ہمارے سماج میں حفظ مراتب کا بندوبست اتنا پیچیدہ ہے کہ آپ عمر میں اپنے سے بڑے کسی شخص کا مذاق نہیں اڑا سکتے، رنگ، نسل اور مذہب والی بات تو بہت دیر بعد آتی ہے۔
گزشتہ چند سال میں اگر آپ نے (ہماری طرح) شام کے بعد ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہونے والے پروگرام دیکھے ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا ہم مزاح(یا کم ازکم سیاسی مزاح) کے ‘سنہری دور’ میں سانس لے رہے ہوں۔ نت نئے پروگراموں میں نت نئے چہرے ہر شام ‘مزاح’ کے جوہر بکھیر تے ہیں۔ ان حالات میں یہ بات بحث طلب ہے کہ مزاح اور پھکڑ پن میں کیا فرق ہے اور کیا ہمارا معاشرہ Satireیا ہجو برداشت بھی کر سکتا ہے یا ہم ہمیشہ سیاست دانوں کی نقالی کرنے والوں کو مزاح کا پیمانہ سمجھتے رہیں گے؟ قوموں کے سماجی ارتقاء میں وہ وقت بھی آتا ہے کہ جب معاشرے میں مزاح، طنز، ہجو، جگت، نقالی اور پھبتی کی درست جگہ مرتب ہو جاتی ہے۔ بالغ معاشروں میں اپنی حماقتوں پر ہنسنے کا ظرف پایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ Satire کا بنیادی نظریہ ہی یہ ہے کہ کوئی چیز (یا شخصیت یا نظریہ) مزاح سے بالاتر نہیں اور اس میں رنگ نسل اور شہریت کی کوئی تفریق نہیں۔ ہمارے سماج میں حفظ مراتب کا بندوبست اتنا پیچیدہ ہے کہ آپ عمر میں اپنے سے بڑے کسی شخص کا مذاق نہیں اڑا سکتے، رنگ، نسل اور مذہب کی بات تو بہت دیر بعد آتی ہے۔ ہمارے ہاں مشہور عام لطیفوں میں ظرافت سے زیادہ پھکڑ پن جھلکتا ہے۔ لطیفہ اگر سوچنے پر مجبور نہ کرے، پہلے سے موجود نظریات پر چوٹ نہ کرے تو وہ لطیفہ نہیں، جگت ہے۔ لطائف کی ایک منفرد سماجی حیثیت ہوتی ہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تومعلوم ہوتا ہے کہ ہمارے لطائف بیویوں کے گرد، پٹھانوں کے گرد(یہ صیغہ ہر صوبے میں مختلف ہے)، مختلف ذاتوں کے متعلق اور جنسی نوعیت کے اعمال سے باہر نہیں نکل پاتے۔ ایک نیم قبائلی، پدرشاہی معاشرے میں دل کی بات نثر یا شعر کی زبان میں کہنا محال ہے، Satire کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود ہماری خاکستر میں بہت سی چنگاریاں رہی ہیں۔ اردو مزاح نگاری میں مشتاق یوسفی، پطرس بخاری، کرنل محمد خان، شفیق الرحمان، ابن انشاء، محمد خالد اختر نے اپنا نام روشن کیا۔

