اگر آپ تھر کے کسی قحط زدہ علاقے میں پیدا نہیں ہوئے اور ناگفتہ بہ حالات میں بھی کسی طرح میٹرک تک تعلیم حاصل کرچکے ہیں تو آپ جمہوریت کے فوائد سے تو واقف ہوں گے اور یہ بھی جانتے ہوں گےکہ آمریت میں کتنے جھول ہیں ،مگر جمہوریت اور اس کے ثمرات جو درسی کتابوں میں پڑھائے اور رٹائے جاتے ہیں دراصل اس کا تعلق اس جمہوریت سے ہے جو یورپی ممالک میں موجود ہے۔ہمارے ہاں کی نام نہاد جمہوریت ہو یا آمریت ، دونوں صورتوں میں سیاسی نظام میں شرکت اور نمائندگی کے ثمرات بااثر طبقے کے حصے میں ہی آتے ہیں جبلہ قربانیاں وہی محکوم اور مظلوم طبقہ دیتا ہے جو ووٹ ڈالے تو وعدوں کے خوش نما سکوں سے اس کی جھولی بھر دی جاتی ہے۔ آمریت کے خلاف تحریکوں میں جیلیں بھرے اور پولیس کی ماریں کھائے تو نعرےلگا کر، مٹھائیاں بانٹ کر اور خلق خدا کے مسند پر بٹھائے جانے کے خواب ہاروں میں پرو کر پھر کسی بھٹو زادے یا شریف ِوقت کے لئے پلکوں کے قالین بچھا کر نئے سرے سے حالات کے عبرت کدے میں اگلی آمریت تک مشقت کی چکی پیسنے پر معمور ہو جاتا ہے۔جمہویت کا پاکستانی ورژن ان تمام "آلائشوں” سے پاک ہے جو کسی طور عوامی نفع کا باعث بنیں۔پچھلے چھ سالوں سے اس مملکت پر حکومت کرتی جمہوریت سے بیزاری اچھنبے کی بات نہیں ،عوام ویسے ہی اب جمہوریت کی بد ہضمی میں مبتلا ہیں۔قصور جمہوری طرز حکومت کا نہیں،اس کو چلانے والوں کا ہے جس نے اکثریت کو خود سے اور جمہوری نظام سے مایوس کر دیا ہے۔ بھلا ووٹ ڈالنے والے ، تالیاں پیٹنے والے اور ہار پہنانے والے ہاتھ کب تک اپنے پیٹ کے نوالے دوسروں کے حلق میں ڈالتے رہیں گے،جب ہر کوئی ضروریات کی چنگیر لئے پھرے ایسے میں جمہوریت کا کھلونا کتنی دیر عوام کو خوش رکھے۔
بھلا ووٹ ڈالنے والے ، تالیاں پیٹنے والے اور ہار پہنانے والے ہاتھ کب تک اپنے پیٹ کے نوالے دوسروں کے حلق میں ڈالتے رہیں گے،جب ہر کوئی ضروریات کی چنگیر لئے پھرے
پاکستان میں قائم جمہوریت کے بنیادی خدوخال میں عوامی مسائل کا حل مفقود ہے۔گو کہ قانون سازی پر پچھلے دور میں کافی دھیان دیا گیا مگر آئینی تراش خراش کسی کے تن پر کپڑا یا پیٹ میں خوراک کے برابر نہیں ہو سکتی۔ اور پھر پاکستان میں جمہوریت کا مفاہیم سبھی کے لئے الگ ہیں۔پاکستان میں جمہوریت وہ ہوتی ہے جو مرکزی قیادت کو بھائے،یہاں من پسند نااہل افراد کو قومی اداروں کا چیرمین بنادیا جاتا ہے۔یہاں ملک کے سب سے بڑے شہر میں امن و امان مستقل رخصت پر رہتاہے مگر چند مخصوص خاندانوں کا اقتدار قائم رہتا ہے۔ سکیورٹی کے نام پر ہر چوک اور شاہراہ پر پولیس موجود رہتی ہے مگر سٹریٹ کرائم کسی طور نہیں گھٹتے ۔
