مردوں کے سماجی، سیاسی اور معاشی اختیارات میں اضافے سے عورتوں سمیت ہر کمزور طبقے کی آزادی، مقام اور حقوق محدود ہوئے ہیں۔
تاریخ میں مرد اپنی جسمانی ہئیت اور (روایتی ذہن کے مطابق) جنگجو خصلت کی بنا پر طاقت کا محور اور حکمرانی کا خدائی حقدار خیال کیا جاتا رہا ہے لیکن عہدِقدیم میں ایک دور ایسا بھی تھا جب خاندانی نظام میں مرد کے مقابلے میں عورت کو مرکزی اہمیت حاصل تھی جسے مادرسری نظام کا دور کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں وراثت کا سلسلہ ماں سے منسوب ہوتا تھا او رخاندانی زندگی میں عورت کو مرکزی اہمیت کی حامل تھی۔ لیکن ذرائع پیداوار میں تبدیلی نے سماجی نظام میں بتدریج مرد کی حیثیت عورت سے ‘برتر’ تسلیم کر لی، قرونِ وسطیٰ سے دورِحاضر تک تقریباً ہر معاشرے میں پدرسری سماجی نظام قائم رہا۔ مردوں کے سماجی، سیاسی اور معاشی اختیارات میں اضافے سے عورتوں سمیت ہر کمزور طبقے کی آزادی، مقام اور حقوق محدود ہوئے ہیں۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقاء کے بعد انسانوں کی اہمیت ان کی جسمانی ہئیت، جنسی اختلاف یا طاقت کی بنیاد پر نہیں بلکہ انہیں بلاامتیاز مساوی حیثیت کا حامل خیال کرنا شروع کیا۔ تاہم سرمایہ دارانہ نظام سے جڑی اقدار بھی مکمل طور پر انسانی تفریق اور امتیازی سلوک کے خاتمے میں کامیاب نہیں ہو سکیں، اس کے لیے ایک طویل مسافت ابھی باقی ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں ایک جانب ملک کا بہت بڑا حصہ فرسودہ قبائلی رسم و رواج کا پابند ہے اور دوسری جانب جاگیردارانہ نظام اور زرعی معاشرت بھی اپنی تمام تر تضادات کے ساتھ اپناوجود برقرار رکھے ہوئے ہے وہاں انسانی مساوات اور امتیازی سلوک کے خاتمے کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ اس قدامت پسند ماحول میں سرمایہ داری کی جڑیں ابھی پھوٹ رہی ہیں اور جدید انسانی تہذیب کی ہر شکل کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ گو تبدیلی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے اور تبدیلی کے سیلاب کو روکنے کی ناکام کوششیں بھی ہر دور میں ہوتی رہی ہیں لیکن ان حالات میں اگر کہیں سے تبدیلی کا ہلکاسا جھونکا بھی محسوس ہو تو قبائلی وجاگیردارانہ نظام کی بندشوں میں کسے ہوئے سماج میں ان کی مخالفت میں پرزور آوازیں اٹھتی ہیں۔ پاکستانی معاشرہ چونکہ رجعت پسند قبائلی، جاگیردارانہ اور مذہبی نظاموں کی کھچڑی ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں اب بھی مذہب کی چادر تلے قبائلی وجاگیردارانہ رسوم ورواج کو تقدس کالبادہ پہنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ خواتین کا استحصال معمول کی بات ہے، بچوں پر تشدد عام ہے اور اقلیتوں کو بھی دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران البتہ پاکستانی ریاست کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ اسی تبدیلی کا ایک مظہر خواتین کے تحفظ کے لیے کی جانے والی قانون سازی ہے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران البتہ پاکستانی ریاست کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ اسی تبدیلی کا ایک مظہر خواتین کے تحفظ کے لیے کی جانے والی قانون سازی ہے۔ خواتین پر ہونے والے گھریلو تشدد کو روکنے کے لئے گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی نے’تحفظ نسواں‘ کے قانون کی منظوری دی تو مذہبی طبقات اور قدامت پسند حلقوں نے مذہب کی آڑ میں اس قانون کی مخالفت شروع کر دی۔ پاکستانی تاریخ میں اس قسم کے قوانین کی مخالفت نئی نہیں۔ نامور مورخ محترم ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب ’المیہ تاریخ‘ میں لکھتے ہیں ’جاگیردارانہ سماج میں عورت کی حیثیت ہمیشہ ملکیت کی ہوتی ہے جہاں اس کی آزادی، حقوق اور رائے مرد کی مرضی پر منحصر ہوتی ہے۔ اس معاشرے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسی اقدار کو فروع دیا جائے جن کے ذریعے عورتوں کو مرد کا تابع اور فرمانبردار رکھا جائے اور اس کی آزادی کے تمام راستے مسدود کر دئیے جائیں‘(ص67)۔
علماء کا ایک مخصوص طبقہ اپنے روایتی رجعت پسندانہ خیالات کی آڑ میں نہ صر ف اس قانون کی مخالفت کر رہا ہے بلکہ اسے اسلام اور آئینِ پاکستان سے متصادم اور بنیادی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی سے تعبیر کر رہا ہے۔ افسوس اس بات کی ہے کہ جو علماء آج تحفظ نسوان کے قانون کی مخالفت کر رہے ہیں وہی کل تک طالبان کی حمایت کر رہے تھے۔ اُس وقت ان حضرات کو بے گناہوں پاکستانیوں کا قتلِ عام نظر نہیں آ رہا تھا اور آج خواتین پر ہونے والا تشدد۔ علماء تحفظ نسوان کے قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے عورت کو حقیر اور مرد سے کم تر مخلوق قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ علماء کے اس گروہ کی نمائندگی مفتی نعیم کر رہے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل بھی اس کاروان کے سالاروں میں نظر آتی ہے۔ بدقسمتی سے تبصروں اور تجزیوں کے نام پر الیکٹرانک میڈیا میں انہی مخصوص افراد کو سامنے لایا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میڈیا محض سنسنی کی خاطر اس معاملے کو متنازع بنا کر پیش کر رہا ہے۔
مفتی نعیم کے علاوہ مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق وغیرہ بھی تسلسل کے ساتھ ایک ہی نقطہ نظر کی تکرار کر رہے ہیں کہ موجودہ قانونی مسودہ اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے ۔عورت جذباتی، کمزور اور بے وقوف جنس ہے جسے اگر آزادی ملی تو نہ صرف مردوں کا جینا دوبھر ہوگا بلکہ اس سے خاندانی نظام بھی تہس نہس ہوسکتا ہے”۔ شیعہ عالم علامہ شہیدی بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس بل کو پنجاب اسمبلی سے پاس کروانے سے قبل اگر اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے لا کر اس کی اصلاح کروائی جاتی تو اس قسم کے ہنگاموں کے امکانات کم ہوتے۔ بندہ پوچھے کہ بھیا! پاکستان کے آئین میں صرف تین اداروں یعنی مقننہ (صوبائی اسمبلیاں اور پارلیمنٹ)، عدلیہ اور انتظامیہ کی گنجائش موجود ہے ۔ مقننہ کی ذمہ داری قانون سازی ہے، عدلیہ کسی قانونی پیچیدگی کی تشریح کی مجاز ہے اور انتظامیہ کا کام آئین وقانون کو نافذ کرنا ہے پھر اسلامی نظریاتی کونسل کو پاسلیمان اور عدلیہ سے مقدم جاننے کا جواز کیا ہے؟
