معیشت کی رسی سے
یہ راتبِ شوق کھنچا گیا ہے
فصیلوں کے گارے سے
خواہش کی اینٹوں سے
سب منزلوں اور
رستوں کو پاٹا گیا ہے
نگاہِ سخن تیرے آگے
حقیقت کی اندھی سحر
چن چکی ہے
ضمیر طلب ۔۔۔۔۔
تیری خواہش
ضرورت کی اوندھی بصیرت سے
باندھی
گئی ہے
میں اس شہر کی بستیوں اور
سڑکوں پہ دل کی معیشت کی
رسی سے کھینچی گئی ہوں
Image: Debbie Turner Chavers
Leave a Reply