انسان بھی کتنا عجیب ہے،تمام عمر جسم و جاں کے تقاضے نپٹاتے نپٹاتے وقت کی پونجی ختم کر بیٹھتا ہے اور پھر بھی لمحہءآخر میں اس کی آنکھوں کے بے رنگ پانی میں سوائے خواہشات ناتمام کی تیرتی پھرتی ادھ موئی لاشوں کے کچھ بھی دکھائی نہیں پڑتا۔ اور انہی آرزوﺅں پہ ماتم کناں اس کی جان ان دیکھے رستوں کو جا لیتی ہے۔ اگر اس کا ظاہر بے خراش بھی ہو تو بھی کیا پتہ کہ باطن میں کہیں نہ کہیں کوئی باقی رہ جانے والی خلش یا آرزو کا کوئی انجان سا دکھ روح کو گھائل کئے ہوئے ہے۔ اور پھر جب بات کی جائے ”عورت“ کی تو پھر تو کوئی شمار ہی نہیں۔ کیوں کہ اسے تو ہر شے سنبھالنے کی عادت ہوتی ہے خواہ وہ روح کو پارہ پارہ کئے رکھنے والے زخم ہی کیوں نہ ہوں۔ نہ وہ زخموں کو خود سے جدا کرتی ہے اور نہ ہی زخم دینے والے کی یاد کو۔ وہ ہر ہر گھاﺅ کا حساب بھی خوب رکھتی ہے اور اس حساب کی جمع تفریق میں ذرہ برابر بھی بھول چوک نہیں کرتی۔ اسے اپنے زخموں کی خلش جینے نہیں دیتی پھر بھی وہ ان کی خلش کے سہارے تنہا ہی جی لینے کا حوصلہ رکھتی ہے اسے گلے تو ہزاروں ہیں لیکن وہ ان کا مداوا بھی نہیں چاہتی کہ کہیں کوئی اسے کمزور نہ سمجھ بیٹھے، جب کہ وہ جانتی بھی ہے کہ جس دنیا میں وہ جی رہی ہے اس دنیا کے سبھی لوگ اسے حقیراور بے توقیر ہی جانتے ہیں۔
ہوا سے جنگ میں ہوں، بے اماں ہوں
شکستہ کشتیوں پر بادباں ہوں
میں سورج کی طرح ہوں دھوپ اوڑھے
اور اپنے آپ پر خود سائباں ہوں
مجھے بارش کی چاہت نے ڈبویا
میں پختہ شہر کا کچہ مکاں ہوں
(پروین شاکر)
شکستہ کشتیوں پر بادباں ہوں
میں سورج کی طرح ہوں دھوپ اوڑھے
اور اپنے آپ پر خود سائباں ہوں
مجھے بارش کی چاہت نے ڈبویا
میں پختہ شہر کا کچہ مکاں ہوں
(پروین شاکر)
”پروین شاکر“ ایک ایسی ہی گھائل شاعرہ تھی۔ جس کی شاعری کو پڑھنا گویا خود اپنے آپ کو پڑھنے کے مصداق ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی کسی لمحے کچھ ایسے ٹوٹا کہ شاید پھر کبھی خود کو سمیٹ نہ پائے، لیکن اگلے ہی لمحے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے وجود کی کرچی کرچی خود اپنے زخمی ہاتھوں سے سمیٹ کر کچھ ایسی ادا اور شان سے آگے بڑھ چکا ہے کہ جیسے اسے اپنی ذات کا کوئی گھاﺅ یاد ہی نہیں۔ ایک جگہہ کہتی ہیں:
چارہ گر ہار گیا ہو جیسے
اب تو مرنا ہی دوا ہو جیسے
مجھ سے بچھڑا تھا وہ پہلے بھی مگر
اب کے یہ زخم نیا ہو جیسے
سر چھپائیں تو بدن کھلتا ہے
زیست مفلس کی ردا ہو جیسے
اب تو مرنا ہی دوا ہو جیسے
مجھ سے بچھڑا تھا وہ پہلے بھی مگر
اب کے یہ زخم نیا ہو جیسے
سر چھپائیں تو بدن کھلتا ہے
زیست مفلس کی ردا ہو جیسے
اس لمحے شاعرہ کی اداسی اور اس کا ٹوٹنا کتنا عیاں ہے اور اگلے ہی لمحے اس کا لہجہ کس طور بدل جاتا ہے اور وہ کہیں رنگ، خوشبو، دھنک اور کہیں خواب اور تمناﺅں کی باتیں کر نے لگتی ہے۔ وہ بے تھکان چلتی چلی جاتی ہے اپنے زخموں کو سینے سے لگائے اور کبھی خود ہی ان زخموں پر لفظوں کا مرہم لگائے۔ کہیں رکتی نہیں اور تھکتی نہیں۔ اس کی اس ہمت اور حوصلے کی ایک وجہ تھی جو اس نے بصورت ایک خیالی لڑکی کے یوں بیان کی کہ
”رات کے کسی ٹھہرے ہوئے سناٹے میں اس نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ اس پر اس کے اندر کی لڑکی کو منکشف کر دے۔ مجھے یقیں ہے کہ یہ سن کر خدا اس دعا کی سادگی پر ایک بار ضرور مسکرایا ہو گا! (کچی عمروں کی لڑکیاں نہیں جانتیں کہ آشوب آگہی سے بڑا عذاب زمیں والوں پر آج تک نہیں اترا) پر وہ اس کی بات مان گیا۔ اور اسے چاند کی تمنا کرنے کی عمر میں ذات کے شہر ہزار در کا اسم عطا کر دیا!۔ ۔ ۔ شہر ذات کہ جس کے سب دروازے اندر کی طرف کھلتے ہیں اور جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں!”
