مردود
تُو کیوں سوچتا ہے؟
تجھے کیا مرَض ہے؟؟
زمیں کے حروفِ تہجّی مٹیں یا رہیں
تو نے ٹھیکہ لیا ہے؟
بھلا تجھ کو کیا ہے؟؟
خدا جانے اور اُس کی مخلوق جانے
تجہے کس خبر کی نظر لگ گئی ہے؟؟
جو تُو رات بھر اپنے باطن میں ققنس سا جلتا ہے
اور صبح دم
نظم سے چُور ہوتی نگاِہیں لئے
پھر یہی سوچتا ہے
خدایا !!
زمیں سبز ہو
ساحلوں پر پرندوں کی بہتات ہو
حمد کرتی زبانیں سلامت رہیں
بیریوں برگدوں کی فضیلت رہے
گیت جاری رہیں
پانیوں پر کسی کا اجارہ نہ ہو
خواب مارے نہ جائیں
اگر رِحمِ مادر میں کوئی شگوفہ کِھلے
تو شگوفے کو کِھلنے کی پوری اجازت ملے
ابنِ آدم کو اب بنتِ حوّا سمجھنے کی توفیق ہو
بنتِ حوّا پہ بھی اُس کا معنی کھلے
تو یہ کیا سوچتا ہے؟؟
تجہے کیا مَرَض ہے؟
سیارے پہ نیلی تہجّد ادا کرنے والے
ذرا اپنی نظموں سے کاڑہے ہوئے اس مصلّے سے اُٹھ !
اپنے اطراف پھیلے ھوئے دوستوں کی صدائیں تو سُن !!
گالیوں تہمتوں سے بھری یہ ندائیں تو سن
“یار” ناراض ہیں
جن کی دانست میں
تُو مسلسل خرابی کی حالت میں ہے
تیری نظموں کی بِیڑی سے اُٹھتا، حقیقت کا کڑوا دھواں
ان کی آرام دہ شاعرانہ طبیعت کو بھاتا نہیں
شاہ و شہزادگاں کی خوشامد کی رسّی کو پکڑے ہوئے اہلِ فن کےتئیں
شاعری بھی کوئی کارِ سرکار ہے
جس کے اندر عوامی دکھوں کا کوئی دخل جائز نہیں !
اِن کے نزدیک
تُو ایک پاگل ہے جس کو تمیزِ سخن تک نہیں
اے “سرابوں کی سوداگری” کے سخی !
اپنی نظموں کے یہ “کھوٹے سکّے” اُٹھا
اپنے جیسوں میں جا
اور یہاں سے نکل !!
تجھے کیا مرَض ہے؟؟
زمیں کے حروفِ تہجّی مٹیں یا رہیں
تو نے ٹھیکہ لیا ہے؟
بھلا تجھ کو کیا ہے؟؟
خدا جانے اور اُس کی مخلوق جانے
تجہے کس خبر کی نظر لگ گئی ہے؟؟
جو تُو رات بھر اپنے باطن میں ققنس سا جلتا ہے
اور صبح دم
نظم سے چُور ہوتی نگاِہیں لئے
پھر یہی سوچتا ہے
خدایا !!
زمیں سبز ہو
ساحلوں پر پرندوں کی بہتات ہو
حمد کرتی زبانیں سلامت رہیں
بیریوں برگدوں کی فضیلت رہے
گیت جاری رہیں
پانیوں پر کسی کا اجارہ نہ ہو
خواب مارے نہ جائیں
اگر رِحمِ مادر میں کوئی شگوفہ کِھلے
تو شگوفے کو کِھلنے کی پوری اجازت ملے
ابنِ آدم کو اب بنتِ حوّا سمجھنے کی توفیق ہو
بنتِ حوّا پہ بھی اُس کا معنی کھلے
تو یہ کیا سوچتا ہے؟؟
تجہے کیا مَرَض ہے؟
سیارے پہ نیلی تہجّد ادا کرنے والے
ذرا اپنی نظموں سے کاڑہے ہوئے اس مصلّے سے اُٹھ !
اپنے اطراف پھیلے ھوئے دوستوں کی صدائیں تو سُن !!
گالیوں تہمتوں سے بھری یہ ندائیں تو سن
“یار” ناراض ہیں
جن کی دانست میں
تُو مسلسل خرابی کی حالت میں ہے
تیری نظموں کی بِیڑی سے اُٹھتا، حقیقت کا کڑوا دھواں
ان کی آرام دہ شاعرانہ طبیعت کو بھاتا نہیں
شاہ و شہزادگاں کی خوشامد کی رسّی کو پکڑے ہوئے اہلِ فن کےتئیں
شاعری بھی کوئی کارِ سرکار ہے
جس کے اندر عوامی دکھوں کا کوئی دخل جائز نہیں !
اِن کے نزدیک
تُو ایک پاگل ہے جس کو تمیزِ سخن تک نہیں
اے “سرابوں کی سوداگری” کے سخی !
اپنی نظموں کے یہ “کھوٹے سکّے” اُٹھا
اپنے جیسوں میں جا
اور یہاں سے نکل !!