Laaltain

مشرقی وسطیٰ کا بدلتا منظرنامہ

13 فروری، 2016
Picture of کریم اللہ

کریم اللہ

دو جنوری 2016ء کو سعودی عرب نے ایک شیعہ عالم شیخ نیمر باقر النمر سمیت 34 افراد کا سر قلم کیا، جن پر دہشتگردی اور ریاست کے خلاف بغاوت کا الزام تھا۔ شیخ نمر کی سزائے موت کے بعد نہ صرف انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھر پور احتجاج کیا بلکہ اس فیصلے کے بعد مشرقی وسطیٰ سمیت ساری دنیا میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ غم و غصے کی یہ لہر عوامی اور سماجی حلقوں سے نکل کر حکومتی ایوانوں
تک پہنچ گئی۔ احتجاج کی اس لہر نے ایران اور سعودی چپقلش کو ایک پہلے سے زیادہ ناقابلِ عبور خلیج میں بدل دیا۔

 

گو مشرق وسطیٰ سے باہر مسلم معاشروں میں شیعہ سنی تقسیم اتنی واضح اور متشدد نہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان جیسے ممالک میں لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد مذہبی، معاشرتی اور سیاسی طور پر سعودی عرب یا پھر ایران کے ساتھ وفاداری اور وابستگی استوار کیے ہو ئے ہے۔
سعودی عرب کے اس غلط فیصلے نے نہ صرف مشرقی وسطیٰ بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا۔ عرب دنیا کی موجودہ صورتحال اور شیخ نمر کی پھانسی کو بہت سے لوگ شیعہ سنی تاریخی دشمنی کے پسِ منظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، یوں ایران کو شیعہ اثنا عشریت جبکہ سعودی عرب کو سخت گیر سنی اسلام کا نمائندہ خیال کر کے مسلمان اکثریتی معاشرے دو باہم منقسم گروہوں میں منقسم ہیں۔ گو مشرق وسطیٰ سے باہر مسلم معاشروں میں شیعہ سنی تقسیم اتنی واضح اور متشدد نہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان جیسے ممالک میں لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد مذہبی، معاشرتی اور سیاسی طور پر سعودی عرب یا پھر ایران کے ساتھ وفاداری اور وابستگی استوار کیے ہو ئے ہے۔

 

ایران سعودی تنازعے کو مذہبی ومسلکی نقطہء نگاہ سے دیکھنے والے افراد شاید مشرقی وسطیٰ میں آنے والی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تبدیلیوں سے ناواقف ہیں۔ پاکستان میں بعض تجزیہ نگار ایران اور سعودی عرب کے تنازے کی بنیاد پر عوام کو مسلکی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خلاف ابھار رہے ہیں۔ اس گروہ کو حالاتِ حاضرہ، تاریخ اور اقتصادی و سیاسی تبدیلیوں کا علم نہیں یا دانستہ ان سے اغماض کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ یہ گروہ ہر تبدیلی کو اپنی مسلکی تعصب کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ ایران سعودی تنازعے کو مسلکی رنگ دینے والے افراد اسی طرز سیاست کے ترجمان ہیں جو ماضی میں سلطنتِ عثمانیہ کو بچانے کے لئے ’تحریک خلافت‘ چلانے کا باعث بنی۔ تاریخی حقائق کے مطابق ترک عوام کی اکثریت اس ضیعف العمر عثمانی سلطنت کے جلدازجلد خاتمے کے لئے کوشاں تھی مگر ہماری سیاست میں ایک غیر ملک کی بادشاہت کے خاتمے کو مذہبی فریضہ قرار دیا گیا اور اس کے بچاو کے لیے مذہب کی بنیاد پر سیاسی مفادات حاصل کیے گئے۔ یہ درست ہے کہ مشرق وسطیٰ کی صورت حال کئی زاویوں سے پاکستان پر اثرانداز ہو رہی ہے لیکن ہمیں چاہیئے کہ ہم مسلکی اور ثقافتی تعصبات اور وابستگیوں سے بالاتر ہو کر مشرقی وسطیٰ میں تبدیل ہوتی صورتحال کا مطالعہ کر کے اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ ایران سعودی تنازعے میں بلاشبہ تاریخ اور عرب و عجم کا تہذیبی تصادم بھی ایک عامل ہے لیکن اصل جھگڑا بہرحال اقتصادی وعسکری مفادات ہی کا ہے۔

 

