مرکزہ اپنی اکائی توڑتا ہے
“عجب عشوہ گری ایام نے سیکھی ہے موسم کے تغیر سے”
زمانہ شہر کے بازار میں جسموں کو دکانوں پہ رکھ کے
لمسِ لذت کی صدائیں بیچتا ہے
مرکزہ اپنی اکائی توڑتا ہے
برہنہ شاخ پر پتوں کا میلہ لگنے سے پہلے
ہوائیں منقسم ہو کر نئی ترتیب پاتی ہیں
زمانہ شہر کے بازار میں جسموں کو دکانوں پہ رکھ کے
لمسِ لذت کی صدائیں بیچتا ہے
مرکزہ اپنی اکائی توڑتا ہے
برہنہ شاخ پر پتوں کا میلہ لگنے سے پہلے
ہوائیں منقسم ہو کر نئی ترتیب پاتی ہیں
عجب عشوہ گری ایام نے سیکھی ہے موسم کے تغیر سے
گھر آنگن سے نکلنے والی لڑکی
آسماں کی دھوپ سے اپنی گلی میں بوڑھی عورت ہو گئی ہے
پیالہ ہاتھ کا، بجھتے چراغوں کو بچانے کے لیے گنبد نہیں بنتا
نفیس اور نازک اعضا بھینچنے کی خواہشیں مٹی میں گرتے بیج کے ہم رہ
درختوں کی قدآورشاخ بنتی ہیں
گھر آنگن سے نکلنے والی لڑکی
آسماں کی دھوپ سے اپنی گلی میں بوڑھی عورت ہو گئی ہے
پیالہ ہاتھ کا، بجھتے چراغوں کو بچانے کے لیے گنبد نہیں بنتا
نفیس اور نازک اعضا بھینچنے کی خواہشیں مٹی میں گرتے بیج کے ہم رہ
درختوں کی قدآورشاخ بنتی ہیں
عجائب گھر کی بوسیدہ عمارت میں پڑی دیمک زدہ تحریرمیں ویدیں بتاتی ہیں
یہاں پر کاشت کاری ہو رہی تھی
یہاں پر کوئی دشوادارا، گھوشا اور پالا گا رہا تھا
اور یہیں یگیوں کی رسمیں تھیں
سروں میں فتح مندی کا کوئی نعرہ نہیں تھا
صنفِ نازک اور تن ِمضبوط
اک بستر پہ دو خوابوں کے موجد تھے
یہاں پر کاشت کاری ہو رہی تھی
یہاں پر کوئی دشوادارا، گھوشا اور پالا گا رہا تھا
اور یہیں یگیوں کی رسمیں تھیں
سروں میں فتح مندی کا کوئی نعرہ نہیں تھا
صنفِ نازک اور تن ِمضبوط
اک بستر پہ دو خوابوں کے موجد تھے
عجب عشوہ گری ایام نے سیکھی ہے موسم کے تغیر سے
زمیں پاؤں کی ٹھوکرپرپڑی ہے
آسماں مرضی کا منظر چاہتا ہے
رتجگے کی شب کروموسوم کی ہجرت پہ پہرہ دے رہا ہے
زمیں پاؤں کی ٹھوکرپرپڑی ہے
آسماں مرضی کا منظر چاہتا ہے
رتجگے کی شب کروموسوم کی ہجرت پہ پہرہ دے رہا ہے
Image: Seema Kolhi