اور اس نے اپنے وجود کو اپنی ذات پہ حاوی نہ ہونے دیا شاید یہ اسی کا کمال ہے کہ اس پر اس کی ذات منکشف ہونے لگی۔ رتی رتی کر کے اس کے خیالوں اور جزبوں میں لمحوں کی صورت وارد ہونے لگی۔ وہ گہری راتوں کے گہرے سناٹوں میں اٹھ اٹھ کر اپنی ذات کے سبھی راز قلم کی مدد سے قرطاس پر انڈیلنے لگی، وہ جادو کی چھڑی گھماگھما کر جو کچھ لفظوں سے مانگتی وہ اسے اسی ترتیب میں پیش کرتے چلے گئے۔اور اسے آگہی کے عذاب سے بھی سکون میسر آنے لگا۔ وہ کمال کی شاعرہ تھی جس نے اک عام شعر گو کی طرح اپنے زخموں کی سر عام نمائش نہیں کی۔ اپنی بلبلاتی یا کلبلاتی روح کے نوحے یا واویلے سنا سنا کر داد وصول نہیں کی جس نے زندگی کو بے تمنائی یا بے خواہشی کی کائی زدہ جھیل میں دھکیل کر ستم ظریفی، بے دلی یا بے نوائی کو استعاروں یا تشبیہات میں نہیں ڈھالا اس نے تو ہر خیال اور ہر خواب سے خوشبو اور رنگ کو کشید کیا۔ ہر لفظ کو نغمگی اور ترنمگی کی آغوش عطا کی۔ جذبوں کو لفظوں کی شیرینی میں گھول کر ہماری روح میں انڈیل دیا۔ ایسا نہیں کہ اسے کوئی تکلیف نہ ہوئی تھی۔ تکلیف تو ہوتی ہے کہ جب کوئی ایسا انسان جسے آپ اپنی روح تلک کی دسترس سونپ دیں جب وہ ہرجائی ہو جائے۔ اور جب وہ پر خار رستوں پر ہمیں تنہا چھوڑ جائے۔ تکلیف تو ہوتی ہے، اور اپنی تکلیف کا کیا خوب اظہار کیا ہے یہاں:
جس طرح خواب مرے ہوگئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
لیکن اس ٹوٹی ہوئی لڑکی کا شکوہ بھی عجیب ہے جس میں اس نے اپنی انا کو بچائے رکھا
ٹوٹی ہے میری نیند مگرِ، تم کو اس سے کیا!
بجتے رہیں ہواﺅں سے درِ، تم کو اس سے کیا!
تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پر، تم کو اس سے کیا
اوروں کا ہاتھ تھامو،انہیں راستہ دکھاﺅ
میں بھول جاﺅں اپنا ہی گھر تم کو اس سے کیا
تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لئے
تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا!
بجتے رہیں ہواﺅں سے درِ، تم کو اس سے کیا!
تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پر، تم کو اس سے کیا
اوروں کا ہاتھ تھامو،انہیں راستہ دکھاﺅ
میں بھول جاﺅں اپنا ہی گھر تم کو اس سے کیا
تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لئے
تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا!
