اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ سمیت وہ تمام مرد (اور عورتیں بھی ) جو یہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے مردوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ عورت کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں یقیناً غلط ہیں۔ مولانا اختر شیرانی صاحب سمیت دنیا کے تمام مرد اور عورتیں جب یہ کہتے ہیں کہ مرد کو دوسری شادی کے لئے عورت کی اجازت کی ضرورت نہیں، یا یہ کہ نو سال کی عمر میں جسمانی بلوغت کے آثار پرلڑکی کی شادی کی جاسکتی ہے، یا یہ کہ عورت کی گواہی آدھی ہونی چاہئے، یا یہ کہ عورت محرم کے بغیر سفر نہیں کر سکتی، یا یہ کہ مرد عورت پر “نگہبان” ہیں، یا یہ کہ عورت کو طلاق کا حق نہیں وہ عدالت کے ذریعہ محض “معقول” وجوہ کی بنیاد پر خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے؛ ایسے تمام افراد عورت کو ایک کم تر انسان سمجھتے ہوئے اُنہیں پدری روایات کی عکاسی کر رہے ہیں جو عورت کو پیدا ہوتے ہی مارڈالنے یا اپنے شوہر کے ساتھ زندہ جل جانے پر مجبور کر تی رہی ہیں۔ اسلام نے جو حقوق، مرتبہ، آزادی اور احترام ایک عورت کو آج سے چودہ سو برس قبل دیا تھا یقیناً ایک انقلابی قدم تھا یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کے تسلسل کے تحت آج کی عورت اپنا حق مانگ رہی ہے اور برابری کا دعوی کر رہی ہے۔ اسلام تمام زمانوں کے لئے ہے اسی لئے اس میں آج کے زمانے کے تقاضوں کے مطابق عورت وک آزادی، برابری اور حقوق عطا کرنے کی گنجائش بھی ہے، لیکن قدامت پرست مذہبی علماء عورت کے برابری کے حق کی نفی کررہے ہیں۔
اسلام نے جو حقوق، مرتبہ، آزادی اور احترام ایک عورت کو آج سے چودہ سو برس قبل دیا تھا یقیناً ایک انقلابی قدم تھا یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کے تسلسل کے تحت آج کی عورت اپنا حق مانگ رہی ہے اور برابری کا دعوی کر رہی ہے۔
خاندان کی تشکیل کے دوران عورت کو نظر انداز کرنے اور کم تر حیثیت دینے کی روایت صدیوں سے موجود ہے حتیٰ کہ عقائد کی تشریح بھی یوں کی گئی ہے کہ عورت کو خاندان تک محدود رکھتے ہوئے اس کے فیصلہ کرنے کےحق کو محدود کر دیا جائے۔ کم عمری میں شادی، بچوں کی شناخت باپ کو قراردینا، طلاق کے حق کی نفی، گھر سے اکیلے نکلنے کی ممانعت اور پردہ جیسی روایات کو عقیدہ قرار دے کر ہر سطح پر ایک خود مختار عورت کی نفی کی گئی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ عملاً قدامت پسند مذہبی تشریحات اور سماجی روایات کے تحت عورت کے لئے اپنا فیصلہ خود کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے اور اسے مجبور کیا گیا ہے کہ وہ ان پابندیوں کو بھی دیگر احکامات کی طرح قبول کر لے۔ سیاست، معیشت اور معاشرت میں عورت کے اظہار اور فیصلہ کرنے کے عمل کو سختی سے روکنے کے لئے ہی عورت کو کم تر حیثیت دی گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پدری معاشرہ ایک آزاد اور خود مختار عورت کو قبول نہیں کرتا، یہی وجہ ہے کہ مرد کے برابر کھڑی عورت اور مرد سے آگے نکلنے کی صلاحیت رکھنے والی عورت کو محض عورت ہونے کی بناء پر تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عائلی و خاندانی قوانین میں بھی عورت کو اسی تفریق کا سامنا ہے۔ علماء کی جانب سے “خاندان کے تحفظ” کے لئے عورت کو طلاق کا حق دینے کی مخالفت اور عورت کے “تحفظ “کے لئے عورت پر پردہ اور محرم کے ساتھ سفر کرنے کی پابندی کی حمایت اس بڑے پیمانے پر کی گئی ہے کہ اکثر عورتیں بھی ان غیر انسانی پابندیوں کی حمایت کرتی نظر آتی ہیں۔ عورت کو پابند کر کے خاندان اور عورت کی حفاظت ایسی ذہنیت کی پیداوار ہے جو عورت کو فیصلہ کرنے کا اہل نہیں سمجھتی ، یہی مردانہ ذہنیت عورت پر اعتبار نہ کرنے کی ذہنیت ہے۔ اس گمراہ کن فکر کے نتیجے میں ہی عورت کو مردوں سے گھلنے ملنے اور آنے جانے کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ایک سے زائد شادیوں کی حمایت، عورت کی کم عمری میں شادی کی تبلیغ، طلاق کے حق سے عورت کی محرومی اور مردوں سے گھلنے ملنے کی ممانعت مردوں کی شہوت پرستی کا ہی ردعمل ہے جس کے تحت وہ عورت کو محکوم رکھنا چاہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پدری معاشرہ ایک آزاد اور خود مختار عورت کو قبول نہیں کرتا، یہی وجہ ہے کہ مرد کے برابر کھڑی عورت اور مرد سے آگے نکلنے کی صلاحیت رکھنے والی عورت کو محض عورت ہونے کی بناء پر تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عائلی و خاندانی قوانین میں بھی عورت کو اسی تفریق کا سامنا ہے۔ علماء کی جانب سے “خاندان کے تحفظ” کے لئے عورت کو طلاق کا حق دینے کی مخالفت اور عورت کے “تحفظ “کے لئے عورت پر پردہ اور محرم کے ساتھ سفر کرنے کی پابندی کی حمایت اس بڑے پیمانے پر کی گئی ہے کہ اکثر عورتیں بھی ان غیر انسانی پابندیوں کی حمایت کرتی نظر آتی ہیں۔ عورت کو پابند کر کے خاندان اور عورت کی حفاظت ایسی ذہنیت کی پیداوار ہے جو عورت کو فیصلہ کرنے کا اہل نہیں سمجھتی ، یہی مردانہ ذہنیت عورت پر اعتبار نہ کرنے کی ذہنیت ہے۔ اس گمراہ کن فکر کے نتیجے میں ہی عورت کو مردوں سے گھلنے ملنے اور آنے جانے کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ایک سے زائد شادیوں کی حمایت، عورت کی کم عمری میں شادی کی تبلیغ، طلاق کے حق سے عورت کی محرومی اور مردوں سے گھلنے ملنے کی ممانعت مردوں کی شہوت پرستی کا ہی ردعمل ہے جس کے تحت وہ عورت کو محکوم رکھنا چاہتے ہیں۔
مذہبی علماء عورت کو مرد کے تابع رکھنا چاہتے ہیں لیکن میرے نزدیک خدا کے قریب ہونے کے لئے تقویٰ اور پرہیز گاری ضروری ہیں ، اس مقصد کے لئےمرد کی اظاعت اوربرتری قبول کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی خود کو گھر تک محدود کرنا ضروری ہے
میں علماء کو یہ بتادینا چاہتی ہوں کہ عورت قرآن اور اسلام کی تشریح کے لئے مردوں کی محتاج نہیں ہے وہ قرآن اور حدیث کا مطالعہ کر کے یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ خدا اپنی وحی میں کیا کہنا چاہتا ہے ۔ اسلام کی تشریح پر مردوں کی اجارہ داری اُس اسلام کی نفی ہے جس پر عمل کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اختلاف کی صورت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے رجوع کیا کرتے تھے۔میں اسلامی نظریاتی کونسل پر یہ واضح کردینا چاہتی ہوں کہ حدود، طلاق، شادی اور وراثت کے قوانین کی تشریح کا اختیار عورت کے پاس بھی اتنا ہی ہے جتنا ان کے پاس ہے۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ مذہبی علماء عورت کو مرد کے تابع رکھنا چاہتے ہیں لیکن میرے نزدیک خدا کے قریب ہونے کے لئے تقویٰ اور پرہیز گاری ضروری ہیں ، اس مقصد کے لئےمرد کی اظاعت اوربرتری قبول کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی خود کو گھر تک محدود کرنا ضروری ہے کیوں کہ اسلام جس مثالی گھریلو ماحول کی تلقین کرتا ہے وہ یقیناً مرد اور عورت کی مساوات کے بغیر ممکن نہیں۔ عورت شادی کرنے نہ کرنے، کسی مرد سے ملنے یا نہ ملنے، طلاق دینے یا نہ دینے، بچہ پیدا کرنے یانہ کرنے ، گھر پر رہنے یا باہر نکلنے اور اپنی ذات سے متعلق ہر فعل کا فیصلہ خود کرنے کا اختیا رکھتی ہے ، جو خدا نے ہی اسے عطا کیا ہے اور اس حق کو استعمال کرنے کے لئے وہ کسی مرد کی اجازت کی پابند نہیں۔
عورت کو پیچھے دھکیلنے کے لئے عقیدہ کا سہارا لینے کی کوشش مردوں کےاس خوف کو ظاہر کرتی ہے جو وہ ایک آزاد اور خود مختار عورت کی موجودگی اور اپنی ہزاروں برس سے قائم نام نہاد برتری کو چیلنج کئے جانے پر محسوس کرتے ہیں۔ مردوں کو اپنے برابر کھڑی عورت کو نہ صرف قبول کرنا ہوگا بلکہ عزت بھی دینا ہو گی۔ عورت کو خاندان کی سطح پر ہی ان پدری اقدار کے خلاف بغاوت کرنا ہوگی اور مردوں کو یہ جتانا ہو گا کہ وہ اپنی زندگی اپنے طور پر اپنے بل بوتے پر گزار سکتی ہیں۔ہر عورت کو خاندان کے فیصلوں میں اپنا اختیار استعمال کرنا ہو گا، اور مردوں کو عورت کے مستقبل کا فیصلہ کرنے سے روکتے ہوئے اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔
عورت کو پیچھے دھکیلنے کے لئے عقیدہ کا سہارا لینے کی کوشش مردوں کےاس خوف کو ظاہر کرتی ہے جو وہ ایک آزاد اور خود مختار عورت کی موجودگی اور اپنی ہزاروں برس سے قائم نام نہاد برتری کو چیلنج کئے جانے پر محسوس کرتے ہیں۔ مردوں کو اپنے برابر کھڑی عورت کو نہ صرف قبول کرنا ہوگا بلکہ عزت بھی دینا ہو گی۔ عورت کو خاندان کی سطح پر ہی ان پدری اقدار کے خلاف بغاوت کرنا ہوگی اور مردوں کو یہ جتانا ہو گا کہ وہ اپنی زندگی اپنے طور پر اپنے بل بوتے پر گزار سکتی ہیں۔ہر عورت کو خاندان کے فیصلوں میں اپنا اختیار استعمال کرنا ہو گا، اور مردوں کو عورت کے مستقبل کا فیصلہ کرنے سے روکتے ہوئے اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔
6 Responses
بے شک عورت کو اپنا فیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسلام کیا کہتا ہے، خدا کے احکامات کیا ہےیہ سب عورت کو خود سمجھنے اور اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔۔۔یہ عورت ذات کا بنیادی انسانی حق ہے جو خدا کا عطاکردہ ہے۔
