قبر کی سیاہ تاریکی نے
دن کی روشنی کو قتل کر دیا
چوہے بلوں سے نکل کر
دستاویز
کے ساتھ وہ قلم بھی
کتر گئے
جن سے کبھی سچائی
سنہرے لفظ لکھتی تھی
انصاف کی دیوی نے
مفاد کی چربی اندھی آنکھوں پر باندھی
تو مردہ انگلیوں نے وکٹری کا نشان بنایا
انسانیت کی مسخ لاش سے
خوں ٹپکنے لگا
ماں اور بہنیں چیختی رہیں
قصاص !!!
جواں لہو کا
مگر باپ نے
عصمتوں کی دھجیوں کی سلائی
کی خاطر
اسٹامپ پیپر ماتھے پر سجا لیا
جس پر سونے کی تاروں سے
صلح لکھا تھا
آنکھوں سے اب پانی نہیں
زر انگار سکوں کی تھیلیاں ہر سمت میں
برستی ہیں
دلوں سے کوئی دعا اوپر نہیں اٹھتی
مایوسی کی کثیف دلدل کی
لجلجی بانہوں میں لپٹی پڑی ہے
گلی کے بوڑھے برگد نے سورج کو فریاد بھیجی
ہچکیاں لیتے منتظر ہیں
شائد کبھی اسے جلال آئے
اور
گھور اندھیرے کو جلاوطن کر دے