<br
اس نے رومانویت کو عامیانہ جذبوں اور استعاروں سے نکال کر اسے اس کا تقدس اور مقام مرتبہ عطا کیا۔ وہ بغاوت اور سرکشی کو بھی ایسی اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی کو زخم یا گھاﺅ دے کر اپنی منزل مراد پا سکیں۔ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے جیسے اس کا محبوب اس زمانے کا تھا ہی نہیں اس نے خود اپنے گیان سے اس کا بت تراشا اور اسے مہان بنا دیا۔ ورنہ وہ کون بدنصیب ہو گا جو ایسے خوب صورت اور نازک خیال کی کومل لڑکی کو شکستہ حالات کے بہاﺅ پر تنہا چھوڑ دے۔ اس نے تو کچھ خواب ہی دیکھے تھے لیکن ان خوابوں کے رفیق نے تو اس سے اس کی آنکھوں سے جذبوں کی رمق ہی نوچ ڈالی۔
سب نے پوچھا خزاں کیا ہوتی ہے؟
تم نے میری مثال دی ہوتی
پوچھا موسم بدلتے ہیں کیسے ؟
تم نے اپنی مثال دی ہوتی
پوچھا کیسے گھٹا برستی ہے؟
میری آنکھوں کی بات کی ہوتی
پوچھا رک رک کے کون چلتا ہے؟
میرے دل کی مثال دی ہوتی
کاش!! سب کچھ یوں نہ ہوا ہوتا،
بات تم نے سنبھال لی ہوتی
تم نے میری مثال دی ہوتی
پوچھا موسم بدلتے ہیں کیسے ؟
تم نے اپنی مثال دی ہوتی
پوچھا کیسے گھٹا برستی ہے؟
میری آنکھوں کی بات کی ہوتی
پوچھا رک رک کے کون چلتا ہے؟
میرے دل کی مثال دی ہوتی
کاش!! سب کچھ یوں نہ ہوا ہوتا،
بات تم نے سنبھال لی ہوتی
پروین شاکر پرانی فرسودہ روایات کو اچھی قدروں اور معاشرت سے بدلنے کی آرزو دل میں رکھتی تھی اور یہ بھی خوب جانتی تھی کہ عورت کو اس کا حق اور اس کا اعلیٰ مقام دئے بغیر معاشرت نہ تو بدل سکتی ہے اور نہ ترقی کر سکتی ہے وہ ایک جگہہ اس کمی کا برملا اظہار کرتی ہیں ”میرا قصور ہے کہ میں ایسے قبیلے میں پیدا ہوئی جہاں سوچ رکھنا جرائم میں شامل ہے مگر قبیلے والوں سے یہ بھول ہوئی ہے کہ انہوں نے مجھے پیدا ہوتے ہی زمین میں نہیں گاڑا مگر وہ اپنی بھول سے بے خبر نہیں سو اب میں ہوں اور اپنے ہونے کی مجبوری کا یہ اندھا کنواں جس کے گر دگھومتے گھومتے میرے پاﺅں پتھر کے ہو گئے ہیں اور آنکھیں پانی کی۔ کیونکہ میں نے اور لڑکیوں کی طرح کھوپے پہننے سے انکار کر دیا تھا اور انکار کرنے والوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا“۔ ان کی شاعری میں ایک فیمنسٹ کا رنگ بھی نظر آتا ہے کیونکہ وہ مرد کے اس معاشرے میں عورت سے ہونے والے سلوک کا شکوہ بھی کرتی ہیں اور مرد کی برتری کے زعم میں عورت کی کمتری کے تصور کو رد بھی کرتی ہیں:
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاﺅں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
مشرقی روایات کا ادراک اور خیال کرتے ہوئے اپنی ذات کے خول کی گھٹن سے نجات پانے کی جستجو میں مگن، محبت کو کسی اعلیٰ مقام تک پہنچانے کی خواہش کرتی کہیں کہیں اداس اور کہیں کہیں زندگی سے بھرپور سوچ کی مالک یہ لڑکی شاعری کی عام روش اورنسائی جذبوں کو اس کے عام سے اظہار اور تذکرے سے نکال کر کسی اعلیٰ مقام پر لے جانے والی یہ شاعرہ جو مردوں کی تنقید کا نشانہ بھی بنی جن کا خیال تھا کہ پروین شاکر نے شاعری کو مخصوص نسائی خیالات تک مخصوص کر کے اپنی شاعری کے کینوس کو محدود کر دیا۔ آخر مرد کا یہ معاشرہ کسی عورت کو اس کی تمام تر ذہانتوں اور خیالات کی رعنائیوں کے ساتھ کیسے تسلیم کر لیتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پروین شاکر نے خواتین شاعرات کی مخصوص ڈگر سے ہٹ کر اپنے خیالات کا اظہار کیا انہوں نے محبت اور جذبات کے خیالات کو تقدس اور معنویت عطا کی مرد کی ایک طویل قطار میں اپنی دھکم پیل سے عورت کو اس کی جگہہ دلوائی گو ان کی شاعری کا لب لباب محبت ہی رہا لیکن محبت سے گریز بھی ممکن نہیں اس عظیم شاعرہ نے گھٹن زدہ معاشرے کو رنگ اور خوشبو کے اظہار کی جرائت اور اختیار دلایا۔ اس نے بھاری بھرکم لفظوں اور تشبیہوں میں الجھانے کی بجائے خیال کو لفظوں پر اس طور دسترس دی کہ وہ اپنا اظہار اور مفہوم خود بیان کرنے لگے۔ اس شاعرہ نے موسم، تنہائی، خواہش، سناٹے اور جذبوں کا تذکرہ کیا اور ابھی اسے بہت کچھ کہنا تھا لیکن وقت اور تقدیر نے اس کے سفر کو اختتام دے دیا۔ لیکن تعصب کی فضا ابھی تھمی نہیں آج اس کا تزکرہ ادبی محافل میں معدوم ہونے لگا ہے لیکن وہ جانتی تھی کہ اس کی شاعری خوشبو ہے۔ ایسی خوشبو جو اپنے وجود کو خود منواتی ہے، جسے کوئی کبھی پھیلنے اور محسوس کئے جانے سے روک نہیں پائے گا۔
مر بھی جاﺅں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، میرے ہونے کی گواہی دیں گے
لفظ میرے، میرے ہونے کی گواہی دیں گے