بسم اللہ الرحمان الرحیم
الحمد للہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اس ملک کا بنیاد لاالہ الاللہ پر رکھا گیا تھا۔ تاکہ یہاں کے باشندے قرآن پاک اور سنت رسول ﷺ کی روشنی میں ایک آزاد شھری کی حیثیت سے ذندگی بسر کرسکے۔ایک مسلمان خواہ وہ مرد ہو یا عورت خواہ وہ کتنا آزاد کیوں نہ ہو لیکن وہ ذندگی اللہ پاک اور اور اس کے رسولﷺ کی غلامی میں گزارےگا ورنہ بصورت دیگر وہ مسلمان کہلانے کا حقدار نہیں ہوگا۔ اسلام نے ہی معاشرہ میں عورت کو وہ اعلی مقام دیا جو کوئی اور مذہب نہ دے سکا۔
محترمہ ملیحہ سرور صاحبہ، یہ اسلام ہی تھا جس نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے بیٹی کو خدا کی رحمت قرار دیا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے بہن، بیٹی، ماں جیسے مقدس رشتوں کا بنیاد رکھا۔ لیکن ساتھ ہی معاشرہ کی بقا کے لئے کچھ حدود وقیود بھی رکھے۔
مسلمان عقل کا غلام نہیں ہوتا جو اپنے دماغ کی اختراع کو اپنا مشغل راہ بنا دے، مسلمان ہر مسئلے میں قرآن کا پابند ہے۔ خدارا ذرا قرآن پاک اٹھاکر دیکھئے، قرآن پاک کیا کہتا ہے عورتوں کے بارے میں اور اللہ کا رسولﷺ کیا کہتا ہے۔
۱] ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر میں کسی کو سجدہ کرنا روا رکھتا تو میں عورت کو حکم کرتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے { ترمذی}
کیا یہ اسلامی نظریاتی کونسل کی اسٹیٹمنٹ ہے یا پیارے رسول کا حدیث ہے؟
اور حضورﷺ کا فرمان ہے : جو عورت پانچوں نماز ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے۔ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے تو وہ بہشت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔ { مشکوۃ}
افسوس ہوتا ہے کہ واضح اسلامی تعلیمات کے باوجود یہ سننا پڑتا ہے کہ
“دیکھا یہی گیا ہے کہ مذہبی علماء عورت کو مرد کے تابع رکھنا چاہتے ہیں لیکن میرے نزدیک خدا کے قریب ہونے کے لئے مرد کی اظاعت اوربرتری قبول کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی خود کو گھر تک محدود کرنا ضروری ہے۔”
رہی گھر میں رہنے کی بات تو قرآن کا واضح حکم ہے کہ {و قرن في بيوتكن } اپنے گھروں میں رہا کرو۔
مغرب کے اندھے پجاریوں، نام نہاد آزادی نسواں کے علمبردارو!
میں آپ کو آج بتا دینا چاہتا ہوں کہ آپ نے عورت ذات کو کیا دیا اور ہم نے کیا دیا۔
آپ نے عورت کو کیا مقام دیا، بس یہی کہ
۱} اسے ایک شوپیس بنا کے رکھ دیا گیا ہے۔
۲} کاروبار کا ایک زریعہ بنا دیا گیا ہے۔
صابن بیچنے کی خاطر ننگا کرکے رسوا کیا، شیمپوں بیچنے کی خاطر ننگا کیا، پلاسٹک بیچنے کی خاطر ننگا کیا، کیا یہ ہے وہ عزت جو مغرب نے دی عورت کو
۳} مرد کی شہوت کو پورا کرنے کے لئے سرعام نچایا جاتا ہے۔
۴} اپنی کمائی کا ذریعہ بناکرفلم انڈسٹری اور بازار حسن بھیجا گیا۔
۵} ریسپشن اور دوکان پر صرف اس لئے رکھا جاتا ہے تاکہ ذیادہ سے ذیادہ کلائنٹ راغب ہوں۔
کیا یہ ہے آزادی؟ کیا یہ ہیں خواتین کے حقوق؟
اور دوسری طرف ہم!