ہمارے معاشرے میں پدر شاہی نظام، فوج، ذات پات کے نظام اور ملا کی اجاری داری ہے۔ عمدہ لطائف وہ ہوں گے جو ان برتر قوتوں پر چوٹ کریں، ان کی بے مائیگی پر طنز کے نشتر چلائیں، ان کے استبداد کی مخالفت کریں۔
ہمارے معاشرے میں پدر شاہی نظام، فوج، ذات پات کے نظام اور ملا کی اجاری داری ہے۔ Satire یا عمدہ لطائف وہ ہوں گے جو ان برتر قوتوں پر چوٹ کریں، ان کی بے مائیگی پر طنز کے نشتر چلائیں، ان کے استبداد کی مخالفت کریں۔ مزاح کا بنیادی مقصد انگریزی محاورے والی ’مقدس گائیوں‘ کی اصلیت واضح کرنا ہے۔ پڑوسی ملک میں ویسے بھی گائے کی تقدیس بہت ہے لہٰذا وہاں مزاح کی حدود مزید تنگ ہیں۔ اس کے باوجود بھارت میں نوجوان ان زنجیروں کو توڑنے پر مصر ہیں اور ان میں سے کئی کا کام یو ٹیوب پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں Stand-up Comedy کی کوشش گزشتہ دو دہائیوں میں مختلف اصحاب کی جانب سے کی جا چکی ہے لیکن ان میں سے بیشتر انگریزی زبان اور ایک بیگانی ثقافت سے لطائف مستعار لے کر انہیں پاکستانی بنانے کی غلطی کرتے رہے۔ انگریزی زبان میں Stand-up کی جو روایت امریکہ یا برطانیہ میں ہے، اس کا چلن ہمارے ہاں عام نہیں۔ ٹی وی ڈراموں پر نظر دوڑائیں تو شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ ففٹی ففٹی، سونا چاندی، گیسٹ ہاؤس،جنجال پورہ، فیملی فرنٹ، الف نون، آنگن ٹیڑھا اور سچ گپ جیسے کتنے ہی مزاحیہ ڈراموں کی جگہ اب بوکھلائے ہوئے اداکار اور پس پردہ چلنے والا Laughing Track لے چکا ہے۔ سیاسی تجزیے اور پھکڑ پن کے امتزاج کی روایت ڈاکٹر یونس بٹ نے شروع کی۔ رفتہ رفتہ سیاسی تجزیہ کم اور پھکڑ پن نمایاں ہونے لگا(اس ضمن میں آفتاب اقبال کی خدمات قابل غور ہیں)۔ اس فارمولے کی مختلف شکلیں اب بازار میں دستیاب ہیں۔ ہر چینل نے حسب استطاعت بھانڈ خرید رکھے ہیں جو رات ڈھلتے ہی سکرینوں پر براجمان ہو جاتے ہیں۔بھانڈ اور جگت بذات خود ایک سماجی حیثیت کے حامل ہیں اور ان کے موضوعات سطحی طور پر سماجی ضرورہیں، سیاسی بالکل نہیں۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر حس ظرافت کا مظاہرہ کرنا اور سیاسی صورت حال کا تبصرہ کرنا بہرحال دو مختلف چیزیں ہیں۔ جگت بازی میں اکثر مخالف فریق کی ہتک کرنا مقصود ہوتا ہے اور اس مقصد کے لئے لفاظی کے جوہر استعمال کیے جاتے ہیں۔ جگت بنیادی طور پر ایک غیر سیاسی صنف ہے (اور ہونی بھی چاہئے)۔ سٹیج پر انور مقصود صاحب نے کچھ نیم مزاحیہ ڈرامے لکھے لیکن ان میں مروجہ اقدار جیسے پدر سری نظام کے متعلق قائم مفروضوں کو بعینہٰ برقرار رکھا۔

سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی تضحیک اور جمہوریت کا مذاق اڑانے کا سلسلہ کچھ مخصوص ’پس پردہ‘ سرکاری اداروں کی جانب سے کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
خشک سیاسی تجزیہ سننا ناظرین کے لئے بوریت کا باعث بنتا ہے لیکن سیاسی امور میں حد درجہ سنجیدگی کی ضرورت موجود رہتی ہے۔ امریکہ میں کئی ہفتہ وار پروگرام کئی دہائیوں سے مزاح اور سنجیدہ موضوعات پر بحث کرنے کے لئے مختص ہیں۔ کچھ پروگرام ایسے ہیں جو صرف مزاح کے لئے ہیں (جو سیاسی اور غیر سیاسی ہو سکتا ہے لیکن مروجہ اقدار پر چوٹ بہر صورت موجود ہوتی ہے) اور سنجیدہ امور کے لئے الگ پروگرام مختص ہیں۔ان کے برعکس ہمارے ہاں نام نہاد مزاحیہ پروگراموں میں نہ تو مزاح ہوتا ہے، نہ سنجیدہ گفتگو۔ اس طرح ہمارے ناظرین سیاست کو مزاح اور مزاح کو سیاست سمجھ بیٹھتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں معاشرے کو ‘غیر سیاسی’ بنانے میں کچھ کردار میڈیا کا بھی ہے۔ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی تضحیک اور جمہوریت کا مذاق اڑانے کا سلسلہ کچھ مخصوص ’پس پردہ‘ سرکاری اداروں کی جانب سے کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس بیانیے کے باعث بالخصوص نوجوان نسل میں جمہوری نظام سے اکتاہٹ اور بیزاری پیدا ہوئی۔

سیاسی شخصیات کی تضحیک اور پیروڈی تو خیر چلتی ہی رہے گی، ہماری اجتماعی حس ظرافت پر اس نئے رواج نے برا اثر ڈالا ہے۔ نوجوان نسل کتب بینی سے دور ہو چکی اور ٹی وی پر معیاری پروگراموں کی عدم موجودگی کے باعث پھکڑ پن ہی مزاح کا معیار بنتا جا رہا ہے۔ڈان نیوز پر ‘ذرا ہٹ کے’ نے اس رواج کو تبدیل کرنے کی کوشش شروع کی ہے، یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ کب تک وہ اس عمل کو جاری رکھ سکتے ہیں۔

One Response

  1. C M Naim

    بہت خوب۔ آپ کا تجزیہ بالکل درست ہے۔ دوسروں پر ہنسنا اور خود پر ہنسنا، دو الگ الگ کام ہیں۔ اور غالباً دو الگ الگ صلاحیتیں اور عادتیں بھی چاہتے ہیں۔ پھر بھی بہت غنبیمت ہے کہ کم از کم سیاست کو لوگوں نے نشانہ بنا رکھا ہے۔

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: