مبارک ہو!” ۔۔۔ 12سالہ بالکا سائیکل چلاتا ساتھ گزرنے والوں کو مبارکباد دیتا رِمکے رِمکے آگے بڑھا۔ "بھئی کس بات کی مبارک؟” ۔۔معلوم ہوا کہ جیو بند ہو گیا ہے۔ دریافت کیا کہ اس میں مبارکباد کیسی تو جواب ملا، "انڈیا کے ایجنٹ ہیں یہ جیو والے۔ اچھا ہوا بند ہو گیا” ۔۔سوال کیا، "تمہیں کیسے پتہ کہ وہ انڈیا کے ایجنٹ ہیں؟”۔۔۔برجستہ کہتا ہے، "مجھے سب پتہ ہے ۔” ۔۔۔ اور سائیکل کی گھنٹی بجاتا، مبارکباد دیتا آگے نکل گیا۔
اس سے قطع نظر کہ پیمرا اراکین کے جس اجلاس نے جیو کے لائسنس منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اسے پیمرا نے ہی ایک پریس ریلیز کے ذریعے رد کردیا ۔ جیو کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اوریہ پہلے کی طرح نہ سہی مگر اب بھی کیبل پردیکھا جا سکتا ہے۔
سمجھ نہیں آتی کہ سب کو ایک دم کیسے ادراک ہوا کہ 2002ءمیں آغاز سے اب تک پاکستان کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل اچانک نفر ت و حقارت کا نشانہ کیسے بنا؟
ذہن میں کچھ سوال ابھرتے ہیں تو سر چکرا جاتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ سب کو ایک دم کیسے ادراک ہوا کہ 2002ءمیں آغاز سے اب تک پاکستان کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل اچانک نفر ت و حقارت کا نشانہ کیسے بنا؟ آج ہی سب کو یہ احساس کیسے ہوا کہ جیو غدار، ملک دشمن اور توہین مذہب کا مرتکب ہے؟ روزنامہ جنگ میں کئی سالوں تک لکھنے والے کالم نویسوںمثلا َ عبدالقادر حسن، ہارون الرشید، مجیب الرحمان شامی، جاوید چودھری، معید پیرزادہ صاحب جو اب مختلف اخبارات ، اشاعتی و نشریاتی اداروں میں ملازم ہیں کو چند ہفتے قبل ہی یہ بھنک کیسے پڑی کہ جنگ گروپ اور جیو پاکستان، فوج اور اسلام دشمن ہیں؟ کیا ان کی تجزیاتی حس جنگ گروپ کے گرداب میں کہیں کھو چکی تھی اور اب دیگر اداروںمیں اچھے مشاہروں کے بعد کھوئی ہوئی میراث لوٹ آئی ہے ؟ایک دہائی کے بعد ہی سب پر یہ راز کیسے فاش ہوا کہ جیو امریکہ ا ور انڈیا سے فنڈز لیتا ہے؟کیبل آپریٹرز کی حب الوطنی اور حُبِ مذہب 12سال بعد ہی کیوں جاگی؟ ہمارے ملک کے ایک طاقتورادارے کواپنی حمایتی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے ذریعے عوام تک بالواسطہ یہ پیغام کیوں دینا پڑ رہا ہے کہ جیو کا جو یار ہے غدار ہے، غدار ہے؟کیا ‘اُنہیں’ عوام پر اعتماد نہیں کہ وہ افواج پاکستان کی حمایت میں رضاکارانہ طور پر جیو دیکھنا بند کر دیں گے یا پھر وہ یہ کام بھی خود ہی کریں گے؟ اور اگر امریکی و بھارتی ایجنٹ سر عام پاکستان میں اپنے ایجنڈہ کو فروغ دے رہے ہیں تو ان اداروں کو بھنک کیوں نہ پڑی جو ہمارے ٹیکسوں سے ہماری سرحدوں کی نگہبانی کےلئے 24گھنٹے سر گرم رہتے ہیں؟ یہ کس کی نا اہلی ہے؟
کچھ حقائق پیش خدمت ہیں:
1) پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل جیو ہے۔
2) پاکستان میں آج بھی سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار روزنامہ جنگ ہے۔
3) پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا مذہبی پروگرام جیو پر عامر لیاقت حسین کا ہے۔
4) پاکستان میں گزشتہ رمضان کے دوران ریکارڈ ریٹنگ جیو کے مذہبی پروگرام کو ہی ملی جس کے میزبان عامر لیاقت حسین تھے۔
ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ہم اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ لوگ جیو اور جنگ سے نفرت نہیں کرتے؟ یا پھر یہ جانتے ہوئے بھی کہ جیو غدار اور ملک دشمن ہے لوگ حالات سے آگاہی کےلئے اسی ادارے کی نشریات دیکھنے اور اشاعت پڑھنے پر مجبور ہیں؟یکدم جیو اور جنگ کیخلاف اس قدر نفر ت اور خاص افراداور اداروں سے اتنی محبت کیسے جا گ گئی؟
ممکن ہے کہ ٹی وی اور اخبار بین عوام کی اکثریت جیو اور جنگ کو نا پسند کرتی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اکثریت جیو کی نشریات بند ہونے کے حق میں ہو۔ مان لیجئے کہ یہ درست ہے تو پھر ان حقائق کا کیا کیا جائے جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور پر کردیتے ہیں کہ اس قدر نفرت کے باوجودیہ ادارہ پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک کروڑوں نہیں تو لاکھوں ‘شاتم’اور ‘غدار ‘ پاکستانی تسلسل سے جیو دیکھ رہے ہیں۔اب ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟
یہ جانتے ہوئے بھی کہ جیو غدار اور ملک دشمن ہے لوگ حالات سے آگاہی کےلئے اسی ادارے کی نشریات دیکھنے اور اشاعت پڑھنے پر مجبور ہیں؟
حب الوطنی کی تعریف کیا ہے؟ مذہب سے محبت کسے کہتے ہیں؟ توہین کو کیسے بیان کیا جا سکتا ہے؟کیا ہم اپنے ملک ، قوم اور مذہب سے صرف اسی صورت میں محبت کے قابل ہیں جب ہم کسی اورملک، قوم اور مذہب سے نفرت کریں؟ کیا اس ملک کے ایک مخصوص ادارے سے والہانہ عقیدت ہی ہماری حب الوطنی کی ضمانت ہے؟ کیا اس کی کارکردگی پر سوال اٹھانا ہمیں غیر ملکی ایجنٹ اور توہین مذہب کا مرتکب بنا دیتا ہے؟
لعنت بھیجیں تمام چینلز پر۔۔۔ان عریاں خبروں پرجنہوں نے حقائق کا لبادہ اوڑھ کر عوام کوبا شعور نہیں گمراہ کیا۔ ان کی معصومیت ، عقل، اعتماد اور منطق سے کھلواڑ کیا۔سوال ریاست کی بدنامی کا نہیں، اصل مسئلہ ریاست کے آبادکاروں کی ہتک کا ہے۔ ان چینلز نے ذاتی مفادات کےلئے عوام کو الو بنایا۔ انہیں وہ سب بیچا جو کسی اخلاقی یا پیشہ ورانہ سطح پر قابل قبول نہ تھا۔ لیکن کسی نے زبان نہیں کھولی۔ ہاں جب یہ غلاظت اشرافیہ کے دالان تک پہنچی تو شور برپا ہو گیا۔ ایجنٹ، غدار اور ملحد کی صدائیں گونجنے لگیں۔ گویا دو ہاتھیوں کی لڑائی ہوئی اور ان کی چنگھاڑ کو جنتا کا نعرہ بنا دیا گیا۔ یہ دو ہاتھیوں کی لڑائی تھی اور ہے جس میں نقصان صرف چیونٹیوں کا ہو گا۔ البتہ یہاں چیونٹیوں کی تعداد 20کروڑ ہے اور انہوں نے بھی اس خوش فہمی میں کہ کوئی ایک تو ہمارا ہے ، اپنا اپنا حلیف ہاتھی چن لیا ہے ۔وہ نابلد ہیں کہ مست ہاتھی سب کو روند دیتا ہے۔ وہ کسی کا سگا نہیں ہوتا۔
خیر، یہ تمام بحث ایک طرف اور وہ 12سالہ بالکا ایک طرف کہ جس کے معصوم ذہن کو اس نفرت سے بھرا گیا ہے جس کا وہ متحمل و مستحق نہیں۔اس نفرت کی آبیاری کرنے والے وہی با اختیار ہیں جو پاکستانیوں کو حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفیکیٹس دیتے ہیں۔ انہوں نے ہی پاکستان میں نفرت کی وہ فصل بوئی ہے جو 12سالہ بالکے کو نفرت کے سوا کچھ نہیں سکھاتی۔ جو اسے شعور و منطق کے آنگن میں کبھی انگڑائی نہیں لینے دیتی۔ جو اس 12سالہ بالکے کو کبھی جوان نہیں ہو نے دے گی۔ یہ بالکا 1947ءسے آج تک کبھی جوان نہیں ہوا۔ کبھی باشعور نہیں ہوا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو آپ غلط ہیں۔ وہ یونہی جیتا اور نفر ت کرتا رہے گا۔ آپ سے ، مجھ سے، ہم سب سے۔۔۔۔مردہ باد جیو!

Leave a Reply