مذہبی روایات کو ہمارے معاشرے میں ایک خاص مقام حاصل ہے چند مواقعوں پر تو یہ انسان سے بھی فوقیت لے جاتی ہیں اور ان روایات کے خلاف جانے کے جرم میں ایک انسان دوسرے انسان کو قتل بھی کر سکتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کیاروایات کسی بھی انسانی معاشرے کا ایک ترقی پسند عنصر ہیں یا یہ جمود کو ظاہر کرتی ہیں۔کسی بھی معاشرے میں مذہبی رسوم و رواج مخصوص شناخت اور خاکہ کو برقرار رکھنے کے لئے نافذ کی جاتی ہیں۔ حقیقت میں روایات معاشرے میں علامتی حیثیت رکھتی ہیں جو جمود کو برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ ہے،قدامت پرست معاشرے ایسی روایات کونافذ کرتے ہیں جن کی بناء پر معاشرے میں طاقت، اقتدار اور اختیار کے مراکز قائم رہیں۔
تبلیغی تحریکوں اور اجتماعات کے ذریعے ہر سال لاکھوں لوگ مذہبی شناخت اور روایات اپنانے کا فیصلہ کرتے ہیں، مرد پائنچے ٹخنوں سے اوپر کرتے ہیں، مسواک شروع کرتے ہیں، ڈاڑھی بڑھاتے ہیں اور تبلیغی دوروں پر نکل جاتے ہیں جبکہ عورتیں برقعہ بند ہوجاتی ہیں ، مردوں کی اطاعت گزار ہو کر خود کو لہو ولعب سے دور کر لیتی ہیں لیکن اس سب کے باوجود معاشرہ انسانی ترقی اور تمدن کے پیمانوں پر پہلے سے کہیں پست اور کم تر ہوتا کیوں نظر آتا ہے؟
روایات سماجی ضروریات پوری کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں لیکن رفتہ رفتہ روایات محض علامت کی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں جن پر عمل پیرا ہونا رسمی طور پر ضروری سمجھا جاتا ہے اور ان سے انحراف یا انکار کرنے والے افراد سزاوار سمجھے جاتے ہیں ۔مسلکی روایات ہمیں شناخت کو جاننے یا اس تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں خصوصاً ثقافتی رویات معاشرتی شناخت جب کہ مذہبی روایات اور رسوم دینی شناخت کے لئے اہم ہیں، یہی وجہ ہے کہ معاشرہ اور مذہب دونوں تقلید پرست اور روایت پرست ہوتے ہیں تاکہ مذہبی اور معاشرتی شناخت کو برقرار رکھا جا سکے۔ اس چیز کا احساس مجھے ہمیشہ اسی وقت شدت سے ہوتا ہے جب ہمارے گاؤں کی مسجد میں تبلیغی جماعت کے لوگ آتے ہیں اور سب کو اسلام کے بارے میں بتاتے ہیں اور ان کی تمام باتوں کو سننا میں اپنے لئے فرض سمجھتا ہوں ، کیونکہ مذہب کے بارے میں سننا اور بولنا ہمیشہ خوشگوار اور روحانیت سے بھرپور تجربہ محسوس ہوتا ہے۔
مذہب کے پیرو کاران اور مبلغین کا بنیادی فلسفہ بھی یہی ہے کہ دین کی بات کرنا اور دوسروں کو اس کی تبلیغ کرنا نیکی ہے، ان کی تبلیغ کا سارا محور اس بات پر ہوتا ہے کہ سبھی لوگ ان کے نقطہ نظر کے مطابق اچھے مسلمان بن جائیں، اور ان تمام روایات اور رسوم پر عمل پیرا ہو جائیں جو ایک مخصوص مذہبی شناخت کا حامل مسلمان بننے کے لئے اپنانا ضروری ہیں؛ جیسے دین کیلئے وقت وقف کرنا ، لوگوں کو دین کی طرف لے کر آنا،عبادات کرنا ، مذہبی تہوار منانا اور مذہبی حلیہ اختیار کرنا ۔لیکن معاشرہ جو اشحاص پر مشتمل ایک مجموعہ ہے ، اور شخص اس کی ایک بنیادی اکائی، اگر اکائی ایک اچھا مسلمان ہے تو معاشرہ گراوٹ کا شکار کیوں ہے۔ تبلیغی تحریکوں اور اجتماعات کے ذریعے ہر سال لاکھوں لوگ مذہبی شناخت اور روایات اپنانے کا فیصلہ کرتے ہیں، مرد پائنچے ٹخنوں سے اوپر کرتے ہیں، مسواک شروع کرتے ہیں، ڈاڑھی بڑھاتے ہیں اور تبلیغی دوروں پر نکل جاتے ہیں جبکہ عورتیں برقعہ بند ہوجاتی ہیں ، مردوں کی اطاعت گزار ہو کر خود کو لہو ولعب سے دور کر لیتی ہیں لیکن اس سب کے باوجود معاشرہ انسانی ترقی اور تمدن کے پیمانوں پر پہلے سے کہیں پست اور کم تر ہوتا کیوں نظر آتا ہے؟ اچھے مسلمانوں کے ایک گروہ اور جم غفیر کے باوجود بنیادی انسانی ضروریات کی دستیابی اور سماجی انصاف کی فراہمی کا عمل ابھی تک کیوں شروع نہیں ہو سکا؟ مذہب اگر ہمیں مساوات اور رواداری کا سبق دیتا ہے تو وہ ہمیں معاشرے میں نظر کیوں نہیں آتیں؟ اور خاص کر کے ان لوگوں میں جو اپنے آپ کو مذہب کا نمائندہ سمجھتے ہیں ۔
منبر و محراب سے نیکی ، سزا و جزا اور اچھائی کے جن فرسودہ تصورات کا خطیبانہ بنیا ن ہماری سوچ اور عمل کو اپنی مخصوص مذہبی تعبیر کے تحت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، اجتماعی معاشرتی فلاح و بہبود میں اس کا کوئی حصہ نہیں ۔ والدین چھوٹے چھوٹے بچوں کے سروں پر امامے باندھ کر انہیں ایک اچھا مسلمان بننے کیلئے ان لوگوں کے پاس تعلیم کے حصول کیلئے بھیج دیتے ہیں جن کی گردان سزاوجزا کے اس تصور سے بندھی ہے جس کے تحت ایک مخصوص حلیہ اور عقیدہ ہی فلاح اور نجات کا ذریعہ ہیں
انسان اور معاشرہ کسی مخصوص عقیدہ کو طاری کر لینے سے نہیں چلتے ، بلکہ ان کی بنیاد تو عدل و انصاف ، مساوات و بردباری پر قائم ہوتی ہے، اور یہ صرف اسی صورت میں ہی ممکن ہے جب تعلیم و تبلیغ کا محور ایک انسان کو ’’اچھا ‘‘ اور’’ بہت اچھا ‘‘ مسلمان بنانے کی بجائے ایک اچھا اور بہت اچھا ’’انسان ‘‘بننے پرہو۔ ایک اچھا مسلمان ضروری نہیں ایک اچھا انسان بھی ہو، لیکن ایک اچھا انسان ایک اچھا عیسائی ،مسلمان اور یہودی ضرور ہوسکتاہے بلکہ صوفیوں کے مطابق ایک اچھے انسان کو کوئی بھی مذہب اپنانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
منبر و محراب سے نیکی ، سزا و جزا اور اچھائی کے جن فرسودہ تصورات کا خطیبانہ بنیا ن ہماری سوچ اور عمل کو اپنی مخصوص مذہبی تعبیر کے تحت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، اجتماعی معاشرتی فلاح و بہبود میں اس کا کوئی حصہ نہیں ۔ والدین چھوٹے چھوٹے بچوں کے سروں پر امامے باندھ کر انہیں ایک اچھا مسلمان بننے کیلئے ان لوگوں کے پاس تعلیم کے حصول کیلئے بھیج دیتے ہیں جن کی گردان سزاوجزا کے اس تصور سے بندھی ہے جس کے تحت ایک مخصوص حلیہ اور عقیدہ ہی فلاح اور نجات کا ذریعہ ہیں اور جن کے نزدیک تمام انسان عقیدے اور مسلک کی بنیا د پر تقسیم ہیں ۔جن کے نزدیک بارش ہونے یا نہ ہونے ، زلزلے آنے یا وبائیں پھوٹنے کی وجہ مذہبی شناخت کو چھوڑ کر بے حیائی اور بے راہروی اپناناہیں ۔ ایسے لوگ یہ ادراک کرنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہیں کہ خدا کوایک مخصوص شناخت یا حلیہ اپنانے اور محض عبادت گزار لوگوں کی نسبت انسانوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے والوں سے محبت ہے۔
۔ معاشرتی اور مذہبی روایات کو کسی بھی طرح انسانی زندگی سے مقدم قرار نہیں دیا جا سکتا، ایک انسان دوست معاشرے میں انسانوں کی فلاح اور ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہی نیکی ہے ۔ایک مسلمان اور پھر اچھا مسلمان بننے کی تبلیغ کے ساتھ ایک بہتر اور اچھا انسان بننے کی تبلیغ کرنا بھی ضروری ہے۔ جیتے جاگتے انسانوں کی بجائے مخصوص مذہبی شناخت، حلیہ ، رسوم اور روایات میں نیکی تلاش کرنے سے زیادہ گم راہ کن تصور کوئی نہیں ۔مذہبی تعبیر، تفسیر اور تشریح کے اختلاف پر قتل کرنے والے لوگوں کو نیکی کے اس انسان دوست تصور سے آشنا کرنا نہایت ضروری ہے، جو اس دھرتی سے جڑے صوفیوں اور سنتوں کی روایت ہے۔ ان صوفیوں اور سنتوں کے تصور نیکی کی تبلیغ کی ضرورت ہے جن کے ہاں عشق اور انسانیت سب سے بڑی سچائیاں ہیں ۔ انسانوں سے محبت کے لئے کسی مخصوص عقیدے کی پیروی کرنا یا اس کی رسوم ہر عمل پیرا ہونا ضروری نہیں۔ بھگت کبیر، نانک اور بلھے شاہ کو کسی مذہبی ادارے یا شخصیت سے معاشرتی اور مذہبی قبولیت کی سند کی ضرورت نہیں، ان کی انسان دوستی تمام تفرقہ اور تعصب سے بالاتر ہے۔

Leave a Reply