[blockquote style=”3″]
‘ہم سب’ اردو کی نمایاں ترین پاکستانی ویب سائٹس میں سے ایک ہے۔ اس ویب سائٹ پر شروع کیے گئے اہم سلسلوں میں سے ایک، محترمہ رامش فاطمہ اور محترم تصنیف حیدر کے مابین خطوط کا تبادلہ بھی تھا۔ سدرہ سحر عمران نے اسی سلسلے کو آگے بڑھایا ہے۔ یہ خط مذہب پر الزامات کا ایک جواب ہے، اس جواب سے اختلاف ممکن ہے، اس جواب سے مزید سوالات کا سلسلہ شروع ہونے کا امکان موجود ہے لیکن ہمیں ایک بات پر توجہ دینی چاہیئے کہ جب تک مذہب کے ماننے والے اور نہ ماننے والے ایک دوسرے سے بات کرنے پر آمادہ ہیں تب تک ہمارے پاس ایک پرامن دنیا کی امید کرنے کا جواز موجود ہے۔
[/blockquote]
مذہب بیزار تصنیف حیدرکے نام
سب سے پہلا شکریہ تو وجاہت مسعود کا بنتا ہے جنہوں نے تمہارے اور رامش فاطمہ کے کھلے خطوط ادھر ادھر پہنچانے کا کام بخیر و خوبی انجام دیا۔ اگر چہ یہ دو لوگو ں کی سوچ ہے، منفی مثبت کا فیصلہ قاری کی صوابدید پر ہے ۔یہ دو لو گ کہاں بیٹھ کر، کس طر ح سوچتے اور پھر لکھتے ہیں اس سے ہمیں غرض نہیں ۔ تاہم یہ دو سرحدوں کی آپس میں باتیں ہیں جو خط و کتابت کا سہارا لے کر منظر عام پر آئیں اس لئے نظریات و افکار محض ذاتی نہیں رہ جاتے۔
ایک نظم گو شاعرہ کو تمہارے یا رامش فاطمہ کے فرمودات پہ غُصہ آنا بالکل فطری عمل ہے اس میں بھی کسی مذہبی سازش کو شریک مت سمجھنا۔ تمہیں ویسے بھی مذہب سے اتنی ہی چڑ ہے جتنی مذہب کو کفر و الحاد سے۔ دیکھو تالی دونوں ہاتھو ں سے بجتی ہے اور دونوں ہی خوب بجا رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے ملا کی اذاں پہ کان دھرو اور ڈیڑ ھ ڈیڑ ھ اینٹ کی مساجد تعمیر کر کے خدا کے نام پہ چندہ بٹورو اور دین کم دنیا زیادہ کماؤ لیکن خود کو اتنا حق پر ست بھی نہ سمجھو کہ ملائیت کا قلع قمع ہی تمہاری عظمت کی دلیل بن کر رہ جائے۔ رواداری،میانہ روی کیا ہے یہ ہمیں ہمارا مذہب تو بتاتا ہے مگر لبرلز کے نزدیک اس کی تعریف قطعی الگ ہے۔ یہ رواداری اختیا ر کرتے ہیں تو ان چند گنے چنے لوگو ں کے لئے جنہوں نے مذہب کے معاملے میں گالم گلوچ کی۔ وطن عزیز کی بھیانک تصویر کشی کر کے مغربی ہتھکنڈوں سے فیضیاب ہوئے۔ اپنی مٹی سے بغاوت کی اور اپنے اصل کی نفی کر کے شہرت کی سیڑھیا ں بنوائیں۔ ان کے لئے لبرلز کے دل بہت وسیع ہیں مگر جہاں مذہب کی بو آنے لگے یہ اپنا بین بجانے پہنچ جاتے ہیں ۔نہ نہ ۔۔۔