Laaltain

مذہبی مسائل پر مردانہ ‘اجارہ داری’

18 مارچ، 2016
مذہب و شریعت میں حقیقی طور پر عورت کا کوئی بھی مقام متعین ہو، یہ بات طے ہے کہ اس کی تعبیر و تشریح پر صدیوں سے صرف مردوں کی ہی اجارہ داری قائم ہے۔
مذہب و شریعت میں حقیقی طور پر عورت کا کوئی بھی مقام متعین ہو، یہ بات طے ہے کہ اس کی تعبیر و تشریح پر صدیوں سے صرف مردوں کی ہی اجارہ داری قائم ہے۔ ایک مرد کے مقابلے میں چار چار کی گنجائش اور قیامت تک پہنچتے پہنچتے ایک مرد کے مقابلے میں پچاس عورتوں کی کثرت کے نصوص رکھنے والی شریعت کو پڑھنے، پڑھانے کا معاملہ ہو یا محدثانہ و فقیہانہ دانشوری کا، دنیاوی معاملات کی طرح یہاں بھی مردوں کا ہر میدان پر قبضہ رہا ہے۔ چنانچہ ہمارے ‘مفتیان کرام’ بھی کثرت میں ہمیشہ سے مرد ہی رہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواتین سے متعلق شرعی مسائل کو بھی مردوں نے محض اپنے تناظر میں سمجھا اور پھر اپنے مردانہ نقطہ نظر کے مطابق فتویٰ بازیوں تک محدود رکھا۔

 

ہمارے ‘مفتیان کرام’ نے بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ مختلف مجبوریوں کا سہارا لے کے شرعی مسائل میں (صدر ممنون حسین والی) ‘گنجائش’ پیدا کی ہے، چاہے حرمت کتنی ہی سنگین اور وعید کتنی ہی سخت کیوں نہ رہی ہو، جس پر کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔ مگر جہاں خواتین کا معاملہ آیا وہاں پر ہمارے علماء و مفتیان کرام آج بھی وہی فتاویٰ جاری فرما رہے ہیں جو 1400 سال پہلے والے حالات کے پیش نظر جاری ہوئے تھے۔ مثلاً ٹی وی، لاوڈ سپیکر، ریل گاڑی، قرآن کے تراجم سمیت متعدد اسے معاملات جہاں ماضی میں مفتیان کرام ایک شے کو شریعت کی رو سے حرام و ناجائز قرار دیتے رہے ہیں لیکن آج ان کو حلال و جائز گردانتے ہیں۔

 

خواتین کے معاملے میں دیگر بہت سے مسائل کی طرح زمانے کے ساتھ ساتھ ‘گنجائش’ پیدا کرنا تو ایک طرف شریعت میں جن معاملات کی اصلاً بھی گنجائش موجود تھی، اس کو بھی ختم کرنے کی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
یہاں پر یہ بات ایک مثال سے واضح کرنا ہرگز فائدے سے خالی نہ ہو گا۔ شریعت کی روایتی تشریحات اور فقہ میں تصویر سازی کی شدید حرمت و تنبیہ وارد ہوئی ہے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے تک تمام علماء اس کی حرمت پر متفق بھی تھے لیکن بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ پہلے محض مجبوری میں اس کی گنجائش پیدا کی گئی اور پھر آہستہ آہستہ ہاتھ سے بنی اور کیمرے سے بنی تصویر کے احکامات میں فرق پیدا کر لیا گیا۔ شروع شروع میں عمرہ و حج کی خاطر تصویر لازم ہونے پر یہ کہا گیا کہ اس زمانے میں چونکہ مجبوری ہے، اس لئے تصویر بنائے بغیر چارہ نہیں۔ تصویر کا مسئلہ تو مردوں کو بھی لاحق تھا لیکن اسی طرح کا ایک مسئلہ عرصہ دراز سے صرف خواتین کے ساتھ مخصوص تھا اور وہ یہ کہ کوئی بھی عورت بغیر محرم کے سفر نہیں کر سکتی، اس لئے اس کا اکیلے حج اور عمرہ پر جانا بھی حرام اور ممنوع ہے۔ تصویر کا مسئلہ چونکہ مردوں کے لئے بھی تھا اس لئے اس کی شدید حرمت و وعید کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اس کے حکم میں گنجائش پیدا کر لینا ہرگز کسی مشکل کا باعث نہ بنا لیکن محرم کی اجازت کا مسئلہ صرف خواتین کے لئے تھا، اس لئے اس کی شریعت میں سادہ ممانعت بھی ‘اہل جبہ و دستار’ کو آج تک یہی فتویٰ دینے پر مجبور رکھتی ہے کہ اگر محرم ساتھ نہ ہو تو خواتین کے لئے حج و عمرے کا سفر بھی حرام اور ناجائز ہے کیونکہ محض حج یا عمرے پر جانے کی خاطر شرعی احکامات کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس’فقاہت’ کو کیا کہیے جو تصویر کے حکم میں تو آج کھینچ تان کر یہ فرق پیدا کر رہی ہے کہ کیمرے سے بنی تصویر حرمت والی تصویر نہیں لیکن ہوائی جہاز اور پہلے کے مقابلے میں کثیر سہولتوں سے آراستہ سفر ان کی نظر میں آج بھی اونٹوں اور گدھوں پر سفر کرنے جیسا ہی ہے۔ ؎ ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

 

خواتین کے معاملے میں دیگر بہت سے مسائل کی طرح زمانے کے ساتھ ساتھ ‘گنجائش’ پیدا کرنا تو ایک طرف شریعت میں جن معاملات کی اصلاً بھی گنجائش موجود تھی، اس کو بھی ختم کرنے کی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ چنانچہ مستند روایات میں موجود ہے کہ امہات المومنین اپنے بال کانوں تک کاٹ لیا کرتی تھیں (صحیح مسلم)۔ مگر آج خواتین کے لئے صرف یہی عمل ان کے کردار پر فتوے لگانے کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے۔

 

یہ مثالیں اس مخصوص مذہبی ذہنیت کو واضح کرتی ہیں کہ مردوں کے لئے شدید حرمت پر مبنی احکامات میں بھی گنجائش پیدا کر لی جاتی ہے اور خواتین کے معاملات و مسائل میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ گنجائش کو بھی اپنی مردانہ فقاہت و ‘فتاوت’ کے سہارے حرمت میں بدل دیا جاتا ہے۔

One Response

  1. We are living in man dominated society where female holds secondary position and rights . This culture has been inhabited since centuries due to cultural and religious bindings which limit women independent role . However this blog has been written boldly discussing shortcomings of mindset against basic rights of women ,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

  1. We are living in man dominated society where female holds secondary position and rights . This culture has been inhabited since centuries due to cultural and religious bindings which limit women independent role . However this blog has been written boldly discussing shortcomings of mindset against basic rights of women ,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *