سب خیال اڑتے، بھاگتے، چلتے، رینگتے، گھسٹتے، اٹھتے، گرتے اور تیرتے ہوئے تمام تر ممکنہ تیزی سے اس کے دما غ میں گھس گئے۔ کھلا در اندر سے بند کر لیا گیااور پھر دماغ کی بندر بانٹ بڑی بے دریغی سے کی گئی۔ کچھ نے دیکھتے ہی دیکھتے کئی منزلہ عمارتیں کھڑی کر لیں؛ بڑی بڑٰی کھڑکیوں والی، جن کے رنگین شیشوں پر نظر نہیں ٹھرتی تھی۔ یہ سب ایک دوسرے کو خود سے کمتر سمجھتے تھے اور غرور کے مارے آپس میں بات نہیں کرتے تھے۔ ان عمارتوں میں موت جیسی خاموشی گونجتی اور کانوں کے پردے باہر کو کھنچ جاتے۔
رینگنے والے اور کمتر حیثیت کے خیالوں نے پہلے سے بنے، پرانے، اجاڑ بے سروسامان اور بےدر مکا نوں میں پناہ لی۔ اور جب خود کو محفوظ سمجھ لیا تو آہستہ آہستہ دہلیزوں پہ آ بیٹھے۔ ڈرتے ڈرتے ایک دوسرے سے بات بھی شروع کر دی۔ خیالوں کے پاس ایک ہی قصہ ہوتا ہے۔۔۔۔ اپنی پیدائیش کا، سو سب نے خود کو مرتبے میں بلند ثابت کرنے کے لیے اپنی جائے پیدائیش اور وجہِ نزول بیان کرنا شروع کر دی۔ سب اپنی اپنی ہانکنے لگے اور اپنا موقف پرزور انداز میں پیش کرنے کو آواز بلند کرتے گئے۔ ہوتے ہوتے سارے علاقے میں بند گلے اور ان سے برآمد ہونے والی بے معنی آوازیں ناچتی رہ گئیں، کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔
چند کاروباری خیالوں نے بازارسجا لیے اور ڈھیروں دکانیں اوپر نیچے رکھتے گئے۔ ( کچھ کے سرتو دماغ کی چھت کو چھوتے تھے)۔ کچھ دکانیں تازہ ہوا کے راستے پر بنا دی گئیں اور کچھ دماغ کا گند باہر پھینکنے والے نالے کو پاٹ کر تجاوزات کی شکل میں سر اٹھا ئے کھڑی ہو گئیں۔ دوکانوں میں ہر وہ سامان بھر دیا گیا جو شاید جان دے کے بھی سستا محسوس ہوتا۔ ( کم از کم بازار کا رش تو یہی کہتا تھا)۔ ناآسودہ خواہشوں کی سبیل، ٹوٹے ہوئے خوابوں کے مرتبان، کچلے ہوئے دلوں کی گل قند، روگی آنکھوں کا سرکس، مچلتی ہوئی اور تڑپ تڑپ کے روتی ہوئی، گزری جوانی کی معجونیں، دھندلاتے ہوئے ماضی کی عینکیں، بچپن کے جگنو۔۔۔ یہ سب اور ایسی بے شمار مصنوعات سے لدی پھندی دکانیں بہہ بہہ کر گلی میں آئیں اور گزرنے والے خیالوں کے راستے گم کر دیئے اور بنیئے خیالوں نے اپنا اپنا مال بیچنے کو ہر بھری ہوئی اور خالی دکان مچھلی منڈی میں بدل دی۔
زخمی خیالوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے ان پہ کچھ فرشتہ صورت خیالوں نے تجربات کے لیے قبضہ کر لیا۔ خیالوں کا خیال رکھنے والے خیال۔ ان کی قطع برید ،ترمیم اور تخفیف کے بعد انہیں نیا کر دینے والے خیال۔ خود کو باقیوں سے بہتر سمجھنے والے خیال۔۔۔ زخمی، خون تھوکتے، پر جلے، بدن جلے، بھولے ہوئے، گھن لگے، کوڑھی، شکستہ و بریدہ ان خیالوں کا ہسپتال قبرستان کے پاس بنایا گیا، تاکہ لاشیں لے جاتے ہوئے زیادہ محنت نہ کرنی پڑے۔ کیونکہ کوئی بھی خیال بیمار یا زخمی ہونے کے بعد زیادہ دیر بچ نہیں پاتا تھا۔لاکھوں میں کوئی ایک واقعہ ایسا ہو بھی جاتا تو مسیحا خیال اسے اپنی مرضی کی کانٹ چھانٹ سے نا قابلِ شناخت بنا دیتے۔ایسا کہ پھر انہیں ورثا بھی نہ پہچان پاتے۔ ورثا سے یاد آیا کہ وہ تو صرف زندہ خیالوں کے ہوتے ہیں۔ بیمار خیال کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے اور مرنے والے خیال کو کوئی اپنا نہیں کہتا۔ یہاں بھی بیمار، زخمی اور دکھی خیالوں کی آہ و پکار اور مسیحا خیالوں کی ڈانٹ پھٹکار کی آوازیں کان پھاڑ دینے کو آتیں۔