صرف حکمرانوں اور حکومتی اداروں کا کیا رونا ، یہاں تو کوئی ایسا نہیں جس کا دامن داغدار نہ ہو۔ ٹریفک سگنل تیزرفتاری اور احتجاج دونوں میں توڑے جاتے ہیں، انتڑیوں سے کوکنگ آئل بنایا جاتا ہے، بجلی کھلے عام چوری کی جاتی ہے اور تو اور پچھلے دس سال میں ریسکیو 1122 کو 6 کروڑ 33 لاکھ کالز موصول ہوتی ہیں جن میں سے صرف 22 لاکھ ایمرجنسی سے متعلق ،باقی کالز فیک ہوتی ہیں۔یہاں ہر مذہبی اور قومی تہوار سائلنسر اور بندوق نکال کر منایا جاتا ہے۔ نسل، رنگ اور مسلک کے اختلاف کو ریاستی سطح پر تسلیم کرنے کی بجائے سیاسی عمل کو چند علاقوں تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ کرکٹ میچ میں یا کسی آفت کے آنے پر ہم سب اکٹھے ہوجاتے ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا باقی ممالک کے عوام ان حالات میں متحد نہیں ہوجاتے؟سب ہوجاتے ہیں، بات امن میں اتحاد کی ہے۔
صرف حکمرانوں اور حکومتی اداروں کا کیا رونا ، یہاں تو کوئی ایسا نہیں جس کا دامن داغدار نہ ہو۔ ٹریفک سگنل تیزرفتاری اور احتجاج دونوں میں توڑے جاتے ہیں، انتڑیوں سے کوکنگ آئل بنایا جاتا ہے، بجلی کھلے عام چوری کی جاتی ہے اور تو اور پچھلے دس سال میں ریسکیو 1122 کو 6 کروڑ 33 لاکھ کالز موصول ہوتی ہیں جن میں سے صرف 22 لاکھ ایمرجنسی سے متعلق ،باقی کالز فیک ہوتی ہیں۔یہاں ہر مذہبی اور قومی تہوار سائلنسر اور بندوق نکال کر منایا جاتا ہے۔ نسل، رنگ اور مسلک کے اختلاف کو ریاستی سطح پر تسلیم کرنے کی بجائے سیاسی عمل کو چند علاقوں تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ کرکٹ میچ میں یا کسی آفت کے آنے پر ہم سب اکٹھے ہوجاتے ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا باقی ممالک کے عوام ان حالات میں متحد نہیں ہوجاتے؟سب ہوجاتے ہیں، بات امن میں اتحاد کی ہے۔
اگر ریاست عملی جمہوری اور فلاحی بننے کی بجائے سلامتی کے خوف کی بنیاد پرہتھیار بند رہی تب تک لوگوں کے درمیان رشتہ قومیت کا نہیں بلکہ شک ، خوف اور جبر کا رہے گا۔
جمہوری نظام حکومت بھلے دنیا کا بہترین نظام حکومت ہے مگر جب تک ٹھکرائے ہوئے محروم طبقات کو سیاسی اور معاشی آزادی نصیب نہیں ہو گی ،اور تمام گروہوں کے وجود ، شناخت اور نمائندگی کے حق کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تب تک اس نظام کے حقیقی ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے۔ اگر ریاست عملی جمہوری اور فلاحی بننے کی بجائے سلامتی کے خوف کی بنیاد پرہتھیار بند رہی تب تک لوگوں کے درمیان رشتہ قومیت کا نہیں بلکہ شک ، خوف اور جبر کا رہے گا۔ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرے گی تو ریاست کی غیر موجودگی کو غیر ریاستی عناصر پر کرتے رہیں گے ، سروں کی فصل یونہی کٹتی رہے گی اور عوام بنیادی حقوق اور سہولیات سے محروم رہیں گے۔
Leave a Reply