Laaltain

مذہبی آزادی مگر اپنے رِسک پر

18 مارچ، 2015
Picture of نوید نسیم

نوید نسیم

11 اگست 1947 کی تقریر میں قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر کوئی اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہوگامگر بد قسمتی سے جناح صاحب ایک اضافی جملہ کہنا بھول گئے “اپنے رِسک پر”۔قائد اعظم کی اِس بھول کا خمیازہ گزشتہ روز لاہور کے علاقے یوحنا آباد کی مسیحی برادری کو ایک بار پھراس وقت بھگتنا پڑا جب دو خود کش حملہ آوروں نے اپنے آپ کو رُومن کیتھولک چرچ اور کرائسٹ چرچ کے باہر دھماکے سے اڑا لیا ۔ دھماکے کے نتیجے میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے 15 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والوں کو یہ خوش فہمی تھی کے وہ قائد اعظم کی تخلیق کردہ فلاحی ریاست کے شہری ہیں جس کے خالق نے اقلیتوں کے ساتھ برابری کے سلوک کی ضمانت دی تھی اور جس ریاست کے جھنڈے میں سفید رنگ، اقلیتوں کی نمائندگی کے لئے شامل کیا گیا تھا۔مگر اب تک اقلیتوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ قائداعظم کی وہ تخلیق کردہ ریاست نہیں، جہاں آزادی سے رہنے کے خواب کبھی اقلیتیں دیکھا کرتی تھیں۔ اس ریاست میں مذہبی آزادی صرف انہیں حاصل ہے جن کے ہاتھ میں بندوق ہے اور جو اسے چھین سکتے ہیں۔
دیکھا جائے تو پاکستان میں اقلیتیں تو دور کی بات، اکثریت بھی محفوظ نہیں اور یہی وجہ ہے کبھی امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی مساجد کو،کبھی مزاروں کو اور کبھی گرجا گھروں کو۔
دھماکوں کے بعد مقامی لوگوں نے اشتعال میں آ کر دو افراد جن پر پولیس کو شبہ تھا کہ وہ دہشتگردوں کے ساتھی ہیں، مقامی لوگوں نے فوری عدل کا نظام رائج کرتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنا کرجلا دیا۔سوموار کے دن جل کر مر جانے والوں میں سے ایک سے متعلق نشتر کالونی تھانے میں درخواست درج کرائی گئی ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ مشتعل مظاہرین کے ہاتھوں ہلاک ہونے والا ایک شخص “نعیم”ان کا بھائی ہے۔ نعیم کی ہلاکت کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہےاور کہا ہے تھا کہ “شک کی بنیاد پر کسی کی جان لینا، انسانیت سوز واقعہ ہے۔”لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب سےکوئی یہ پوچھے کہ کیا اقلیتوں پر اس سے قبل ہونے والے حملوں کے مجرم پکڑنے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے ؟ یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکار جو حملے کے وقت پاکستان اور آئر لینڈ کا کرکٹ میچ دیکھ رہے تھےانہوں نے صرف اس لئے ان دو افراد کو مشکوک سمجھاکیونکہ ان کے منہ پر داڑھیاں تھیں؟
واقعہ کے بعد مشتعل ہجوم نے پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو ثبوت اکٹھے کرنے سے بھی روکا تاہم پولیس افسران سے معاملات طے پانے کے بعد تفتیش کا کام شروع کیا گیا۔ واقعہ کے اگلے روز یعنی سوموار کو بھی یوحنا آباد کے لوگوں نے لاہور کی فیروز پور روڈ بند کیے رکھی، ٹائر جلائے اور گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔ ہنگاموں اور احتجاج کے باعث میٹرو بس بھی بند رہی اور احتجاج میں شامل شر پسندوں نے لوٹ مار کا نادر موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ احتجاج کا سلسلہ دیگر شہروں مثلاً فیصل آباد میں بھی جاری رہا جہاں مظاہرین نے ٹائر جلائے اور فیصل آباد موٹر وے کو آمدورفت کے لیے بند رکھا۔ درحقیقت یہ احتجاج کسی بھی طرح ایسے مواقع پر کیے جانے والے مظاہروں سے مختلف نہیں تھا، فرق تھا تو صرف یہ کہ پہلی مرتبہ کسی اقلیت نے اس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
یہ وہ طبقہ ہے جو بندوق کے زور پر شریعت کا نفاذ چاہتا ہے اور جسے معاشرے کے اندر سے بھی ہمدردی حاصل ہےیہی وجہ ہے کہ لاکھوں مساجد میں مرنے والوں کے ایصالِ ثواب کے لئے دعا تو مانگی جاتی ہے مگر دہشتگردوں کے خلاف دعا مانگنا ممنوع تصور کیا جاتا ہے۔
لاہور اور فیصل آباد میں ہونے والے جھڑپوں اور احتجاج میں سرکاری املاک سمیت چند عام لوگوں کو بھی نقصان پہنچا۔ جس کا مقدمہ حسبِ روایت چند نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا جائیگا اور یوں یہ مقدمہ دیگر ہزاروں بلکہ لاکھوں مقدمات کی گنتی میں شامل ہوجائےگا۔یہ تمام احتجاج اور جھڑپیں مسیحی عبادت گاہوں پر ہونے والے دہشتگرد حملے کے بعد ہوئیں مگر دیکھا جائے تو پاکستان میں اقلیتیں تو دور کی بات، اکثریت بھی محفوظ نہیں اور یہی وجہ ہے کبھی امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی مساجد کو،کبھی مزاروں کو اور کبھی گرجا گھروں کو۔موجودہ حالات اور پیش آنے والے واقعات کو دیکھا جائے تو پاکستان میں صرف اقلیتیں ہی نہیں بلکہ اکثریتی عقیدے کے حامل افراد بھی انتہائی غیر محفوظ ہے۔
مسیح تو پھر اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں،اہلِ تشیع تو اقلیت نہیں۔ ان کی امام بارگاہیں بھی آئے دن بربریت کا نشانہ بن رہی ہیں، مزارات بھی خود کش دھماکوں کا نشانہ بن چکے ہیں، مساجد تو اب جمعہ کے مبارک دن نشانہ بنائی جارہی ہیں لیکن اس کے باوجود اقلیتوں کے حق میں کبھی معاشرے کا اجتماعی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔احمدیوں ، عیسائیوں، ہندووں اور سکھوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی سے متعلق نہ تو زیادہ بات کی جاتی ہے اور نہ انہیں تحفظ دینا ریاست اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ اخبارات بھی اقلیتوں سے متعلق خبر کسی اندرونی صفحہ پر لگا کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
اگر پاکستان میں گرجہ گھر، امام بارگاہ، مزارات اور مساجد محفوظ نہیں تو سوچنے کی بات یہ ہے کے حملہ کرنے والے کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟
یہ وہ طبقہ ہے جو بندوق کے زور پر شریعت کا نفاذ چاہتا ہے اور جسے معاشرے کے اندر سے بھی ہمدردی حاصل ہےیہی وجہ ہے کہ لاکھوں مساجد میں مرنے والوں کے ایصالِ ثواب کے لئے دعا تو مانگی جاتی ہے مگر دہشتگردوں کے خلاف دعا مانگنا ممنوع تصور کیا جاتا ہے۔

2 Responses

  1. یہ اس اچھے مضمون کا پہلا پیراگراف ہونا چاہیے تھا۔

    پاکستان میں اقلیتیں تو دور کی بات، اکثریت بھی محفوظ نہیں اور یہی وجہ ہے کبھی امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی مساجد کو،کبھی مزاروں کو اور کبھی گرجا گھروں کو۔موجودہ حالات اور پیش آنے والے واقعات کو دیکھا جائے تو پاکستان میں صرف اقلیتیں ہی نہیں بلکہ اکثریتی عقیدے کے حامل افراد بھی انتہائی غیر محفوظ ہے۔
    مسیح تو پھر اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں،اہلِ تشیع تو اقلیت نہیں۔ ان کی امام بارگاہیں بھی آئے دن بربریت کا نشانہ بن رہی ہیں، مزارات بھی خود کش دھماکوں کا نشانہ بن چکے ہیں، مساجد تو اب جمعہ کے مبارک دن نشانہ بنائی جارہی ہیں لیکن اس کے باوجود اقلیتوں کے حق میں کبھی معاشرے کا اجتماعی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔احمدیوں ، عیسائیوں، ہندووں اور سکھوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی سے متعلق نہ تو زیادہ بات کی جاتی ہے اور نہ انہیں تحفظ دینا ریاست اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ اخبارات بھی اقلیتوں سے متعلق خبر کسی اندرونی صفحہ پر لگا کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
    اگر پاکستان میں گرجہ گھر، امام بارگاہ، مزارات اور مساجد محفوظ نہیں تو سوچنے کی بات یہ ہے کے حملہ کرنے والے کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟

    یقینا اس اچھے مضمون کا مقصد اشتعال انگیزی سے زیادہ اس بات کا ادراک ہے کے دہشت گردی ہمارا قومی مسئلہ اورقومی المیہ ہے جس سے اس وقت پورا پاکستان اور اس میں بسنے والے عوام گزر رہے ہیں۔ اور ارباب اختیار نا صرف لاپروہ اور بظاہر بےبس بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

  2. Very well written! I appreciate the content specially when you mentioned that majority is even not safe, so who cares about minorities.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

2 Responses

  1. یہ اس اچھے مضمون کا پہلا پیراگراف ہونا چاہیے تھا۔

    پاکستان میں اقلیتیں تو دور کی بات، اکثریت بھی محفوظ نہیں اور یہی وجہ ہے کبھی امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی مساجد کو،کبھی مزاروں کو اور کبھی گرجا گھروں کو۔موجودہ حالات اور پیش آنے والے واقعات کو دیکھا جائے تو پاکستان میں صرف اقلیتیں ہی نہیں بلکہ اکثریتی عقیدے کے حامل افراد بھی انتہائی غیر محفوظ ہے۔
    مسیح تو پھر اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں،اہلِ تشیع تو اقلیت نہیں۔ ان کی امام بارگاہیں بھی آئے دن بربریت کا نشانہ بن رہی ہیں، مزارات بھی خود کش دھماکوں کا نشانہ بن چکے ہیں، مساجد تو اب جمعہ کے مبارک دن نشانہ بنائی جارہی ہیں لیکن اس کے باوجود اقلیتوں کے حق میں کبھی معاشرے کا اجتماعی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔احمدیوں ، عیسائیوں، ہندووں اور سکھوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی سے متعلق نہ تو زیادہ بات کی جاتی ہے اور نہ انہیں تحفظ دینا ریاست اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ اخبارات بھی اقلیتوں سے متعلق خبر کسی اندرونی صفحہ پر لگا کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
    اگر پاکستان میں گرجہ گھر، امام بارگاہ، مزارات اور مساجد محفوظ نہیں تو سوچنے کی بات یہ ہے کے حملہ کرنے والے کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟

    یقینا اس اچھے مضمون کا مقصد اشتعال انگیزی سے زیادہ اس بات کا ادراک ہے کے دہشت گردی ہمارا قومی مسئلہ اورقومی المیہ ہے جس سے اس وقت پورا پاکستان اور اس میں بسنے والے عوام گزر رہے ہیں۔ اور ارباب اختیار نا صرف لاپروہ اور بظاہر بےبس بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

  2. Very well written! I appreciate the content specially when you mentioned that majority is even not safe, so who cares about minorities.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *