Laaltain

مذہب کے نام پر خونریزی

20 اگست، 2015
Picture of ناصر شبیر

ناصر شبیر

چند روز پہلے خبر نشر ہوئی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین رسالت کے مقدمے میں قید آسیہ بی بی کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے دی گئی سزائے موت پر عمل درآمد سے روک دیا ہے ۔آسیہ بی بی کے خلاف توہین رسالت کے مقدمے کی تفصیلات پڑھ کر تشویش ہوتی ہے کہ یہ کیسی متشدد سوچ اور فکر ہے جس کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت اور شان کے نام پر لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں غیر مسلموں کے لیے نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں ۔کیا ایک نبی کے پیروکاروں کی یہ شان ہوتی ہےکہ دین کے نام پرایک غریب اور بے بس عورت کو اس کے بچوں سے جدا کر دیا جائے؟ توہین مذہب کے نام پرہندؤوں کے مندرڈھائے جارہے ہیں،عیسائیوں کی صلیبیں گرائی جا رہی ہیں ،مقدس اوراق جلائے جا رہے ہیں، گھروں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے، املاک کو لوٹا جا رہاہے ۔ عقید ے کے بنیاد پر شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کوگاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہاہے ۔احمدیوں کی قبروں کے کتبوں پر لکھا کلمہ طیبہ قانون کے رکھوالے مٹا رہے ہیں۔کیا یہ لوگ واقعی عشق الہیٰ اور عشق نبی میں ڈوبے ہوئے ہیں؟
پاکستان میں توہین رسالت کا قانون ایک ایسا آسان ترین پھندہ ہے جسے کوئی بھی مفاد پرست اور تنگ نظر شخص کسی غیر مسلم کے گلے میں ڈال سکتا ہے
نبی ؐسے جھوٹی اور منافقانہ محبت کے نام پر خون بہایا جا رہا ہے ۔لوگوں کے عقیدے ، جذبات، ایمان اور یقین کو فتوؤں کے زہر آلود تیروں سے چھلنی کیا جارہاہے یہی وجہ ہے کہ ایمان، اخلاق اور شعور سے عاری یہ گروہ جب حیوانوں کا سا وحشی روپ دھارتا ہے تو پھر لازماًتباہی و بربادی آتی ہے ۔ ان لوگوں کی زبان اور ہاتھ سے کوئی محفوظ نہیں ہے۔ ان کاکوئی وعظ کوئی درس ایسا نہیں جس میں نفرت ،تشدد اور تعصب کے بچھو رینگتے دکھائی نہ دیتے ہوں۔دین فروشی اور فتوی ٰبازی کے اس مکروہ کھیل تماشے میں غیر مسلم انتہائی خوف اور دہشت کی زندگی گزار رہے ہیں۔اموال ، جانیں اور عزتیں لوٹ مار اورجلاؤ گھیراؤ کی نذر ہو رہی ہیں۔اشتعال انگیزی اور نفرت کے انگاروں میں توہین رسالت کے جھوٹے مقدمات دہک رہے ہیں۔کتنے ہی بے گناہ افراد اس قانون کی وجہ سے جیلوں میں اپنی زندگی کے کئی برس گزار چکےہیں۔ان مقدمات میں جو عدالتوں سے باعزت بری ہوگئے وہ معاشرے کے تعصب ، نفرت اور غصے کی نذر ہوکر اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
پیچ دار عمامے پر امت مسلمہ کے دکھ کی کلغی سجانے والے سر کٹے فوجیوں سے فٹبال کھیلنے والوں کی حمایت میں دلائل و براہین کا انبار لگائے بیٹھے ہیں۔پاکستان میں توہین رسالت کا قانون ایک ایسا آسان ترین پھندہ ہے جسے کوئی بھی مفاد پرست اور تنگ نظر شخص کسی غیر مسلم کے گلے میں ڈال سکتا ہے ۔ معصوم اور بے گناہوں کے خون کی چاٹ لگ چکی ہے ۔افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ جب توہین رسالت کے قوانین کے غلط استعما ل کی بات کی جاتی ہے تودین فروش شر پسند کہتے ہیں کہ چونکہ ملک میں انگریزوں کے تمام قوانین میں خرابی اور سقم ہے اور ان کا غلط استعمال ہو رہا ہے لہذااگر کوئی شخص توہین رسالت کے غلط الزام میں ہجوم یا کسی قاتل کا نشانہ بن جاتا ہے تو یہ بات بھی معمول کی قانونی غفلت سمجھنی چاہیے۔