جب سے ایران میں حسن روحانی برسرِ اقتدار آئے ہیں، محموداحمدی نژاد کے برعکس ایران نے خارجہ امور میں بڑی حد تک سخت گیریت کی بجائے اعتدال کا راستہ اپنایا ہے۔ اسی مصلحت آمیز طرز عمل کے باعث ایران چار دہائیوں پر محیط عالمی تنہائی کو خیر باد کہتے ہوئے پھر سے عالمی برادری کی صفوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔

 

جب سے ایران میں حسن روحانی برسرِ اقتدار آئے ہیں، محموداحمدی نژاد کے برعکس ایران نے خارجہ امور میں بڑی حد تک سخت گیریت کی بجائے اعتدال کا راستہ اپنایا ہے۔
ایران کے امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ جوہری معاہدے کے باعث مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن ایران کے حق میں ہونے لگا ہے۔ ایران پر 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے بین الاقوامی پابندیاں عائد تھیں جن میں حالیہ چند برسوں میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب ایران نے متنازعہ جوہری پروگرام شروع کیا۔ ان عالمی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو مخصوص مقدار سے زیادہ تیل بیچنے کی اجازت نہیں تھی اور تجارتی اور کاروباری ادارے بھی بے تحاشا پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ عالمی تنہائی اور اقتصادی ناکہ بندیوں کی وجہ سے ایران معیشت کسادبازاری کا شکار ہو گئی، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور ایرانی ریال ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر ساٹھ فیصد تک کھو بیٹھا۔ افراطِ زر ،مہنگائی اور بے روزگاری میں ہوش ربااضافہ ہوا۔ معروف کالم نگار محترم وسعت اللہ خان اپنے ایک مضمون “ایران کھل گیا” میں لکھتے ہیں “نتیجہ یہ نکلا کہ پندرہ سے پچیس برس تک کی نوجوان آبادی میں بے روزگاری کی شرح انتیس فیصد تک جاپہنچی، ایران ایسے ملک کے لئے یہ بری خبر تھی، جہاں خواندگی کا تناسب نوے فیصد سے زائد ہے۔ دوہزار بارہ میں قومی معیشت کا حجم چھ اعشاریہ چھ فیصد اور دوہزار تیرہ میں لگ بھگ دوفیصد سکڑ گیا”۔ اس ساری صورتحال میں ایران کی سخت گیر علماء کونسل کو بھی مجبوراً حسن روحانی کی اصلاحات کے سامنے جھکنا پڑا۔

 

جوہری مسئلے پر یورپ وامریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کا معاہدہ طے پا چکا ہے اور عالمی برادری بھی ایران پر عائد پابندیاں بتدریج اٹھانے پر رضامند ہو گئی ہے۔ ان پابندیوں کے اٹھنے سے امریکی بینکوں میں پڑے اربوں ڈالر کے منجمد اثاثے اور منقولہ وغیر منقولہ جائیداد تک ایران کی رسائی ممکن ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ ایران طویل عرصہ بعد بیرونی دنیا کے ساتھ آزاد تجارت اور تیل وگیس کی برآمدات میں اضافہ کرنے کی پوزیشن میں آگیا ہے، جس سے مشرقی وسطیٰ میں ایران کی عسکری صلاحیت اور سیاسی اثرورسوخ میں بھی اضافہ متوقع ہے۔ محترم وسعت اللہ خان کے مطابق “یہ تاریخ کا عجیب موڑ ہے جہاں پہلی بار عالمی منڈی میں تیل کا اسٹاک عالمی طلب سے سترہ فیصد زائد ہے۔ چین اور امریکا سمیت تیل درآمدکرنے والے ممالک کے پاس ہنگامی ذخائز کی گنجائش تہتر ملین بیرل ہے اس وقت ان ذخائز میں چونسٹھ ملین بیرل تیل بھرا ہوا ہے۔ خریدار کم اور پیدوار اضافی ہونے کے نتیجے میں پچھلے دو برس کے دوران تیل کی قیمت میں ستر فیصد تک کمی ہوئی اور اس وقت تیل کی عالمی قیمت اٹھائیس ڈالر فی بیرل تک آ گئی ہے، جو پچھلے تیرہ برس میں سب سے کم قیمت ہے”۔

 

اگلے چند دنوں میں ایران کا کم ازکم پانچ لاکھ بیرل اضافی تیل بھی مارکیٹ میں پہنچنے والا ہے اندازہ ہے کہ فروری تک عالمی منڈی میں ایرانی تیل کی رسد موجودہ ساڑھے تین ملین بیرل سے بڑھ کے سات ملین بیرل تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں تیل کی قیمت بیس ڈالر سے بھی نیچے جانے کا قوی امکان ہے۔ چونکہ سعودی عرب اور ایران میں جاری چپقلش ختم ہونے کا بظاہر فوری امکان نہیں لہٰذا دونوں ممالک تیل کی پیداوار میں کمی کر کے قیمتوں کو مستحکم کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو پیداوار کی مار ماریں گے اور اس پیداواری جنگ کے نتیجے میں یہ بھی ممکن ہے کہ تیل کی قیمت دس ڈالر فی بیرل تک گرجائے۔ اس جنگ سے ایران اور سعودی عرب فتح مند نکلیں نہ نکلیں مگر تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کی معیشت ضرور لڑکھڑا سکتی ہے۔جس کے مثبت و منفی اثرات باقی دنیا پر بھی لامحالہ پڑیں گے۔

 

جوہری مسئلے پر یورپ وامریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدہ طے پا چکا ہے اور عالمی برادری بھی ایران پر عائد پابندیاں بتدریج اٹھانے پر رضامند ہو گئی ہے۔
جب عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان مزاکرات کامیابی کے قریب تھے اور ایران پر سے بین الاقوامی پابندیاں اٹھائے جانے کا قوی امکان تھا، تب اسرائیل اور سعودی عرب اس کی پرزور مخالفت کی۔ اسرائیل اورایران کے درمیان تاریخی دشمنی چل رہی ہے ابھی تک ایران نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے، دوسری جانب ایران حزب اللہ جیسے گروہوں کی مدد کر رہا ہے۔ اس معاہدے اور ایران کو ملنے والی اقتصادی مراعات سے خطے میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھے گا اور یوں اس کا براہ راست فائدہ حزب اللہ کو ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب کی ایران مخالف سفارتی حکمت عملی کی وجہ بھی سیاسی، اقتصادی اور عسکری ہے۔ ایران کے مستحکم ہونے کی صورت میں خطے میں سعودی اثرورسوخ کو شدید نقصان پہنچنے کے علاوہ یمن میں مصروف حوثی باغیوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی اس کے علاوہ سعودی عرب کے مشرقی علاقوں میں موجود شیعہ آبادی بھی سیاسی طور پر متحد اور مزاحمت کا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔ اس طرح بڑی مقدار میں ایرانی تیل عالمی منڈی پہنچنے کی صورت میں تیل کی قیمتوں میں مزید گراوٹ کا امکان ہے جس سے سعودی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتاہے کیونکہ سعودی معیشت کا انحصار تیل پر بہت زیادہ ہے۔ جبکہ دوسری جانب تیل، گیس اور زرعی اجناس کی برآمدات سے ایرانی معیشت مزید مستحکم ہوسکتی ہے۔ ایران اپنے تہذیبی و ثقافتی مقامات کی وجہ سے بیرونی دنیا کی توجہ حاصل کرسکتا ہے، صدر حسن روحانی کے حالیہ دورۂ فرانس میں اس کی جھلک نظر آئی جب فرانسیسی وزیراعظم نے حسن روحانی کے سامنے اعتراف کیا کہ “فرانسیسی عوام پر ایران کی عظیم تہذیب اور تاریخ کا سحر طاری ہو چکا ہے”۔ یوں ایران سیاحوں کے لئے اپنا دروازہ کھول کر اپنی معیشت میں مزید استحکام لا سکتاہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان اگرچہ براہ راست تصادم کا کوئی امکان نہیں لیکن دنوں ممالک مشرق وسطیٰ میں اثرورسوخ حاصل کرنے کے لئے سردجنگ اور پراکسی جنگ جاری رکھیں گے۔

 

اس ساری صورتحال میں حقیقت کچھ یوں ہے کہ مشرقی وسطیٰ کی چوہدراہٹ میں ایران کا پلڑا سعودی عرب پربھاری ہے اور اس امر سے سعودی عرب کے عدم تحفظ میں اضافہ ہو گا اور یوں مشرق وسطیٰ میں شیعہ سنی تصادم کی کیفیت مزید تلخ ہونے کا امکان ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کیا امریکہ ویورپ سعودی عرب کی حمایت کی اپنی سفارتی پالیسی جاری رکھتے ہیں یا نہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *