نصیر جسکانی
آج کل پاکستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے خبریں خوب گرم ہیں؛ ایک طبقہ بڑی شدومد کے ساتھ مذاکرات کا حامی نظر آتا ہے تو دوسرا شدید مخالف ۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ قوم دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے اور قومی اتفاق رائے کا فقدان واضح نظر آتاہے جو قوم کے فکری اورنظریاتی انتشار کی غمازی کرتا ہے۔ پوری قوم میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے نتیجے میں فوجی آپریشن کے حق میں پائے جانے والے اتفاق رائے کے باوجود حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے راستے کو چنا ہے اور چنتی بھی کیوں نا، آخرانتخابات کے دوران طالبان نے خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے کی کھلی چھوٹ دی جب کہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں جو فوجی کاروائی کی حامی تھیں وہ دھماکوں اور خود کش حملوں کے باعث عملاً انتخابی عمل سے باہر ہو گئے۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ووٹ بینک کی اکثریت آپریشن کی نسبت مذاکرات کی حامی ہے جس وجہ سے حکومت مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔
مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ووٹ بینک کی اکثریت آپریشن کی نسبت مذاکرات کی حامی ہے جس وجہ سے حکومت مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔
جوحلقے مذاکرات کے حامی نظر آ رہے ہیں ان میں مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور اس کے ساتھ ساتھ دیو بند مکتب فکر سے وابستہ مذہبی سیاسی جماعتیں مثلاًجماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) ، جمعیت علمائے اسلام (س)، اور دیگر کالعدم جماعتیں جن میں سپاہ صحابہ ، جماعت الدعوہ اور دیگر جہادی تنظیمیں شامل ہیں۔ اس دوران کچھ سیاسی جماعتیں خاموشی یا نیم رضا مندی کا مظاہرہ کر رہی ہیں جن میں اے این پی ، بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتیں، پاکستان مسلم لیگ اور سندھی قوم پرست جماعتیں شامل ہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ یہ سب جماعتیں تذبذب کا شکار نظر آتی ہیں آیا وہ مذاکرات کی حمایت کھل کر کریں یا نہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ دوسری طرف اگر نظر دوڑائی جائے تو کئی سیاسی و مذہبی جماعتیں مذاکرات اور حکومت کی طرف سے بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی پر اپنے شدید تحفظات کا اعلان کر چکی ہیں اور حکومت کو طالبان کا پٹھو قرار دے چکی ہیں۔
ان جماعتوں میں ایم کیو ایم ، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری ، منہاج القران کے بانی و سرپرست ڈاکٹر طاہرالقادری ، وائس آف شہداء پاکستان اور پیپلز پارٹی کے سینٹر سید فیصل رضا عابدی ، شیعہ مسلمانوں کی مقبول سیاسی و مذہبی جماعت مجلس وحدت المسلمین ، سنی بریلوی مسلمانوں کی مختلف اکیس مذہبی جماعتوں پر مشتمل الائنس سنی اتحاد کونسل ، سنی تحریک کے ساتھ ساتھ مختلف اقلیتی جماعتوں کے رہنما جن میں عیسائی ، سکھ ، ہندو وغیرہ اب ببانگ دہل طالبان کے خلاف آپریشن کے حکومتی اعلان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان رہنماوں کی طرف سے مطالبہ سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین اور وائس شہداء پاکستان کی طرف سے اسلام آباد میں ڈی چوک پر گذشتہ ماہ منعقد ہونے والی قومی امن کانفرنس اور کوئٹہ میں علمدار روڈپر ہونے والی پیام شہداء و اتحاد امت کانفرنس ہے جس میں مقررین نے کھل کر حکومت پر مذاکرات کے حوالے سےکڑی تنقید کی اور اسکو پاکستان کے آئین و دستور کی کھلی خلاف وزی قرار دیا۔ مقررین نےمذاکرات کے اعلان کو پاکستان کی محب وطن قوتوں کو دیوار سے لگانے کی مذموم سازش قرار دیا۔
اب حالات اور وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ حکومت ان مذاکرات کے خلاف اٹھنے والی آوازوں پر توجہ دے اور ان کے اعتراضات کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ محب وطن قوتیں حکومت کے خلاف نہ اٹھ کھڑ ی ہوں اور ملک پھر کسی بڑے سیاسی بحران کا شکار نہ ہو جائے ۔
اب غور طلب نقطہ یہ ہے کہ مذاکرات کی مخالفت کرنے والے اور مذاکرات کی حمایت کرنے والوں کا طالبان کے ساتھ تعلق یا ربط کی نوعیت کیسی اور کس طرح کی ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مذاکرات کی حمایت کرنے والے اکثرطالبان کی سوچ و فکر کے بہت قریب ہیں اور ان پر طالبان کی طرفداری کا الزام بھی اکثر لگتا رہتا ہے جو در حقیقت درست بھی ہے جبکہ مزاکرات کی مخالفت کرنے والوں میں وہ سب لوگ اور جماعتیں شامل ہیں جو طالبان کی دہشتگرد کارروئیوں کا مسلسل نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں اوران میں اکثریت شہداء کے خانوادوں کی ہے جو طالبان کے خلاف آپریشن کے مطالبہ کے حامی ہیں۔ میری ناقص رائے میں آپریشن کا مطالبہ کرنے والے حق بجانب ہیں کیونکہ حکومت نے ان لوگوں کو اعتماد میں بالکل نہیں لیا اور مذاکرات کا اعلان کر دیا اور ساتھ ساتھ جو حکومتی کمیٹی تشکیل دی وہ کسی طرح مظلوم پاکستان عوام کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ وہ تو طالبان کے ہمدرد اور مددگار افراد پر مشتمل ایک گروہ گردانا جاتا ہے اور یہ لوگ مختلف مواقع پر طالبان کی وکالت بھی کرتے رہے ہیں۔
اس نازک صورت حال میں طالبان کی سوچ کی عکاسی کرنے والے مطالبات اگر حکومت قبول کرتی ہے جو ممکن نظر نہیں آ رہا تو پھر طالبان کی طرف سے قتل کئے گئے افراد کے خاندانوں کے ساتھ ساتھ پر امن سنی ، شیعہ، عیسائی ، ہندو اور احمدیوں کا حکومت اور ریاست سے اعتماد اٹھ جائے گا جو ملک پاکستان کیلئے خدانخواستہ کسی بڑی مصیبت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ دہشتگردی سے متاثر افراد اور جماعتوں کو مکمل اعتماد میں لے کر مذاکرات کا فیصلہ کرتی اور مذاکراتی کمیٹی میں شامل افراد پر ان کے جائز اعتراضات کو دور کرتی۔ اب حالات اور وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ حکومت ان مذاکرات کے خلاف اٹھنے والی آوازوں پر توجہ دے اور ان کے اعتراضات کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ محب وطن قوتیں حکومت کے خلاف نہ اٹھ کھڑ ی ہوں اور ملک پھر کسی بڑے سیاسی بحران کا شکار نہ ہو جائے ۔