اگر کسی دیوانے کو یہ لگتا ہے کہ ہمارے ملک کے مقتدر طبقے میں شامل بڑی سیاسی جماعتیں فرقہ واریت اور انتہاپسندی کے عفریت کے خلاف غیر معمولی طور پر متفق اور متحد ہیں تو ازراہ کرم اس دیوانگی سے نکل آیئے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں سیاسی مفادات کے لیے جس طرح بڑی سیاسی جماعتوں نے بھیس بدل کر انتخابات میں حصہ لینے والی فرقہ پرست مذہبی تنظیموں سے سیاسی گٹھ جوڑ کیا ہے اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں ان سیاسی کرداروں نے پچھلے تیس سال سے جاری قتل و غارت اور بدنامی سے کچھ نہیں سیکھا۔ بی بی سی کی وہ خبر جس میں کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کی ہمشیرہ سیاسی جماعت “راہ حق پارٹی” کی انتخابی کارکردگی اور سیاسی اتحادوں کے باعث بلدیاتی انتخابات میں ملنے والی سیاسی کامیابی کا ذکر کیا گیا ہے، ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ حیرت ہے کہ ملک بھر کےمیڈیائی سپہ سالاروں پر کہ جن کی نگاہوں اور تبصروں کامطمع نظر “سب سے پہلے اور سب سے آگے” کی دوڑ ہے، جال ہے جو انہیں کبھی مثبت صحافت اور سیاسی شعور اجاگر کرنے کی توفیق عطا ہوئی ہو۔

وہ ادارے جو انتہاپسندسوچ کے خاتمے کے لیے قائم کیے گئے تھے ان کی تو خیر بات کرنا ہی بے وقوفی ہے۔ جب بھی کسی انتہاپسند عسکری یا سیاسی جماعت پر پابندی لگتی ہے تو وہ اگلی ہی صبح نام بدل کر گنگا نہا کر پوتر ہوجاتی ہے۔ اس صورتحال پر اگر تمثیلی طور پر کہا جائے تو نورے کمہار کا گدھا تو آگاہ ہوتا ہے مگر نیشنل ایکشن پلان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان ناواقف و نا آشنا ہوتے ہیں۔
حالیہ بلدیاتی انتخابات میں جھنگ کے اندر ‘راہ حق پارٹی’ کے انتخابی نشان استری پر وہی چہرے 13 نشستیں جیتنے کے بعد اب ضلعی حکومت بنانے کی کوشش میں ہیں، جو کچھ عرصہ قبل کالعدم قرا دی گئی تنظیموں کے نمائندہ ہوا کرتے تھے۔ انتخابی حمایت کے لیے نعرے بھی وہی لگائے گئے جو کالعدم جماعتوں کے دور میں متعارف کروائے گئے تھے۔ لوگوں کو اپنی حمایت میں ووٹ دینے کے لیے یاددہانیاں بھی انہی امور کی کروائی گئیں جو کبھی کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کا ایجنڈا تھے۔

راہ حق پارٹی سے سیاسی اتحاد کرنے والوں میں صرف دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں ہی نہیں ہیں بلکہ عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی جیسی ترقی پسند جماعتوں نے بھی بلدیاتی انتخابات میں اس جماعت کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو کس بل بوتے پر مذہبی انتہاپسندی کو للکارتے ہیں جب کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے کراچی کی یوسی3 کا ایک تشہیر ی بورڈ اس عبارت کا حامل ہو۔ “جماعت اہل سنت کے حمایت یافتہ پاکستان پیپلز پارٹی اور راہ حق پارٹی کے متفقہ امیدوار برائے چئیرمین فلاں صاحب” اور بورڈ پر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی تصویر کے عین اوپر مولانا اورنگ زیب فاروقی صاحب کی تصویر لگی ہو جو پچھلے سال خیرپور سندھ میں موجود جامعہ حیدریہ کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے سپاہ صحابہ سے وفاداری کی بیعت کے لیے ہزاروں کے مجمع سے مخاطب تھے اور دلائل دیتے ہوئے نہایت جذباتی انداز میں اپنی تنظیم کا فکری تعلق چیچنیا، افغانستان، شام، عراق سے جوڑتے ہوئے اسلام آباد کی لال مسجد تک لے آئے تھے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو کس بل بوتے پر مذہبی انتہاپسندی کو للکارتے ہیں جب کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے کراچی کی یوسی3 کا ایک تشہیر ی بورڈ اس عبارت کا حامل ہو۔ “جماعت اہل سنت کے حمایت یافتہ پاکستان پیپلز پارٹی اور راہ حق پارٹی کے متفقہ امیدوار برائے چئیرمین فلاں صاحب” اور بورڈ پر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی تصویر کے عین اوپر مولانا اورنگ زیب فاروقی صاحب کی تصویر لگی ہو جو پچھلے سال خیرپور سندھ میں موجود جامعہ حیدریہ کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے سپاہ صحابہ سے وفاداری کی بیعت کے لیے ہزاروں کے مجمع سے مخاطب تھے اور دلائل دیتے ہوئے نہایت جذباتی انداز میں اپنی تنظیم کا فکری تعلق چیچنیا، افغانستان، شام، عراق سے جوڑتے ہوئے اسلام آباد کی لال مسجد تک لے آئے تھے۔

