پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کھیل،سیاحت اور تعلیم بھی سیاسی مفادات کے حصول کے لئے عدالتوں کی راہداریوں میں گھسیٹے جا رہے ہیں-اہم سرکاری اداروں کے سربراہان کی تقرری ہو یا ترقیاتی فنڈز کے استعمال کا مسئلہ ہر اہم معاملہ ذاتی مفادات اورسیاسی وابستگیوں کے تناظر میں اپنے حلیفوں کو نوازنے کا ایک موقع سمجھا جاتا ہے۔ عدالتوں کو انتظامی معاملات میں بے جا مداخلت کا موقع فراہم کرنے کی روایت کا آغاز تو گزشتہ چیف جسٹس کے زمانے میں ہوا لیکن اس روایت کا تسلسل ابھی جاری ہے- انتظامی معاملات کو عدالتوں کے ذریعے حل کرنے سے نہ صرف حکومت کے لئے کام کرنا مشکل ہوا ہے وہیں ایڈہاک بنیادوں پر اداروں کو چلانے کی وجہ سے اہم نوعیت کے مسائل کئی برس سے حل طلب ہیں۔
نجم سیٹھی اور ذکا اشرف دونوں کرکٹ بورڈ کے چئیر پرسن کے طور پر اس قدر متنازعہ ہو چکے ہیں کہ دونوں میں سے کسی ایک کا تقرر بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کی ساکھ کو مزید داغدار کر سکتا ہے۔ ذکا اشرف اور نجم سیٹھی کی جانب سے اہم عہدوں پر تقرریوں کا معاملہ بھی ان اصحاب ہی کی طرح متنازعہ ہو چکا ہے۔ کوچز، سلیکٹرز، مینجر اور کپتان کےتقرر جیسے اہم اور نازک فیصلے تاخیر کا شکار ہونے کی وجہ سے کرکٹ کی تنزلی کا باعث بن رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی تعیناتی کا معاملہ عدالتوں کو انتطامی معاملات میں شامل کرنے کی روایت کی بد ترین مثال ہے۔ ذکا اشرف صاحب کے انتخاب کو عدالت میں چیلنج کئے جانے کے بعد نجم سیٹھی کی تقرری سے یہ معاملہ عدالتوں اور انتظامیہ کے درمیان محاذ آرائی کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس محاذآرائی کی وجہ سے بگ تھری، ہندوستان سے کرکٹ، پاکستان میں کرکٹ کی بحالی اور 2015 کے ورلڈ کپ کے لئے تیاری جیسے اہم معاملات پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب جو کرکٹ کے پیٹرن ان چیف ہیں وہ تماشائی بنے بیٹھے ہیں جبکہ عمران خان صاحب جوپاکستانی کرکٹ کی تاریخ کا اہم ترین نام ہیں اور یقیناً کرکٹ کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں وہ سیاسی مفادات کے حصول کے لئے جلسے جلوس میں مشغول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے کرکٹ کی بہتری کے لئے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی-
مفادات کی اس جنگ کی وجہ سے ہاکی اور سکوش کے بعد یوں محسوس ہورہا ہے کہ اب پاکستان کرکٹ میں بھی زمبابوے اور بنگلہ دیش کی سطح پر آجائے گا-نجم سیٹھی اور ذکا اشرف دونوں کرکٹ بورڈ کے چئیر پرسن کے طور پر اس قدر متنازعہ ہو چکے ہیں کہ دونوں میں سے کسی ایک کا تقرر بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کی ساکھ کو مزید داغدار کر سکتا ہے۔ ذکا اشرف اور نجم سیٹھی کی جانب سے اہم عہدوں پر تقرریوں کا معاملہ بھی ان اصحاب ہی کی طرح متنازعہ ہو چکا ہے۔ کوچز، سلیکٹرز، مینجر اور کپتان کےتقرر جیسے اہم اور نازک فیصلے تاخیر کا شکار ہونے کی وجہ سے کرکٹ کی تنزلی کا باعث بن رہے ہیں۔
پاکستانی کرکٹ بورڈ کے انتظامی بحران کی وجہ سے ڈومیسٹک اورانٹرنیشنل دونوں طرح کی کرکٹ متاثر ہوئی ہے۔ گزشتہ کرکٹ سیزن کے دوران پاکستان کو انگلینڈ، آسٹریلیا اور ہندوستان سمیت دیگر بڑی ٹیموں کے ساتھ کھیلنے کے مواقع دیگر ملکوں کی نسبت کم ملے ہیں۔ انڈین پریمئیر لیگ میں پاکستانی کھلاڑیوں پر پابندی کے علاوہ دیگر ممالک کی کاونٹی کرکٹ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کم ہوتی جا رہی ہے۔ بدعنوانی کے الزام میں سزایافتہ کھلاڑیوں کے معاملے میں کرکٹ بورڈ کی غیر موثر کارکردگی کی ایک بڑی وجہ بھی ایک مستحکم بورڈ نہ ہونا ہے۔ ایک مستحکم بورڈ کے لئے آئین کی تشکیل اور اس آئین کے تحت ایک چئیر پرسن کا شفاف انتخاب ہی وہ پہلا قدم ہے جو پاکستان میں کرکٹ کی بہتری کی بنیاد بن سکتا ہے۔

Leave a Reply