تمہاری بات نہیں کی ۔ یہ ان کا تذکرہ ہے جو ان سطرو ں سے کو سوں دور ہیں۔ اور جگہ جگہ روشن خیالی اختیار کرنے کے مفت مشورے تقسیم کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک انتہا پسندی کا لفظ صرف مذہبی لغت میں پایا جاتا ہے خود یہ مذہب کو بری طرح رد کر کے جس شدت کا ثبوت پیش کر تے ہیں اس کا ادراک انہیں ہو گا بھی تو اس طرف سے ان کی آنکھیں بند ہیں۔ یہ کبھی نہیں کہتے کہ مذہب میں نیکی بدی کی لکیر موجود ہے۔ نیکی اور خیر کی طرف جانا ہے یا مخالف سمت میں اس کا فیصلہ آدمی کے ہاتھ ہے۔ خیر کا راستہ چنو ۔۔۔ اپنے اپنے مذہب سے اچھی باتیں نکالو ان پہ عمل کرو۔ یہی انسانیت ہے ۔۔۔۔لیکن نہیں ان کا جہاد اکبر یہی ہے کہ صبح شام مذہب کو رگیدیں ۔کوئی ان سے پو چھے اس کا نتیجہ کیا ہے؟
ملا کہتا ہے خدا کی ساری ما نو تم کہتے ہو ایک نہ ما نو ۔۔۔۔۔ بلکہ اسے ہی نہ ما نو تو اس سے کیا ہو گا؟ سچ پو چھو تو ہم مذہبی ملا ہو یا لبرل ملا دونو ں کی “انتہا پسند ی” سے خار کھا تے ہیں۔ دیکھو اپنی دانست میں تم مذہب کا بری طرح رد کر کے انسانیت کی خدمت کر رہے ہو لیکن یہ تمہاری غلط فہمی ہے سر اسر۔ انتہا کیا ہے؟ مخالف کو نیچا دکھانے کے لئے کسی بھی حد تک چلے جانا۔ تمہارے جیسے کئی سیکولر اور لبرل “ملا” ۔۔۔۔ ہم ملا ہی کہیں گے کیونکہ ملائیت کی ایک قسم اپنے شدت پسند خیالا ت اور افکار کی تبلیغ بھی ہے۔ مذہب کو جوتے کی نوک تلے رکھ کر سمجھتے ہیں کہ دنیا سے اگر مذہب جیسی “خرافات” کو مٹا دیا جائے تو دنیا امن کا گہوا رہ بن جا ئے۔ دیکھو دنیا میں شر اور خیر کے علاوہ کیا ہے؟ تمہیں کیسے پتہ جو تم نیک عمل کر رہے ہو وہ انسانیت کی بھلائی اور خیر خواہی ہے۔ اور جو دوسرے کر رہے ہیں وہ محض فساد فی الارض ہے۔ وہ کون سا پیمانہ ہے جس کی مدد سے ہم خیر اور شر کو علیحدہ کر سکتے ہیں۔ یقیناً مذہب ہی ہے۔
تم نے مذہب کو کتنا سمجھا ہے؟ کیا بچپنے کے سجدے، دیکھا دیکھی کی عبادتیں تمہارا مذہب تھیں؟کیا میلادی محفلوں میں جھومنا مذہب تھا تمہا را؟ تم نے مذہب کو سمجھا نہیں محض دیکھا اور نقالی کی ویسے ہی جیسا ہر بچہ کرتا ہے۔ تمہارے گھر میں پوجا پاٹ ہوتی تم وہی کرتے، عیسائی گھرانا ہوتا تو گرجا گھروں میں جا کر صلیبیں چومتے۔ جو تمہارے بڑے کر رہے تھے تم نے وہی کرنا تھا۔ پھر تم “سمجھ دار” ہوئے تو تم نے نمازتسبیح کو گھر کے کسی کونے میں پھینکا اور انسانیت کا جھنڈا خرید کر بیٹھ گئے۔ تمہیں انسانیت کس نے سکھائی؟ کوئی کتاب، کوئی استاد، کوئی مصلح ۔۔۔کچھ تو ہو گا۔ تم نے انسانیت کو چنا تو تمہیں اس کے قاعدے ضابطے بھی سیکھنا پڑے ۔ یہی چیز مذہب میں ہوں تو ناقابل برداشت کیوں؟ دیکھو ایک کتاب ہے ہماری ۔۔۔ خدا کی کتاب ہے ۔۔۔ زندگی کے سارے رولز اینڈ ریگولیشنز اس میں درج ہیں۔ کبھی کھول کر پڑھی ۔۔۔۔۔پڑھی ہے تو سمجھی ۔۔۔۔سمجھی ہے تو عمل کیا؟ کیا غلط ہے اس میں؟
کیا اس میں اخلاقیا ت نہیں، معاشرت، معاش اور سیا ست نہیں؟ کسب حلال پہ زور نہیں؟ حرام لقمو ں کی حرمت کا بیان نہیں؟ حقو ق العباد نہیں؟ حقوق زوجین نہیں؟ انسانیت کی تکر یم نہیں؟ دوست دشمن کی پہچان نہیں سکھاتی؟ شر اور خیر کی تمیز نہیں سکھاتی؟ یہی چیزیں تمہیں کسی دنیاوی کتا ب میں مل جائیں گی تو تم بغور پڑھو گے۔ قرآن جیسی حکمت والی کتاب میں ہیں تو تمہیں اس میں شدت پسندی دکھائی دیتی ہے؟ تم نے لکھا اوشو کہتا ہے مذہب نے عورت کا سب سے زیادہ استحصا ل کیا؟ یہ الزام کس بنیاد پہ؟ اور پھر اوشو جیسی مذہبی شخصیت کی بات کو حوالہ بنانا چہ معنی دادر؟
مذہب نہیں کہتا عورت کو لکھنے پڑھنے نہ دو، اسے جاہل رکھو، باندی بنا کے رکھو، جن قبیلوں میں عورت کو علم سے محروم رکھا جا تا ہے ان کی جاہلانہ سوچ کو مذہب کے کھا تے میں کیوں درج کر تے ہو؟ روایت پسند مردوں کی گھنا ؤنی سوچ اور جبر و استبداد کا جرم مذہب کے سر کیو ں؟ پردے کی بات ہے تو مذہب میں پردے کی آڑ میں کہیں عورت پر ظلم و ستم روا نہیں رکھا گیا۔ قبا ئلی نظام، جا گیرداری یا وڈیرہ شاہی یا جہالت اس میں عورت کو اگر ان پڑھ رکھا جاتا ہے۔ اس کے حقوق غصب کر لئے جاتے ہیں اور کیڑے مکو ڑوں سے بد تر زندگی گزارنے پہ مجبو ر کیا جاتا ہے تو اس میں مذہب کہاں سے آ گیا۔ تم نے خود بھی لکھا ہے کہ یہ عقیدے کی نفسیات ہو سکتی ہیں۔ ایسا ہی ہے۔ محض رسم و رواج اور خود ساختہ سماجی بندشیں۔۔۔ پھر تم نے روشن خیالی کی بات کی۔ اگر کھلے بال روشن خیالی نہیں تو پردے کی شرط پہ مسئلہ کیو ں ہیں؟ تمہارے نزدیک روشن خیالی کیا ہے؟ سگریٹ تک کے اشتہارو ں میں عورت کی نمائش روشن خیالی ہے؟ عورت کو کتنا آزاد دیکھناچا ہتے ہو؟ کیا عورت کو حسن و نزا کت کے خانے میں فٹ کر کے لطف کشید کرنا عورت کی تکریم ہے؟ ۔۔۔کم از کم ہمارے مذہب نے تو عورت کو اتنا مجبور، بے بس اور حقیر نہیں رکھا جتنا تمہا رے قبیلے کے دانش ور سمجھتے ہیں۔