پاکستان کے ‘ہردلعزیز’ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کس بل بوتے پر پاکستان کا مستقبل لبرل ازم اور جمہوریت میں دیکھتے ہیں جبکہ خود ان کی سیاسی جماعت نے بھی حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹ لینے کے لیے انتہاپسندی کی بہتی گنگا میں اشنان کیا ہو۔ بی بی سی اردو کی ایک رپورٹر نے پچھلے سال جھنگ سے اپنی ایک رپورٹ میں تحریر کیا تھا کہ “مولانا محمد احمد لدھیانوی کی زیر سربراہی اہل سنت و الجماعت کی تنظیم ہو بہو سپاہ صحابہ پاکستان کی نقل ہے۔ جھنگ میں جامعہ مسجد حق نواز سمیت اس کے دفاتر بھی انہی مقامات پر قائم ہیں جہاں بارہ برس قبل پابندی کا شکار ہونے سے قبل سپاہ صحابہ کے دفاتر ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اہل سنت کی قیادت اب بھی اپنی تقاریر اور کارکنوں کے ساتھ روابط کے لیے سپاہ صحابہ کا نام کثرت سے استعمال کرتی ہے۔”
‘راہ حق پارٹی‘ کے صوبہ سندھ کے کنویئنر ثنااللہ حیدری مقتول مولانا علی شیر حیدری بھائی ہیں جو سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں اس پارٹی کی رجسٹریشن حکیم محمد ابراہیم قاسمی صاحب کی طرف سے ہوئی ہے جو خیبر پختونخوا میں سپاہ صحابہ کے سرگرم رہنماء رہے ہیں۔
کیا فرقہ وارانہ تشدد کی ذمہ داری بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اسی جماعت پر عائد نہیں ہوتی؟
کیا اہل سنت والجماعت، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی، ان تمام جماعتوں کو ایک ہی سکے کے مختلف رخ نہیں؟
کیا ہم نہیں جانتے کہ سپاہ صحابہ پاکستان کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد اس تنظیم نے اپنا نام اہل سنت والجماعت نہیں رکھ لیا ہے ؟
پاکستان میں مذہبی انتہاء پسندی پر تحقیق کرنے والے معتبر محقق عامر رانا نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے جماعت اہل سنت کی سیاسی تشکیل پر گفتگو کرتے ہوئے جو کہا وہ بہت کچھ بیان کردیتا ہے:
اگر چہ لشکر جھنگوی اور جماعت اہل سنت میں تنظیمی ربط نہیں رہ گیا لیکن لشکر کے پاس جو افرادی قوت ہے وہ سپاہ صحابہ یا جماعت اہل سنت ہی سے حاصل شدہ ہے۔ اس لیے کسی نہ کسی سطح پر اب بھی لشکر جھنگوی اور اہل سنت کا حلقۂنیابت ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کی قیادت لاکھ کوشش کر لے، لشکر جھنگوی سے جان چھڑوانا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔
اگر چہ لشکر جھنگوی اور جماعت اہل سنت میں تنظیمی ربط نہیں رہ گیا لیکن لشکر کے پاس جو افرادی قوت ہے وہ سپاہ صحابہ یا جماعت اہل سنت ہی سے حاصل شدہ ہے۔ اس لیے کسی نہ کسی سطح پر اب بھی لشکر جھنگوی اور اہل سنت کا حلقۂنیابت ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کی قیادت لاکھ کوشش کر لے، لشکر جھنگوی سے جان چھڑوانا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔
جھنگ، کبیر والا، خانیوال، خیرپور اور اب کراچی کے مختلف حلقوں میں کھڑے کیے گئے 250 سے زائد امیدوار یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ انتہاءپسند عناصر اب اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے بلٹ کے ساتھ ساتھ بیلٹ کو بھی بطور ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ اور وہ ہاتھ جو ان کا قلع قمع کرنے پر معین ہونے چاہیئں وہی ہاتھ ان سانپوں کو دودھ پلا رہے ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ انتہاپسندوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ پالیسی ساز ادارے ان نظریات کا بھی قلع قمع کریں جو اس فکر کو افرادی قوت مہیا کرتے ہیں۔ جب تک ایک موثر، یکجا اور واضح پالیسی بنا کر بلاتفریق ان تمام گروہوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا جو مذہبی تعصب اور تکفیری فکر کی بنیاد پر معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں تب تک ترقی یافتہ، پرامن اور خوشحال پاکستان کا خواب تعبیر نہیں پا سکتا۔