفتی صاحب پر بے کلی ہر وقت سوار رہنے لگی۔ وقت بے وقت زیب النساء کی یاد آجاتی اور دل سے ٹیسیں اٹھنے لگتیں۔ انہیں زیب النساء کو چھوڑ دینا غلط محسوس ہونے لگتا۔ مگر پھر دماغ تسلی دینے لگتا اور ان کے فیصلے کے نتائج سے آگاہ کرتا مگر دل دماغ پرحاوی ہوتے ہوئے بغاوت کا علم بلند کرنے لگتا۔ راتوں کی نیند روٹھی ہی رہتی اور انہیں تنہائی گلا گھونٹ کر مارنے کو آجاتی۔ اس صورتحال پر نجات کا ایک ہی راستہ انہیں سوجھتا کہ جلد عقد کرلیا جائے۔ مولانا روح الامین کے پاس مجبور ہو کر جا پہنچے” میں بے وقت تکلیف پر شرمندہ ہوں مگر کافی دن بیت چکے تھے۔میں نے سوچا ملاقات کے ساتھ آپ سے اس عاجز کے عقد کے متعلق دریافت کر لیا جائے۔ اس لیے حاضر ہو گیا۔”

 

“قبلہ آپ کی مہربانی کی آپ نے شرف زیارت بخشا۔ میں پوری کوشش کررہا ہوں کہ مناسب رشتہ مل سکے۔ ایک دو احباب سے بھی کہا ہے۔ جیسے ہی کوئی ایسی مثبت بات ہوگی میں خود عرض کروں گا۔” مولانا روح الامین کی بات سے مفتی صاحب کو تسلی نہ ہوپائی مگر حضور شرم کے مارے واپس ہو گئے۔ بے چینی تھی کہ انتہا کو چھوتی رہتی۔ چین کا کہیں نام نہ تھا۔ نماز پڑھتے ہوئے تو غلطیاں ہوتی رہتیں مگر اب تدریس وعبادات بھی چھوٹنے لگیں تھیں۔ مفتی صاحب خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتے رہتے مگر قوت ضبط ان کے اختیار سے نکلتی جارہی تھی۔ دو دن کے بعد مفتی صاحب خود کو روکتے روکتے پھر مولانا روح الامین کے پاس جا نکلے۔ “مولانا صاحب میرے معاملے میں کچھ پیش رفت ہوئی؟” روح الامین تب تک اپنے تئیں اچھی خاصی کوشش لے چکا تھا مگر صورتحال مایوس کن تھی۔ بھلا مفتی صاحب کی پچاس پچپن کی عمر۔ نہ اپنا گھر ناہی کوئی بہتر معاشی حالت۔ ایسے میں جن سے بھی بات کی گئی کوئی امید افزا جواب نہیں ملا تھا۔ روح الامین مفتی صاحب کو مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ “حضرت کوشش لے رہے ہیں۔ انشاء اﷲ کوئی تدبیر نکل آئے گی۔” مفتی صاحب کے جانے کے بعد مولانا روح الامین نے قاری نور الحسن کو مشاورت کے لیے بلا لیا۔ “ قاری صاحب حضرت مفتی صاحب عقدمسنونہ کی خواہش رکھتے ہیں۔ان کے رشتے کے لیے جن سے بھی بات کی ہے وہ مفتی صاحب کی بڑی عمر اور گھر گھاٹ نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہیں۔ کوئی مثبت جواب نہیں مل رہا۔میں پریشان ہوں کہ مفتی صاحب کے معاملے کو کیسے حل کیا جائے۔؟ “

 

“ آپ پریشانی نہ لیں۔مفتی صاحب کو اس عمر میں اب اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔ نجانے انہیں کیا ہوگیا ہے کہ اب دنیا میں گھر بسانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اب تو انہیں اخروی دائمی گھر کی توجہ کرنی چاہیے۔ آپ ہی انصاف کریں کوئی اپنی بچی کا مستقبل خراب کرے گا؟” “قاری صاحب کہتے توآپ ٹھیک ہی ہیں مگر جب مفتی صاحب مجھ سے معلوم کرنے آئیں تو میں کیا جواب دوں؟ میرے تووہ محترم اور استاد بھی ہیں۔”

 

“جناب آپ دلاسہ دیتے رہیں۔ یہ شادی کا بھوت کچھ ہی عرصہ میں اتر جائے گا۔” قاری نور الحسن کی بات مولاناروح الامین کو بھی ایک حل دے گئی۔ جب پھر مفتی صاحب مولانا روح الامین کے پاس آئے تو انہوں نے قاری نورالحسن کی بات ذہن میں لاتے ہوئے انہیں دلاسہ دیدیا۔ “جی حضرت کچھ رشتے ہیں میں جلد آپ کو آگاہ کردوں گا۔ “ مگر یہ جلد نہ آنا تھا۔ دن گذرتے گئے۔مفتی صاحب صبر حوصلہ ہارتے گئے۔۔ نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ مفتی صاحب آنے جانے والے اورعام ملاقاتیوں سے بھی اپنی شادی کے لیے رشتہ دیکھتے کی تقاضہ کرنے لگے۔۔ لوگوں کے اندر مفتی صاحب کی پرتقدس شخصیت کا پرتو آہستہ آہستہ اترنے لگا۔۔ لوگ جہاں بھی مفتی صاحب کو دیکھتے آپس میں معنی خیز نظروں کا تبادلہ کرتے۔ طلبا کو جس دن مشکل سبق درپیش ہوتا وہ مفتی صاحب کے رشتے کی بات نکال لاتے اور پھر سارا وقت مفتی صاحب کے لیے رشتے دیکھے جاتے۔ بحث ومباحثہ ہوتا۔۔ شریر طلبا تو طنز بھی کر دیتے مگر مفتی صاحب طنز وطعنوں سے بے خبر اپنی دنیا میں مست رہتے۔ نماز کے دوران غلطیوں کی کثرت ہوگئی۔پہلے جو لوگ مفتی صاحب کے ادب میں زبان دانتوں تلے رکھتے تھے اب ان کی زبانیں گز بھر لمبی ہوگئیں تھیں۔ خصوصاً حاجی نزاکت پیٹھ پیچھے تو چھوڑیے سامنے بھی کبھی گستاخی بھرا جملہ نکال دیتا۔۔

 

خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ بعض منچلوں نے مفتی صاحب کی دل میں یہ بات ڈال دی کہ شوکت تاجر، رانا جلال الدین، ذاکر اﷲ خان اور قاری نورالحسن کے گھروں میں جوان رشتے موجود ہیں مگروہ ان کا رشتہ کروانے میں تساہل برت رہے ہیں اور مولانا روح الامین نے تو رانا صلاح الدین اور قاری نورالحسن کو مفتی صاحب کے رشتے کے لیے کہا بھی مگر انہوں نے صاف جواب دے دیا۔ مفتی صاحب جونہی جمعہ کے خطبے کے لیے منبر پر بیٹھے انہوں نے بیٹیاں گھر بٹھا کے ان کے رشتے نہ کروانے والوں کی خوب مذمت کی اور ایسے افراد کو نار جہنم کا مستحق قرار دیا۔ دوران خطابت انہوں نے صرف نام لینے سے گریز کیا باقی ایسے افراد کی طرف واضح اشارات کیے جو ہر ایک سمجھ سکتا تھا۔ مزید انہوں نے صالح بندوں کے رشتے ٹھکرانے والوں کو بھی وعید سے نوازا۔ رانا صلاح الدین، شوکت تاجر، دوران تقریر بل کھاتے رہے اور ذاکراﷲ خان تو اٹھ کر لڑائی لینا چاہتا تھا مگر قاری نور الحسن نے اسے روکے رکھا۔ جمعے کے بعد غصے سے بھرے یہ افراد مولانا روح الامین کے پاس جا پہنچے۔ “مولانا صاحب ہم مسجد ومدرسے کی قدیمی زمانہ سے خدمت کر رہے ہیں۔ ہم یہاں دین حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔مفتی صاحب کی باتیں آج آپ نے بھی سن لیں۔ اس نے سربازار ہماری پگڑیاں اچھالی ہیں۔ اس نے یہ تک کہا کہ مسجد کے پڑوس میں آباد زمیندار اپنی چار بیٹیوں کے رشتے نہیں کرتا اور اپنی ذات برادری کے باہر رشتہ کرنے کو بے غیرتی سمجھتا ہے۔ ایسے لوگ سن لیں کہ نبی آخرالزماں ذات پات رنگ ونسل کو ختم کرنے آئے تھے۔ یہ بات ہے جمعے کے خطبے میں کرنے کی؟ یہ ہے مفتی آپ کا جو مسجد میں بیٹھ کر ہمیں ذلیل کرتا ہے؟ اگر اس کو آپ نے امامت وخطابت سے نہ ہٹایا تو میرا اس مسجد میں پاؤں رکھنا حرام ہے۔”رانا صلاح الدین نے بات ختم کی تو ذاکر اﷲ خان شرع ہوگیا۔ “مولانا صاحب یہ مفتی ہماری بچیوں پر خراب نظر رکھتا ہے۔ خدا کی قسم ہم نے اسے اس کی داڑھی کی وجہ سے بخش دیا۔ ورنہ گولی مارنے کو دل کرتا ہے۔ آپ اس کا بندوبست کرو۔”

 

مولانا روح الامین ان کے چہروں کے بگڑے زاویے اور بدلتے لہجوں سے پریشان ہوگئے۔ یہ لوگ مخیرین کی صف اول میں سے تھے لہٰذا روح الامین کو فیصلہ کرنے میں دقت پیش نہ آئی۔ “ آپ سے معذرت کرتا ہوں کہ آپ نیک دوستوں کو ذہنی اور روحانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ مفتی صاحب کی صحت بھی اب ٹھیک نہیں رہتی۔ نماز پڑھانا بھی ان کے لیے دشوار لگتا ہے۔ آپ بے فکر رہیں۔اب امامت کی ذمہ داری قاری نورالحسن کو تفویض کیے دیتے ہیں۔ اور خطابت میں خود نبھاؤں گا۔” “آپ مفتی کو سمجھائیں بھی۔ آج کل جس طرح کی باتیں ان کے بارے میں سننے کو ملتی ہیں وہ نیک لوگوں کا شیوہ نہیں۔ جہاں بھی بندہ بشر دیکھتے ہیں اسے پکڑ کر اپنا رشتہ کروانے کی التجائیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہ تو کوئی تک ہے؟ ہم تو ان کو نیک و کار پرہیزگار سمجھتے تھے یہ کیا نکلے؟ “رانا صلاح الدین کا غصہ کم ہونے کو نہیں آ رہا تھا۔ “میں انہیں ضرور سمجھادوں گا۔ آپ کو آئندہ شکایت نہیں ہوگی۔” اسی روز ہی مفتی صاحب سے امامت و خطابت واپس لے لی گئی مگر انہیں کوئی دکھ تکلیف محسوس نہ ہوئی۔ ان کی ساری توجہ اسی طرف ہی تھی کہ کسی بھی طرح ان کے عقد نکاح کا بندوبست ہوپائے۔ایک طرف تو وہ سنت کی تکمیل کرنا چاہتے تھے دوسری طرف ان کے اندر فطری جنسی خواہش بہت شدت سے ابھرتی تھی۔ یہ خواہش پہلے بھی ان کے اندر سر اٹھاتی رہتی تھی مگر وہ اس کو نفسی کشی کے ہتھیار سے کچل ڈالتے تھے۔ مگر اب معاملہ دوسرا تھا۔ ان کو اپنی راتیں محرومی سے بھری دکھائی دیتیں۔ خالی پہلو ان کو نیند نہ کرنے دیتا تھا۔ آدھی آدھی رات کو وہ اٹھ کے نلکے کے نیچے جا بیٹھتے اور کئی گھنٹے بیٹھے نہاتے رہتے۔ اچانک ایک دن زیب النساء کی موت ہوگئی۔ صحت مند، تندرست، گھومتے پھرتے اچانک گریں اور رخصت ہوگئیں۔ مفتی صاحب جو والد اور والدہ کے انتقال پر بھی رونے سے پرہیز کرتے رہے تھے۔ وہ تڑپ تڑپ کر روئے۔ کوئی انہیں حال دل سننے والا ہمراز نہ ملا تھا جس کے ساتھ وہ اپنا غم بانٹ سکتے۔ زیب النساء کی موت کے بعد وہ اس صدمے سے بیمار پڑے۔بیماری سے اٹھے تو بلکل کمزور اور نقاہت سے بھرا جسم لے کر اٹھے۔ خود کلامی کی وصف ان میں پیدا ہوگئی تھی۔ لائبریری ہو، مسجد یا اقامت گاہ۔ وہ بیٹھے خود سے باتیں کرتے رہتے۔ ایک دو اسباق ہی پڑھا پاتے اور پھر بیٹھے خلاؤں میں گھورتے رہتے یا لائبریری میں پڑی چٹائی کے تنکے نکال کر سامنے ٹیبل پر خیالی انداز میں لکھتے رہتے۔ اگر ان دو کاموں سے علیحدگی ہوتی تو بیٹھے کتابوں، الماریوں سے مخاطب ہوکر ان کو نصیحتیں کرتے رہتے۔ مفتی صاحب کی تقدس بھری قدر آور شخصیت نے لوگوں کے دلوں میں بونے کا روپ دھار لیا تھا۔

 

ان کی ذات ٹھٹھے مذاق اڑانے کے ہی کام آتی تھی۔ مولانا روح الامین اب ان سے تنگ آچکا تھا مگر وہ انہیں ادارے سے نکال باہر کرنے کا راستہ نہ پاتا تھا۔ زیب النساء کے جانے کے بعد اب مفتی صاحب کے کھانے میں بھی فرق آگیا۔ پہلے جو وقت مقررہ پر کھانا پہنچتا تھا اب مدرسے کا کوئی طالب مدرسے میں پکنے والا کھانا پہنچا کے جاتا۔ کبھی دیر کبھی سویر۔ مفتی صاحب کو اب اشتہا بھی باقی نہ رہی تھی۔ کبھی کھاتے کبھی یونہی رکھا ہوا کھانا صبح کو طالب سمیٹ کر لے جاتا۔کھانے میں بے اعتدالی نے جسم کو نقاہت سے جکڑ لیا۔ مفتی صاحب دنوں میں بوڑھے ہونے لگے۔ اعضاء نے جواب دینا شروع کیا۔ مگر مفتی صاحب کی شادی کی خواہش ابھی بھی برقرار تھی۔ بلکہ جوان ہوتی جارہی تھی۔ جب بھی لڑکے بالے ان کے ساتھ بیٹھ کر تفریحاً ان کی شادی یا کسی رشتے کا تذکرہ چھیڑتے مفتی یاصاحب کی آنکھیں دمکنے لگتیں اور بیٹھے ہشاش بشاش ہوجاتے۔ زیب النساء کے جانے کے چھٹے ماہ جب مفتی صاحب کا جسم فکرات اور صدموں میں بوسیدہ ہوچکا تھا۔تب وقت ظہر وضو کرنے کے لیے جاتے وضوخانہ کے فرش پر لڑکھڑاتے جا گرے۔ ابھی ادھر سے بھاگتے طلباء نے جب تک انہیں سنبھالا وہ بے ہوش ہوچکے تھے۔ اس بار بیماری کی شدت بلا کی تھی۔ ہفتہ دس دن کے بعد بھی مفتی صاحب کا سنبھلنا مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ مولانا روح الامین نے مفتی صاحب کے گاؤں ان کے چھوٹے بھائی کو پیغام کیا۔ سکیلدھو جو گاؤں میں ہی رہتا اور زمینداری کرتا تھا، جب پہنچا تو مفتی صاحب کو کمزوری اور ضعف کے عالم میں بے سروسامانی کے ساتھ کمرے میں چٹائی پر پڑے دیکھ کر سکیلدھو کے آنسو ٹپک کر اس کی بڑی بڑی مونچھوں پر آرکے۔ اس نے کسی سے بات کیے بغیر مفتی صاحب کو اٹھوایا اور گھر لے کر چلا گیا۔ دوماہ کے مسلسل علاج معالجے کے بعد مفتی عبدالجبار اس قابل ہوئے کہ خود اٹھ بیٹھ سکیں اور چل سکیں۔ ان دو ماہ میں سکیلدھو دن رات مفتی صاحب کی خدمت میں مشغول رہا۔ اس کی بیوی بچوں نے بھی مفتی صاحب کی بہت خدمت کی۔ انہی دنوں میں جب مفتی صاحب نیم بے ہوشی میں ہذیاں بولتے رہے تو سیکیلدھو ان کی زبانی شادی کی تیاریاں اور زیب النساء کا ذکر سنتا رہا۔ جس دن مفتی صاحب کی تندرستی کا یقین ہوا سکیلدھو مفتی صاحب کے سامنے آ بیٹھا۔ “بھائی صاحب مولا کا شکر ہے اب آپ ٹھیک ہیں۔یہ میں آپ کی زبان سے زیب النساء اور شادی کے قصے سنتا رہا۔ یہ کون ہے اور شادی کی کیا بات ہے؟ “ مفتی صاحب کو پہلی بار کوئی دکھ درد سننے والا ملا تھا۔ انہوں نے اپنی سارے دکھ تکلیفیں دل سے نکال کر سکیلدھو کی جھولی میں رکھ دیں۔مفتی صاحب کی محرومیوں نے سکیلدھو کے دل پر بھاری سل دھر دی۔ اندرونی کیفیت بیابانی سے بھر گئی۔ اسے یوں لگا جیسے مفتی صاحب تپتے صحرا میں پیاس سے نڈھال بے دم ہونے والا ہو۔

 

سکیلدھو بول پڑا۔ “ بھائی صاحب یہ گھر یہ زمینیں ان میں آپ کا برابر کا حصہ ہے۔ آپ کے لیے ہزاروں رشتے۔آپ یہیں رہیں اور میں آپ کی شادی کرواؤں گا۔ سکیلدھو کی پر عزم آنکھیں اور صادق لہجہ سن کر مفتی صاحب کی دل میں امید کی کونپل اگ آئی۔ سکیلدھوجی جان سے اپنے بھائی کے لیے رشتہ ڈھونڈنے میں جت گیا۔ گاؤں، رشتے دار، آسے پاسے۔ ہر طرف اس نے کوششیں کرلیں مگرکوئی امید آسرا نہ ملا۔مفتی صاحب اپنے فرقے کی وجہ سے عزیز واقارب کے لیے غیر بن چکے تھے۔ ہر دروازے، ہر چوکھٹ سے سکیلدھوکو مایوسی ملی۔لوگ کہتے “سکیلدھو تو تو ہمارا اپنا ہے۔ مگر مفتی سجاد ہم میں سے نہیں رہا۔ تو اگر اپنے لیے کہے تو ہم حاضر ہیں مگر مفتی سجاد حسین کو رشتہ دے کر ہم مولا کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گیں؟” سکیلدھو اس بات پر چپ سادھ لیتا۔ جواب دیتا تو کیا دیتا۔ وہ خود بھائی کی محبت میں مولا کے سامنے اپنے آپ کو شرمندہ پاتا تھا۔ جب سب دروازے بند پائے تو سکیلدھو مفتی سجاد حسین کے آگے آحاضر ہوا۔ “بھائی جی میں نے ہر شاخ ، ہر درخت میں رسی ٹانگنے کی کوشش کی مگر لوگ ماننے سے منکر ہیں۔ وہ کہتے ہیں مفتی ہم میں سے نہیں ہے۔ ہر ایک طرف سے امید کا دامن کھوکر میں تمہارے سامنے ایک درخواست لے کر آیا ہوں۔ لوگوں کا مذہب اپنا ہے۔ تمہارا مذہب اپنا ہے۔ مگر میرا کچھ اور ہی ہے۔ میری چھوٹی بیٹی سکینہ ،جس کو بالغ ہوئے دو تین سال ہوگئے ہیں۔ وہ کسی کی منگ بھی نہیں ہے۔اس سے تم شادی کرلو۔ گھر کی بات گھر تک رہے گی۔۔کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔” سکیلدھو کے الفاظ مفتی صاحب کے کانوں سے جسم میں داخل ہوئے اور انہوں نے اس کی رگوں اور شریانوں کو پھاڑ ڈالا۔ مفتی صاحب کو یوں لگا جیسے اس کا دماغ ہزاروں لاکھوں چھوٹے چھوٹے ذروں میں تقسیم ہو گیا اور ا س کے روئیں روئیں سے بہہ نکلا ہو۔ مفتی صاحب نے جنون کے عالم میں اپنا لوتھڑا بنا جسم اٹھایا اور سکیلدھو کو سجدے کرنے شروع کردیے۔۔ چار سجدوں کے بعد اس کے حلق سے بے اختیار زمیں لرزا دینے والی چیخ نکلی۔ آواز فضا کو دہلاتی اوپر اٹھی توگھر کے چوبارے پر بیٹھے کبوتروں میں سے دو کبوتر قلابازیاں کھاتے زمین پر آگرے اور ٹھنڈے ہوگئے۔ مفتی نے ٹوپی اتارکر کچی مٹی کے فرش پر پھینکی۔اپنی ابھری ہوئی نسوں والے لرزتے ہاتھوں سے گریبان کو پکڑ کر دو حصوں میں چیر دیا اور بھاگتا ہوا ڈیوڑھی میں سے گذر کر گم ہوگیا۔

ہمارے لیے لکھیں۔