موجودہ دور کےتمام ترقی یافتہ ممالک کا نظام سیکولر جمہوریت پہ قائم ہے ،ان ممالک میں مذہب کا ریاست اور اس کے انتظامی امور میں کوئی عمل دخل نہیں۔ جدید فلاحی ریاست نہ تو مسیح ہے نہ ہندو اور نہ یہودی بلکہ یہ سب عقیدوں کے ماننے والوں کیلئے ہے تاہم بد قسمتی سے مسلم اکثریتی معاشروں میں ریاست اور سیاست کو مذہبی بنیادوں پر چلانے اور متحد کرنے کا چلن ابھی بھی موجود ہے۔ جب ریاست کو عقیدے اور مذہب کی شناخت دی جاتی ہے تو وہ ہر شہری کویکساں اورمساوی شہریت کے اصول کے بجائےمخصوص عقیدے کی نظر سے دیکھنے لگتی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم ریاستوں خصوصاًپاکستان میں کوئی غیر مسلم کسی کلیدی عہدےپرمحض مذہبی تعصب کی بنا پر نہیں پہنچ پاتا۔مذہبی ریاستوں میں آئین اور قوانین بھی ویسے ہی بنتے ہیں جو مقتدرطبقات کے مکتبہ فکر یا عقیدے سے مطابقت رکھتے ہوں۔ ان حالات میں ہر شہری ریاستی پالیسی یا اکثریتی فرقہ سے مطابقت رکھنے والے طرزعمل کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے، لہٰذا معاشرے سے وہ تمام تنوع تحلیل ہونے لگتا ہے جو کسی بھی معاشرے کو فعال اور خوبصورت بناتا ہے ۔اس کے برعکس اگر ہم ان ریاستوں کہ جائزہ لیں جہاں ریاستی امور میں مذہب کوئی کردار نہیں تو ہمیں بے پناہ تنوع نظر آے گا جو معاشروں کی ترقی،تہذیب و تمدن اور برداشت میں بنیادی عنصر اورعامل ہے۔
ذرا تصور کیجئے کہ اگر ریاست ہائے متحدہ امریکا کا نام کرسچین ریپبلک آف امریکا یا بھارت کا نام ہندو ریپبلک آف انڈیا رکھ دیا جائے اور وہاں کا آئین اور قوانین بھی اتنے ہی مذہبی ہوں جتنے ہمارے یہاں ہیں تو وہاں بسنے والی اقلیتوں سے متعلق معاشرتی رویوں پہ کیا اثرات مرتب ہوں گے ان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔
ذرا تصور کیجئے کہ اگر ریاست ہائے متحدہ امریکا کا نام کرسچین ریپبلک آف امریکا یا بھارت کا نام ہندو ریپبلک آف انڈیا رکھ دیا جائے اور وہاں کا آئین اور قوانین بھی اتنے ہی مذہبی ہوں جتنے ہمارے یہاں ہیں تو وہاں بسنے والی اقلیتوں سے متعلق معاشرتی رویوں پہ کیا اثرات مرتب ہوں گے ان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ امریکا اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو کو اگر ہر سرکاری و انتظامی تقریب سے پہلے بائبل اور گیتا کے اقتباسات سننا پڑتے تو وہ کیا محسوس کرتے،ریاست سے انکی وفاداری کس حد تک برقرار رہتی اور اگر حضرت عیسیٰ علیہ سلام کو الله کا بیٹا نہ ماننے پر عیسائی اکثریت کے حامل ممالک توہین رسالت کا قانون نافذ کر دیں تو کیا وہاں بسنے والے مسلمان خود کو محفوظ تصور کر سکیں گے؟ لیکن ترقی یافتہ معاشروں کی خوبصورتی یہی ہے کے وہاں مذہب کو ریاستی امور سے الگ تھلگ رکھا گیا ہے ، گرجا ہو مسجد ہو یا مندر؛ ریاست کی نظر میں ایک جیسی تکریم کے مستحق ہیں، کسی مخصوص عقیدے کے حامل کو کسی دوسرے عقیدے پر عمل کرنے والے پر کوئی فوقیت نہیں۔
ریاستی امور میں اگر ایک مرتبہ مذہب کو داخل کر دیا جائے تو وو اپنا اثرو رسوخ پھیلاتا ہی چلا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب اکثریتی مذہب کے نفاذ کے بعد ریاستی جبر اور طاقت کے بل بوتے پر اکثریتی فرقہ کے غلبہ اور دیگر مسالک کی تکفیر کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ مذہب کا سیاسی استعمال مذہبی علماء کے طبقہ کو طاقتور کرتا ہے جو سیاست کے بعد معاشرت میں دخیل ہو جاتے ہیں ۔پاکستان میں آج عالم یہ ہے کہ پولیو مہم ہو،یوٹیوب کا استعمال یا حقوق نسواں؛ ہر معاملہ میں جدید علوم سے بے بہرہ مولوی حضرات قوم کی رہنمائی کر رہےہیں۔سوٹ بوٹ والے اینکر ہیپاٹائیٹس اور دیگر متعدی امراض کا علاج وظائف اوردم درود کے ذریعہ ٹی وی سکرینوں پر بتا رہے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر عورت کے کار چلانے کی خامیاں بتائی جا رہی ہیں اور مذہبی علماء خواتین کی نقل و حمل کی آزادی کو محدود کرنے کا درس مذہب کے نام پر دے رہے ہیں۔ یہ مسائل صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ وہ تمام ممالک جن کے ناموں کے ساتھ مذہب کا لاحقہ لگ چکا ہے وہاں معاشرے کی "تطہیر” کا کام ریاست کی سرپرستی میں جاری ہے۔ مثال کے طور پر ایران میں مولوی حضرات خواتین کی بے حیائی کو زلزلوں کی بنیادی وجہ بتا رہے ہیں، خوش ہو کر گانے یا ناچنے پر تعزیری سزائیں دی جارہی ہیں، سعودی عرب کے مولوی ابھی یہ نہیں طے کر سکے کہ عورت کن حالات میں گاڑی چلا سکتی ہے اور کیا محرم کے بغیر علاج معالجہ بھی کرا سکتی ہے یا نہیں۔
معاشرتی رویوں کا انحصار ریاستی سطح پراپنائے جانے والی اقدار پر ہے، اگر ریاست سب شہریوں کو ایک نظر سے دیکھے گی تو افراد بھی ایک دوسرے کے لیے عزت اور احترام کے جذبات رکھیں گے اور ریاست بھی مستحکم ہوگی ، لیکن اگرکسی ایک طبقہ کے مذہب یا عقیدہ کا ریاستی امور میں عمل دخل بڑھتا رہے تو ایک وقت آتا ہے کہ معاشرہ تکفیریت کی روش پر تمام اقلیتوں کو ریاست سے حاصل ہونے والے فوائد سے محروم کر دیتا ہے۔
ریاستی امور میں اگر ایک مرتبہ مذہب کو داخل کر دیا جائے تو وو اپنا اثرو رسوخ پھیلاتا ہی چلا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب اکثریتی مذہب کے نفاذ کے بعد ریاستی جبر اور طاقت کے بل بوتے پر اکثریتی فرقہ کے غلبہ اور دیگر مسالک کی تکفیر کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ مذہب کا سیاسی استعمال مذہبی علماء کے طبقہ کو طاقتور کرتا ہے جو سیاست کے بعد معاشرت میں دخیل ہو جاتے ہیں ۔پاکستان میں آج عالم یہ ہے کہ پولیو مہم ہو،یوٹیوب کا استعمال یا حقوق نسواں؛ ہر معاملہ میں جدید علوم سے بے بہرہ مولوی حضرات قوم کی رہنمائی کر رہےہیں۔سوٹ بوٹ والے اینکر ہیپاٹائیٹس اور دیگر متعدی امراض کا علاج وظائف اوردم درود کے ذریعہ ٹی وی سکرینوں پر بتا رہے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر عورت کے کار چلانے کی خامیاں بتائی جا رہی ہیں اور مذہبی علماء خواتین کی نقل و حمل کی آزادی کو محدود کرنے کا درس مذہب کے نام پر دے رہے ہیں۔ یہ مسائل صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ وہ تمام ممالک جن کے ناموں کے ساتھ مذہب کا لاحقہ لگ چکا ہے وہاں معاشرے کی "تطہیر” کا کام ریاست کی سرپرستی میں جاری ہے۔ مثال کے طور پر ایران میں مولوی حضرات خواتین کی بے حیائی کو زلزلوں کی بنیادی وجہ بتا رہے ہیں، خوش ہو کر گانے یا ناچنے پر تعزیری سزائیں دی جارہی ہیں، سعودی عرب کے مولوی ابھی یہ نہیں طے کر سکے کہ عورت کن حالات میں گاڑی چلا سکتی ہے اور کیا محرم کے بغیر علاج معالجہ بھی کرا سکتی ہے یا نہیں۔
معاشرتی رویوں کا انحصار ریاستی سطح پراپنائے جانے والی اقدار پر ہے، اگر ریاست سب شہریوں کو ایک نظر سے دیکھے گی تو افراد بھی ایک دوسرے کے لیے عزت اور احترام کے جذبات رکھیں گے اور ریاست بھی مستحکم ہوگی ، لیکن اگرکسی ایک طبقہ کے مذہب یا عقیدہ کا ریاستی امور میں عمل دخل بڑھتا رہے تو ایک وقت آتا ہے کہ معاشرہ تکفیریت کی روش پر تمام اقلیتوں کو ریاست سے حاصل ہونے والے فوائد سے محروم کر دیتا ہے۔
Dear Writer:
You are talking about India as a liberal secular state and they don’t allow their religion and religiosity in state affairs. According to my poor observation and readings, India has a highly controversial and discriminated state towards religious discrimination. Don’t you remember the Babri Masjid Issue, Gujjrat Train Incident and many other issues facing by Muslims and other minorities??
Yes, we in Pakistan is facing lot of issues due to our varied religious beliefs and intervening of religious values in state affairs but the need of the time is to give solutions and practical implementations rather than just criticism and explanations of facts.
Thanks,
Nazia Hussain