آپ ﷺ نے منافقین کے سردارعبداللہ بن ابی سلول کی نماز جنازہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منع کرنے کے باوجود پڑھائی اور رحمت العالمین ہونے کاعملی ثبوت دے کر اسوہ حسنہ کی بنیاد رکھی
توہین رسالت کے مقدمات میں عوام کی جانب سےجس جاہلانہ اور ظالمانہ رد عمل دکھانے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اس کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام تنگ نظر، شدت پسند اور متعصب دین سمجھا جاتاہے ۔ مسلمانوں کے اسی طرزعمل کا نتیجہ متنازع کارٹون ، دل آزار خاکے اور قرآن پاک کو نذر آتش کرنے والے واقعات کی صورت میں نکلتا ہے ۔مذہب کے نام پر قتل و غارت ،لوٹ مار، جلاؤ، گھیراؤ ، مذہبی علامات کی توڑ پھوڑ اور بے حرمتی کرنے والے واقعات کے پس پردہ کوئی بھی قوتیں ہوں انگلی ہمیشہ امن پسند اسلام کی جانب اُٹھتی ہیں ۔ایسی حرکتیں نہ صرف اسلام اور پاکستان کی رسوائی کا سبب بنتی ہیں بلکہ بعض بد بختوں کو توہین قرآن مجید اور توہین انبیاء کرام پر اکساتی ہیں۔
مشرکین نے آنحضرت ؐ کی ہر طرح سے توہین کی۔طائف کی وادی میں پتھروں سے لہولہان کیا۔سجدے کی حالت میں آپ ؐ پر اونٹ کی غلیط اور بد بودار آلائش رکھی گئی ۔گلی سے گزرتے ہوئے آپ ؐ پر گندگی پھینکی گئی ۔کبھی گلے میں پٹہ ڈال کر انتہائی سختی سے کھینچا گیا۔کبھی کسی شقی القلب نے آپ ؐ کو زہر دے ڈالا۔سرعام آپ ؐ کی تکذیب و تکفیر کی گئی ۔آپ ؐ کا نام بگاڑا گیا ۔آپ ؐ کو سخت مفلسی اور بے بسی کی حالت میں شعب ابی طالب کی گھاٹی میں ساتھیوں سمیت محصور کر دیا گیا۔قتل کی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں کی گئیں۔ابو سفیان ، اس کی بیوی ہندہ اور حبشی غلام بھی فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت ؐ کی رحمت اور معافی کے مستحق ٹھہرے ۔ وہی ہندہ جس نے آپ ؐ کے محبوب چجا حضرت حمزہؓ کی شہادت کے بعد انتہائی نفرت اور انتقام کی خاطر ان کا کلیجہ چبایا تھا۔لیکن ان سب واقعات کے باوجود آپ ؐ نے مخالفین کے ساتھ عفو درگزر سے کام لیابلکہ آپ ؐ کو اللہ تعالی ٰ کی طرف سے ان لوگوں سے اعراض کرنے اور صبر کرنے کی تعلیم دی گئی ۔منافقین کے لیے بھی کسی سزا کا ذکر نہیں ۔ آپ ﷺ نے منافقین کے سردارعبداللہ بن ابی سلول کی نماز جنازہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منع کرنے کے باوجود پڑھائی اور رحمت العالمین ہونے کاعملی ثبوت دے کر اسوہ حسنہ کی بنیاد رکھی۔ احکامات الہیٰ کی بجاآوری میں سستی کرنے پر مومنین کے گھروں کو آگ لگا دینے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن عملاً ایسا کرنے کی بجائے صرف اور صرف دعا اور صبر کی طرف متوجہ رہے ۔
توہین رسالت اور توہین مذہب کے لیے موت کی سزا درست سمجھنے والے احباب اچھی طرح جانتے ہیں کہ رحمت للعالمین ؐ کا اسوہ ہرگز متشدد نہیں تھا اور اس حوالے سے مشہور تاریخی حوالے مستند نہیں ہیں مگر پھر بھی محض اپنے سیاسی عزائم کی خاطر ضعیف روایات کی تبلیغ فرماتے رہتےہیں
بعض محققین اور تاریخ دانوں کے مطابق آنحضرتﷺ نے شان میں گستاخی کرنے والوں کے قتل کا حکم دیااور صحابہ کرام نے بھی اسی فکر کو اپناتے ہوئے بعض گستاخوں کا سر تن سے جدا کیااور اس فعل پر آنحضرت ؐ نے بھی ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا۔سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص جو بد ترین مخالفین کی ایذا رسانی کے باوجود ان لوگوں سے اعراض ، عفو در گزر اور صبر سے کام لیتا رہا وہ جوش انتقام میں گستاخوں کے قتل کا حکم کیسے دے سکتا ہے۔ کیا یہ رویہ مذکورہ شخص کو رحمت للعالمینﷺ کے لقب سے سرفراز کرسکتا ہے ؟مزید یہ کہ کیا آنحضرت ؐکی حیات طیبہ میں ایسا متنازعہ اور متضاد رویہ ممکن ہے کہ آپ ؐ اپنی بیشتر زندگی میں بد ترین گستاخوں کے لیے رحم ، عفوودر گزر، صلہ رحمی کا مجسم وجود ہوں اور چند افراد سے اس کے بر خلاف سلوک فرمائیں۔ہر گز نہیں۔۔ہر گز نہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا بعض افراد سے سخت رویہ اپنانے کا سبب توہین رسالت نہیں بلکہ بعض ایسے ناقابل معافی قومی جرائم تھے جوقومی مفادات اور مسلمانوں کی مجموعی حیثیت کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے قابل تعزیر تھے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کا یہ فرمان آنحضرت ؐ کے رحمت للعالمین ہونے کی سچی گواہی دیتا ہے کہ ” آپﷺ نے کبھی اپنی ذات کی خاظر اپنے اوپر ہونے والی کسی زیادتی کا انتقام نہیں لیا۔ ”
توہین رسالت کے موضوع پر لکھے جانے والے مواد کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انصار عباسی اور اوریا مقبول جان جیسے نام نہاد محققین، ادیب، ناقدین، کالم نگار اور مفتیان اسلام کے سینوں میں علم و عرفان کے دریا موجزن ہیں۔آیتیں، حدیثیں اورواقعات نبویؐ زبانی یا د ہیں۔سب کچھ حفظ ہونے کے باوجود توہین رسالت کے ملزمان کو قتل کرنے کے لیے دوسروں کو اکساتے ہیں۔ توہین رسالت اور توہین مذہب کے لیے موت کی سزا درست سمجھنے والے احباب اچھی طرح جانتے ہیں کہ رحمت للعالمین ؐ کا اسوہ ہرگز متشدد نہیں تھا اور اس حوالے سے مشہور تاریخی حوالے مستند نہیں ہیں مگر پھر بھی محض اپنے سیاسی عزائم کی خاطر ضعیف روایات کی تبلیغ فرماتے رہتےہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ چونکہ توہین رسالت کے ملزم کو شدید ترین سزا دینی مقصود ہوتی ہے لہٰذ ا توہین رسالت کے سلسلے میں ملزم کے خلاف کاٹی گئی FIR میں ملزم سے منسوب کیے گئے الفاظ کے علاوہ آنحضرت ؐ، انبیاء کرام اور قرآن مجید کے بارے میں من گھڑت باتیں بھی شامل کر دی جاتی ہیں ۔ جج حضرات بھی عموماًتصدیق، بحث یا جرح کے بغیر ہی محض ایف آئی آرپڑھ کرہی ملزم کو موت کی سزا سنا دیتے ہیں۔ توہین رسالت کے مقدمات میں عشق رسول کے داعین کا طرزعمل سراسر اسوہ حسنہ کے خلاف ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *