Laaltain

معاشرتی عدم استحکام اور ذرائع ابلاغ

23 جولائی, 2014
Picture of عائشہ صدیق

عائشہ صدیق

ایک خبر کے مطابق راولپنڈی کے ایک تعلیمی ادارے میں ایک لڑکے نےمحبت کی چار سالہ شادی کے بعد لڑکی کو گولی مار کا ہلاک کر ڈالا ، قتل کی وجہ دونوں کے بیچ پیدا ہونے والے شکوک و شبہات تھے جن پر اشتعال میں آ کر لڑکے نے یہ بہیمانہ جرم کیا۔خبر سن کر ایسا لگا جیسے کسی فلم کامنظر ہو، لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ کسی فلم کا منظر نہیں بلکہ ایسے واقعات درحقیقت
آج یہ صورتحال ہے کہ حقیقی دنیا میں افراد کے احساسات اور جذبات سے واقفیت حاصل کئے بغیر ہی موبائل اور انٹرنیٹ پر وائرلیس اورآن لائن محبت کی جاتی ہےاوراگربات نہیں بن پاتی توکسی فلمی سین کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے محبت کے یہ جیالے حقیقت میں بدلہ لینے نکل جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عام ہو رہے ہیں ۔ اس خبر نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگر معاشرے میں یہی سب ہوتا رہا تو پاکستان کے مستقبل کیا ہو گا؟ عدم برداشت نے ہمارے سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت ختم کر دی ہے، یہ کیسی روش ہے، یہ کیسی بادِ سموم ہے جس نے باغ میں کھلے پھولوں کو ہی بدرنگ کر دیا ہے؟
آج ہمارے معاشرے میں قوتِ برداشت بالکل ناپید ہو چکی ہے اور اور ایسے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں۔ کبھی کوئی سکندر دارلحکومت اسلام آباد کو دن دیہاڑے یرغمال بنانے کا ڈرامہ رچاتا ہے تو کوئی سستی شہرت کی خاطر محبت کا سہارا لیتے ہوئے لاہور میں خودکشی کا ڈرامہ کرتا ہے، کوئی لڑکی کے والدین کے نہ ماننے پر پستول ہاتھ میں لیے لڑکی کو ہی قتل کر ڈالتا ہے۔ کوئی ٹھکرائے جانے پر لڑکی کے منہ پر تیزاب پھینک دیتا ہے ، کوئی نشے میں دھت اپنے ہی خاندان کے آٹھ افراد کو ہمیشہ کی نیند سلا دیتا ہے۔ کوئی غیرت کے نام پر اپنی ہی بیٹی کو سرِعام پتھروں اور اینٹوں سے ہلاک کر دیتا ہےاور کوئی جنسی ہوس کے تحت پانچ سالہ نا بالغ بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالتاہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے معاشرے کے ہر فرد کو عدم برداشت اور عارضی جذبوں نے گھیر رکھا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی مضر ثابت ہوتی ہے ۔ معا شرتی عدم استحکام کی ایک اہم وجہ ذرائع ابلاغ پر اشتعال انگیز مواد کا دستیاب ہونا ہے ۔ آج میڈیا ایسا ہتھیار بن چکا ہے جو ہمارےرویوں کو نقصان پہنچا رہا ہے مگر ہم پھر بھی اس کی تقلید کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔موبائل اورانٹرنیٹ کےبڑھتے ہوئے غلط استعمال نے نوجوان نسل کوگمراہ کردیا ہے ۔ لوگ فلموں اور ڈراموں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ دنیا کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آج یہ صورتحال ہے کہ حقیقی دنیا میں افراد کے احساسات اور جذبات سے واقفیت حاصل کئے بغیر ہی موبائل اور انٹرنیٹ پر وائرلیس اورآن لائن محبت کی جاتی ہےاوراگربات نہیں بن پاتی توکسی فلمی سین کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے محبت کے یہ جیالے حقیقت میں بدلہ لینے نکل جاتے ہیں ۔ نیوز چینلز اپنی ریٹنگ کے لیے جنسی جرائم کی خبروں کو مصالحے دار بنا کر پیش کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ نوجوان نسل پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔آج عدم برداشت اور میڈیا چینلز میں لگی ریٹنگ کی آگ نے معاشرے کی جڑےیں کھوکھلی کر دی ہیںاور اگر یہی صورتحال رہی تووہ وقت دور نہیں جب یہ معاشرہ مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔

ہمارے لیے لکھیں۔