کہ سارا دن مشقت اٹھاتے ہیں، ذلتیں برداشت کرتے ہیں، در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں تاکہ اپنی ماں، بیٹی کےلئے حلال لقمہ پیدا کرسکیں۔
آپ کے مغرب کی آزاد عورت پیٹ پہ حمل لئے در در کی ٹھوکریں کھاتی اپنے لئے رزق کی تلاش میں سرگرداں ہوتی ہے۔
وہ بچے بھی جنم دیتی ہے اور نوکری بھی کرتی ہے۔
مغرب کی آزادی یہ ہے کہ عورت شوہر کو خوش رکھے یا نہ رکھے لیکن بوائے فرینڈ کو ضرور خوش رکھے۔
ساحر لدھیانوی نے کیا خوب لکھا۔
Ye kooche ye nilaam ghar dilkashi ke
ye luTate hue kaarawaaN zindagi ke
kahaaN hain, kahaaN hain muhaafiz Khudi ke
Sanaa Khwaan-e-taqdiis-e-mashriq kahaaN hain
Ye purpench galiyaaN, ye beKhaab baazaar
ye gumanaam raahii, ye sikkon kii jhankaar
ye ismat ke saude, ye saudon pe takaraar
Sanaa Khwaan-e-taqdiis-e-mashriq kahaaN hain
ta’affun se pur niim roshan ye galiyaaN
ye masalii huii adh khilii zard kaliyaaN
ye bikatii huii khokalii rang raliyaaN
Sanaa Khwaan-e-taqdiis-e-mashriq kahaaN hain
wo ujale dariichon mein paayal kii chhan-chhan
tanaffus kii ulajhan pe tabale kii dhan-dhan
ye beruuh kamaron mein khaaNsii kii dhan-dhan
Sanaa Khwaan-e-taqdiis-e-mashriq kahaaN hain
ye guuNje hue qah-qahe raaston par
ye chaaron taraf bhiiD sii khiDakiyon par
ye aawaazen khiinchate huwe aaNchalon par
Sanaa Khwaan-e-taqdiis-e-mashriq kahaaN hain
ye phuulon ke gajare, ye piikon ke chhiinTe
ye bebaak nazareN, ye gustaaKh fiqare
ye dhalake badan aur ye madaquuq chehare
Sanaa Khwaan-e-taqdiis-e-mashriq kahaaN hain
ye bhuukii nigaahen hasiinon kii jaanib
ye baDate hue haath siinon kii jaanib
lapakate hue paaNv ziinon kii jaanib
Sanaa Khwaan-e-taqdiis-e-mashriq kahaaN hain
yahaan piir bhii aa chuke hain jawaa.N bhii
tanuu mand beTe bhii, abbaa miyaaN bhii
ye biiwii bhii hai aur bahan bhii hai, maaN bhii
Sanaa Khwaan-e-taqdiis-e-mashriq kahaaN hain
madad chaahatii hai ye hawwaa kii beTii
yashodaa kii ham jins raadhaa kii beTii
payambar kii ummat zulaiKhaa kii beTii
Sanaa Khwaan-e-taqdiis-e-mashriq kahaaN hain
zaraa mulk ke raah baron ko bulaao
ye kuuche ye galiyaaN ye manzar dikhaao
sanaa Khwaan-e-taqdiis-e-mashriq ko laao
Sanaa Khwaan-e-taqdiis-e-mashriq kahaaN hain
ناراض نہ ہونا!
حوا کی بیٹی کو چکلے کی راہ کس نے دکھائی؟
کسی مولوی نے یا حقوق نسواں کے علمبرداروں نے؟
حوا کو میخانے کی راہ کس نے دکھائی؟
حوا کی بیٹی کو اشتھار کس نے بنا دیا؟
کیا یہ برابری ہے؟
{خلیل اللہ ترک کی “لالٹین” کے لئے لکھی گئی خصوصی تحریر}
درست فرمایا جناب۔ اسلام نے جو حقوق دیے یا ان کی تعمیل یا شرعی حیثیت سے قطع نظر میں صرف یہی کہوں گی کہ ہماری سماجی بنیادوں میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ کیوں ایک عورت صرف اپنا نام ہی استعمال نہیں کر سکتی اس کے لیے باپ یا شوہر کے نام کی شق ہر جگہ موجود ہے۔ کیوں کسی بھی فارم پر ماں کا نام یا مرد کے فارم پہ بیوی کا نام کیوں نہیں پوچھا جاتا؟ عورت کی پہچان کا زریعہ مرد کو ہی کیوں رکھا گیا ہے؟ شناختی کارڈ پر عورت کے لیے شوہر کا یا باپ کا نام پوچھا جاتا ہے لیکن مرد کے لیے بیوی یا ماں کا نام کہیں نہیں۔ ہمارا سماج ہر جگہ عورت کو محکوم دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام کے احکامات کی تعمیل محض عورت کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، بے نمازی مکمل دنیا دار شخص اور وجہ تفاخر نوکری یا تعلیم بس لیکن اچھی عورت کے لیے نمازی پرہیزگار صوم و صلوۃ کی پابند، بردبار، برداشت والی شرم و حیا یہ صفات مقدم کیوں۔ بطور شوہر، باپ بھائی دین سے دور کا واسطہ نہیں لیکن اپنی عورات کے لیے سات پردوں میں چھپایا جانا عین دینی فرض۔ مرد اپنی حکومت کی فطری خواہش کی تعمیل اسلام کے نام پر کبھی خاندانی نظام کبھی سماج کے نام پر عورت کو دبا کر اور اس کی راہیں روک کر پورا کرتا ہے۔
بلکل حق اور سچ لکها آپ نے ، عورت پر مرد کی حکمرانی ایک باطل نظریہ ہے ، اسلام نے عورت کو مرد کے برابر بنایا ہے اور خدا نے عورت کو آزاد پیدا کیا اور آزاد رہنا اسکا حق ہے!
محترمه ملیحه سرور کا آرٹیکل”مرد کے برابر کهڑی عورت”پڑها.مجهے حیرانگی هو رهی هے که کهاں اسلام اور کهاں محترمه کے خیالات.اچها هوتا که وه صرف عورت ذات کی هی وکالت کرتیں اسلام کو بیچ میں نه لاتیں.
اس بات سے تو کوئی اختلاف نهیں که عورت اتنی هی محترم هے جتنا که مرد.مگرمعاشره میں عورت اور مرد کا مقام ایک جیسا هو هی نهیں سکتا.مرد اور عورت اپنی قدرتی ساخت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف هیں اور اسی قدرتی ساخت کی وجه سے ان دونوں کی ذمه داریاں تقریباََ دنیا کے هر خطه میں مختلف هیں.
رهی بات همارے اسلامی معاشره کی.تو اسلام نے همیں ایک ضابطهِ حیات دیا هے جو مختلف قوانین اور حقوق وفرائض پر مبنی هے.اگرمحترمه ملیحه سرور کے پاس کوئی قرآنی دلیل هے یا کوئی حدیثِ نبوی صلی الله علیه وسلم هے تو اسے اپنے دعوی کی مضبوطی کے لیے پیش کرنا چاهیے.ان کے اپنے خیالات اور جذبات کافی نهیں هیں.اور دنیا کا کوئی بهی نظام کسی انفرادی شخص ک ی خواهش پر اپنا قانون نهیں بدلتا.کیونکه اگر ایسا هونے لگے تو مجرم شخص اپنے جرم کو جرم نهیں کهنے دے گا اور ذرا تصور کریں ایس صورت میں اس معاشره کی کیا صورت هو گی.تو لهذا ملیحه سرور کو قرآن پاک کی کوئی آیت یا کوئی حدیث بطورِ دلیل پیش کرنا هو گی.
هاں یه الگ بات هے که اگر کسی کو اسلام پسند نهیں تو وه اپنی مرضی کا مذهب اختیار کر سکتا هے اسلام میں کوئی جبر نهیں اور کسی غیر کو اسلام کے قوانیں بدلنے کا کوئی حق حاصل نهیں.محترمه اگر مادر پدر معاشره اختیار کرنا چاهتی هیں تو دنیا میں ایسے بے شمار معاشرے موجود هیں وه بآسانی وهاں منتقل هو سکتیں هیں وه قوتیں جو انهیں ایسے اسلام مخالف رجحانات پاکستان میں پهیلانے کے لیے فنڈنگ کرتی هیں وه انهیں بآسانی انکی منتقلی میں معاونت کریں گی.
بہت بہترین اور علامتی تصویر جو اس آرٹیکل کے ساتھ منسلک کی گئی ہے۔ اس تصویر اور تصویر کے تصور کے خالق داد کے مستحق ہیں۔