انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر دور میں انسان نے اپنی عقل اور شعور کے استعمال کی بدولت آگے کی طرف سفر جاری رکھا ہے۔ غاروں میں رہنے والوں نے بھی اپنی کھوج اور پہچان کی خاطر خوابوں کے ساحلوں پر کھڑے ہوکر اپنی تعبیر کے دریاؤں کو عبور کیا اور یہ جذبہ آج بھی انسانی جدوجہد کی صورت میں کارفرما ہے۔ انسان ہمہ وقت اس کائنات کے انگنت رازوں پر سے پردہ اٹھانے میں مگن ہے اور اس جہد مسلسل کی شمع تھامے ہوئے آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سفر میں انسان سوچنے، سمجھنے، جاننے، تلاش کرنےاور لکھنے جیسے مراحل سے گزرا ہے ۔ آج بھی ہم کئی ہزار سال پہلےتحریر کیے جانے والے علوم سے استفادہ کرتے ہیں۔ آج کی نسلوں کو ان تمام ادوار کے لوگوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے اس کائنات کو اپنے اپنے انداز سے دیکھا اور اس کی تشریح کی۔ ہمیں ان لکھاریوں، دانش وروں اور کاتبوں کا شکر گزار ہونا چاہیئے جن کی کاوشیں آج تحریری صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
مٹی کی تختیوں، درختوں کی چھالوں، جانوروں کی کھالوں اور کاغذ سے ہوتا ہوا یہ سفر آج انٹرنیٹ تک آن پہنچا ہے جہاں ہر موضوع پر سینکڑوں ہزاروں کتابچے صرف ایک کلک کی دوری پر ہیں
مٹی کی تختیوں، درختوں کی چھالوں، جانوروں کی کھالوں اور کاغذ سے ہوتا ہوا یہ سفر آج انٹرنیٹ تک آن پہنچا ہے جہاں ہر موضوع پر سینکڑوں ہزاروں کتابچے صرف ایک کلک کی دوری پر ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ چیزیں حاصل کرتے وقت ہمیں ان تمام لوگوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جن کی انتھک محنت کی بدولت ہی ہم یہاں تک پہنچے ہیں اور یہ سفر اب بھی جاری ہے۔ اس صدی کو بہت سے لوگوں نے کتاب کی صدی کہا ہے لیکن جب بھی ہم مسلم معاشروں کا جائزہ لیتے ہیں تو صورت حال انتہائی مخدوش دکھائی دیتی ہے ۔ ویسے تو مسلم معاشروں نے پچھلی کئی دہائیوں میں کسی بھی شعبے میں کوئی بڑا آدمی پیدا نہیں کیالیکن کتاب کے حوالے سے صورت حال انتہائی شرمناک ہے ۔ مختلف خلیجی ریاستوں میں جانے کا اتفاق ہوااور یہ دیکھا کہ وہاں سرمائے کے بل بوتے پر مزید سرمایہ کھینچنے کی دوڑ جاری ہے۔مسلم حکم رانوں کی عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ ایک عام آدمی بھی کتاب سے کوئی رشتہ نہیں رکھتا۔
مسلم معاشرے عرصہ دراز سے ایک خول میں بند ہیں اور گزشتہ کئی صدیوں سے مسلم فکر جمود کا شکار ہے۔ ہمارے اہل مذہب اور اربابِ اختیار نے یہ سوچ ہمارے ذہنوں میں پیوست کردی ہے کہ ہمارا بس ماضی شاندار تھا اور ایک دن ہمارا مستقبل تابناک ہوجائے گا۔ یہ ایک ایسا زہرِ ہے جسے تریاق بنا کر مسلم معاشروں میں ہر سطح پر دیا جارہا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ لاہور سے نیویارک جاتے ہوئے پین ایم کی پروازیں ریاض میں رکتی تھیں ۔اس سفر کے دوران میں نے اس فلائٹ پر موجود تمام غیر ملکیوں کے ہاتھ میں اخبار یا کوئی کتاب دیکھی۔ بہت دفعہ خلیجی ممالک کا سفر بھی کیا اور ہمیشہ حیران رہا کہ فضائی میزبان جب اخبارات پیش کرتی تھیں تو 200مسافروں میں سے صرف 5یا 6اخبار بین ہی میسر آئے۔ ہمارے ہاں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ کتاب خریدنے کی استطاعت رکھنے والوں کا بھی کتاب سے کوئی رشتہ نہیں ہے بلکہ وہ اس سے یوں اجتناب کرتے ہیں جیسے یہ گناہ کبیرہ ہو۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں گھروں میں بھی غیر نصابی کتب کے مطالعے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ہمارے والدین اکثر یہ نصیحت کرتے ہیں کہ بس اپنی کتابوں پر دھیان دو غیر نصابی کتاب کو ہاتھ بھی نہ لگاؤ ورنہ دماغ خراب ہوجائے گا۔ حیرت ہے جس چیز کے مطالعہ سے ذہن زرخیز، سوچ وسیع اور علم و آگاہی کے نئے دریچے کھلتے ہیں یہاں اس پر پابندی ہے۔
مسلم معاشرے عرصہ دراز سے ایک خول میں بند ہیں اور گزشتہ کئی صدیوں سے مسلم فکر جمود کا شکار ہے۔ ہمارے اہل مذہب اور اربابِ اختیار نے یہ سوچ ہمارے ذہنوں میں پیوست کردی ہے کہ ہمارا بس ماضی شاندار تھا اور ایک دن ہمارا مستقبل تابناک ہوجائے گا۔ یہ ایک ایسا زہرِ ہے جسے تریاق بنا کر مسلم معاشروں میں ہر سطح پر دیا جارہا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ لاہور سے نیویارک جاتے ہوئے پین ایم کی پروازیں ریاض میں رکتی تھیں ۔اس سفر کے دوران میں نے اس فلائٹ پر موجود تمام غیر ملکیوں کے ہاتھ میں اخبار یا کوئی کتاب دیکھی۔ بہت دفعہ خلیجی ممالک کا سفر بھی کیا اور ہمیشہ حیران رہا کہ فضائی میزبان جب اخبارات پیش کرتی تھیں تو 200مسافروں میں سے صرف 5یا 6اخبار بین ہی میسر آئے۔ ہمارے ہاں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ کتاب خریدنے کی استطاعت رکھنے والوں کا بھی کتاب سے کوئی رشتہ نہیں ہے بلکہ وہ اس سے یوں اجتناب کرتے ہیں جیسے یہ گناہ کبیرہ ہو۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں گھروں میں بھی غیر نصابی کتب کے مطالعے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ہمارے والدین اکثر یہ نصیحت کرتے ہیں کہ بس اپنی کتابوں پر دھیان دو غیر نصابی کتاب کو ہاتھ بھی نہ لگاؤ ورنہ دماغ خراب ہوجائے گا۔ حیرت ہے جس چیز کے مطالعہ سے ذہن زرخیز، سوچ وسیع اور علم و آگاہی کے نئے دریچے کھلتے ہیں یہاں اس پر پابندی ہے۔
ہمارے اہل مذہب اور اربابِ اختیار نے یہ سوچ ہمارے ذہنوں میں پیوست کردی ہے کہ ہمارا بس ماضی شاندار تھا اور ایک دن ہمارا مستقبل تابناک ہوجائے گا۔
آج بھی مغرب اور یورپ کی ترقی میں کتاب کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق سب سے زیادہ کتابوں کی اشاعت انہی ملکوں میں ہوتی ہے ۔ یورپ کے چھوٹے سے ملک آئس لینڈ میں ہر دس میں سے ایک آدمی مصنف ہے ۔ یورپ میں مطالعے کی شرح مسلم دنیا کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ یہی فرق ہے جن قوموں نے علم، آگاہی اور سوچ پر پہرے اور پہریدار نہیں بٹھائے وہ مسلسل ترقی کی طرف گامزن ہیں، ایجادودریافت ان کا طرہ امتیاز ہے۔ دوسری طرف علم دشمنی اور کتاب سے احتراز کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے مستقبل کی کنجی کتاب دوستی سے وابستہ ہے۔ کتب بینی ہی سے ہمارے لیے فکر کے نئے دروازے کھلیں گے، سوچ کی اجلی کرنیں ہمارے ہاں بسیرا کریں گی اور ہمارے دلوں اور ذہنوں پر لگے صدیوں پرانے زنگ آلودقفل کھل جائیں گے۔
Leave a Reply