مفتی نعیم کے علاوہ مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق وغیرہ بھی تسلسل کے ساتھ ایک ہی نقطہ نظر کی تکرار کر رہے ہیں کہ موجودہ قانونی مسودہ اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے ۔عورت جذباتی، کمزور اور بے وقوف جنس ہے جسے اگر آزادی ملی تو نہ صرف مردوں کا جینا دوبھر ہوگا بلکہ اس سے خاندانی نظام بھی تہس نہس ہوسکتا ہے”۔ شیعہ عالم علامہ شہیدی بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس بل کو پنجاب اسمبلی سے پاس کروانے سے قبل اگر اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے لا کر اس کی اصلاح کروائی جاتی تو اس قسم کے ہنگاموں کے امکانات کم ہوتے۔ بندہ پوچھے کہ بھیا! پاکستان کے آئین میں صرف تین اداروں یعنی مقننہ (صوبائی اسمبلیاں اور پارلیمنٹ)، عدلیہ اور انتظامیہ کی گنجائش موجود ہے ۔ مقننہ کی ذمہ داری قانون سازی ہے، عدلیہ کسی قانونی پیچیدگی کی تشریح کی مجاز ہے اور انتظامیہ کا کام آئین وقانون کو نافذ کرنا ہے پھر اسلامی نظریاتی کونسل کو پاسلیمان اور عدلیہ سے مقدم جاننے کا جواز کیا ہے؟
علماء کا ایک مخصوص طبقہ اپنے روایتی رجعت پسندانہ خیالات کی آڑ میں نہ صر ف اس قانون کی مخالفت کر رہا ہے بلکہ اسے اسلام اور آئینِ پاکستان سے متصادم اور بنیادی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی سے تعبیر کر رہا ہے۔
ان سارے مظاہر پر بات کرنے سے قبل ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا تحفظ نسوان کے قانون کی وجہ سے خاندانی نظام تباہ ہوسکتا ہے؟ جبکہ اس قانون میں یہ گنجائش موجود ہے کہ کسی بھی کمزور پر ظلم و تشدد ہو جائے بالخصوص گھریلو تشدد تو متاثرہ فرد (مرد یاعورت) قانون کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ تشددکرنے والا مرد خواہ کسی بھی خاندانی حیثیت میں ہو اگر کوئی عورت اپنے شوہر، باپ، بھائی یا بیٹے کے خلاف شکایت درج کرائے گی تو اس سے مرد کو ملنے والی سزا کے باعث خانگی اور ازدواجی زندگی میں مزید رہنا ممکن نہیں ہو گا اور یوں خاندانی نظام برباد ہوسکتا ہے۔ ان لوگوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ خاندانی نظام کا مطالعہ فرقہ وارانہ انداز یا الماوردی، المودودی یا امام خمینی کی تصنیفات کی بجائے علم عمرانیات کے اصولو ں کو مدنظر رکھتے ہوئے کریں ۔ خاندانی رشتوں کو طاقتور اور کم زور، حاکم اور محکوم، نگران اور رعیت کے تعلق پر قائم رکھنا کسی طرح درست نہیں قرار دیا جا سکتا۔ خاندانی رشتوں کی بنیاد باہمی اخوت اور محبت ہونی چاہیئے اگر ان کی جگہ تشدد،ظلم اور بربریت لے لیں تو ایسے میں رشتوں اور خاندانی نظام کو برقرار رکھنے کی بجائے انسانوں کو ایسے جابرانہ بندھنوں سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنے خاندانی نظام کو ڈر اور خوف کی بجائے خوشی اور محبت کے جذبوں پر استوار کئے ہوتے توپھر عورت اور مرد کو جتنی بھی آزادی دی جائے خاندانی نظام ٹوٹنے کی بجائے مزید مستحکم ہوسکتے ہیں۔
اگر علماء کی اس دلیل کو ماضی میں درست مانا جاتا رہا ہے کہ عورت جذباتی، کمزور اور بے وقوف ہوتی ہے، تو بھی جدید سماجی تصورات اس دلیل کو درست تسلیم نہیں کرتے۔ کیونکہ بحیثیت انسان مرد اور عورت دونوں جذباتی ہوتے ہیں اور دونوں ہی مختلف حالات میں کمزور ہو سکتے ہیں۔ فرق اس سماجی پس منظر کا ہے جس میں مرد اور عورت کو مختلف سماجی کرداروں میں ڈھالا جاتا ہے۔ روایتی صنفی کرداروں میں موجود تفاوت اس تاریخی معاشرتی ارتقاء کی بھی پیداوار ہے جو قبائلی اور زرعی دور میں مردوں کی مرکزی حیثیت کے باعث عورتوں کی کم تر حیثیت کا وکیل ہے۔ لیکن جدید معاشرے میں انسانوں کا کردار جسمانی ہئیت پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ آج کا معاشرہ انسانی مساوات کی بنیاد پر استوار ہے۔ خواتین اور مرد کے مابین موجود جسمانی فرق کی بنیاد پر مردانہ برتری کا جواز بھی ناقابل قبول ہے۔ طبی علوم کی ترقی کے باعث یہ دلیل اپنا وزن کھو چکی ہے۔ عورت اپنی روایتی حیثیت میں بھی بے پناہ جسمانی مشقت کر رہی ہے جسے کسی بھی طرح مردانہ مشقت سے کم تر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نو ماہ تک بچے کو اپنے پیٹ میں پالنا اور اس دوران گھر والوں بالخصوص شوہر کے ناز نخرے برداشت کرنا کسی مرد کے بس کا روگ نہیں۔ زچگی کے دوران خواتین کی اموات کے امکانات بے حد زیادہ ہوتے ہیں۔ حمل کے دوران اور زچگی کے بعد بھی اسے بچے کی نگہداشت کے دوران اپنے جسم سے خوراک تیار کرکے بچے کو پالتی ہے، کیا یہ سب کسی کمزور یانحیف انسان کے بس کی بات ہے؟
روایتی صنفی کرداروں میں موجود تفاوت اس تاریخی معاشرتی ارتقاء کی بھی پیداوار ہے جو قبائلی اور زرعی دور میں مردوں کی مرکزی حیثیت کے باعث عورتوں کی کم تر حیثیت کا وکیل ہے۔
رجعت پسند ذہن عورت کو صرف جنسی مباشرت کے حوالے سے دیکھنے کا عادی ہے اور اس تناظر میں عورت کو مفعول اور زیردست سمجھتے ہوئے کم تر خیال کرتا ہے۔ جو لوگ عورت کے جسمانی ساخت کا مذاق اڑاتے ہیں وہ دراصل اپنی کم علمی کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑتے ہیں۔ کیونکہ اگر مرد کا جسمانی ساخت عورت سے مختلف ہے تو اسی طرح عورت کی جسمانی ساخت اسے مرد سے ممتاز کرتی ہے ۔ عورت اور مرد کی جسمانی اختلافات کو کم تر یا برتر قرار دے کر اس کی بنیاد پر معاشرے کو تشکیل دینے کی بجائے ہمیں سمجھنا ہوگا کہ انسان کی بقاء ہی عورت اور مرد کے جسمانی اختلاف پر ہے۔ مرد اور عورت کی جنس قدرت کا فیصلہ ہے اور اس کی بنیاد پر کسی کو کسی پر برتر یا کم تر نہیں ثابت کیا جا سکتا۔ آج مرد کو عورت کا نگران یا حاکم قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ عورت مرد کے مساوی انسانی حیثیت کی حامل ہے اور مردکے ساتھ ہر تعلق میں اپنی رضامندی سے شریک ہونے یا الگ ہونے کا حق رکھتی ہے۔
خواتین پر گھریلو تشدد کے قانون پر علماء کے اعتراضات سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہمارا مذہبی ذہن انیسویں صدی سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ دوسو برس قبل مولانا اشرف علی تھانوی نے ’بہشتی زیور‘ لکھ کر عورت کو مرد کی اچھی خدمت گار بننے کی ترغیب دی تھی۔ آج مفتی نعیم، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چل کر معاشرے کو پتھر کے دور میں واپس دھکیلنا چاہتے ہیں۔
Leave a Reply