مگر یہ شورِ قیامت، قبرستان کی خاموشی سے ذرا کم جان لیوا تھا۔ نظر کی حد سے پرے تک پھیلا ہوا یہ قبرستان اتنا خاموش اور تاریک تھا کہ کوئی زندہ خیال اس میں چند قدم آگے تک جانے کا حوصلہ نہ کر پاتا۔ نئی قبریں بھی کنارے پر بنا دی جاتیں ۔قبرستان کا حجم بڑھتے بڑھتے ہر شے پر غالب آنے کو تھا۔ شنید ہے کہ وہاں ، قبرستان میں، کہیں اندر تاریکی میں کچھ ایسے خیال ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں، جو اگر سامنے آجائیں تو زندہ خیال خود کو موت کے پاس گروی رکھ آئیں۔ سب ان سے واقف ہیں مگر کوئی ان کی بات نہیں کرتا۔ اس قبرستان کے بارے میں واحد دلچسپ بات یہ ہے سب قبریں بے نام ہیں۔ مزار اور کتبے تو کیا کیسی پر اشک تک نہ بہائے گئے۔ قبرستان میں کبھی کوئی ہریاول نہیں دیکھی گئی لیکن جھینگر اتنے ہیں اور اتنا بولتے ہیں کہ ان کی اوازیں سیال خاموشی بن کے، بخارات کی صورت دماغ کو چڑھتی رہتی ہیں۔
مگر سب سے زیادہ شور مذہبی خیال مچا تے۔ کچھ بال کھولے، دھمالیں ڈالتے ہوئے اور کچھ مناظرے کرتے ہوئے۔ یہ سب خدا کے وجود پر بحثتے۔ ایک دوسرے کو اس کے ہونے کا یقین دلانے کو گلے پھاڑ لیتے مگر سنتا کوئی کسی کی نہ تھا۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والی بحث تھی۔ ( انھیں شاید خدا کے ہونے پر خود بھی یقیں نہ تھا، سو اپنی بے یقینی کے خلا کو آوازوں کی دُہرائی سے بھرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے)
ایک علاقہ ایسے خیالوں کا تھا جو نہ گھر بناتے تھے اور نہ بل۔ یہ خدا کے نہ ہونے کی بحث میں ایک دوسرے کے اورمیلوں تک رہنے والے دوسرے خیالوں کے کان کھاتے۔ (انہیں بھی شاید خدا کے نہ ہونے کا پکا اعتبار نہ تھا)
پھر ایک دن کیا کسی نے دماغ کا اندر سے بند دروازہ باہر کی طرف سے کھٹکھٹا نا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ دستک میں شدت آتی گئی، پہلے پہل خیال ذرا پریشان ہوئے اور پھر عادی ہو گئے اور اپنے کاموں میں پھر سے محو ہوتے گئے۔
رینگنے والے اور کمتر حیثیت کے خیالوں نے پہلے سے بنے، پرانے، اجاڑ بے سروسامان اور بےدر مکا نوں میں پناہ لی۔ اور جب خود کو محفوظ سمجھ لیا تو آہستہ آہستہ دہلیزوں پہ آ بیٹھے۔ ڈرتے ڈرتے ایک دوسرے سے بات بھی شروع کر دی۔ خیالوں کے پاس ایک ہی قصہ ہوتا ہے۔۔۔۔ اپنی پیدائیش کا، سو سب نے خود کو مرتبے میں بلند ثابت کرنے کے لیے اپنی جائے پیدائیش اور وجہِ نزول بیان کرنا شروع کر دی۔ سب اپنی اپنی ہانکنے لگے اور اپنا موقف پرزور انداز میں پیش کرنے کو آواز بلند کرتے گئے۔ ہوتے ہوتے سارے علاقے میں بند گلے اور ان سے برآمد ہونے والی بے معنی آوازیں ناچتی رہ گئیں، کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔
چند کاروباری خیالوں نے بازارسجا لیے اور ڈھیروں دکانیں اوپر نیچے رکھتے گئے۔ ( کچھ کے سرتو دماغ کی چھت کو چھوتے تھے)۔ کچھ دکانیں تازہ ہوا کے راستے پر بنا دی گئیں اور کچھ دماغ کا گند باہر پھینکنے والے نالے کو پاٹ کر تجاوزات کی شکل میں سر اٹھا ئے کھڑی ہو گئیں۔ دوکانوں میں ہر وہ سامان بھر دیا گیا جو شاید جان دے کے بھی سستا محسوس ہوتا۔ ( کم از کم بازار کا رش تو یہی کہتا تھا)۔ ناآسودہ خواہشوں کی سبیل، ٹوٹے ہوئے خوابوں کے مرتبان، کچلے ہوئے دلوں کی گل قند، روگی آنکھوں کا سرکس، مچلتی ہوئی اور تڑپ تڑپ کے روتی ہوئی، گزری جوانی کی معجونیں، دھندلاتے ہوئے ماضی کی عینکیں، بچپن کے جگنو۔۔۔ یہ سب اور ایسی بے شمار مصنوعات سے لدی پھندی دکانیں بہہ بہہ کر گلی میں آئیں اور گزرنے والے خیالوں کے راستے گم کر دیئے اور بنیئے خیالوں نے اپنا اپنا مال بیچنے کو ہر بھری ہوئی اور خالی دکان مچھلی منڈی میں بدل دی۔
زخمی خیالوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے ان پہ کچھ فرشتہ صورت خیالوں نے تجربات کے لیے قبضہ کر لیا۔ خیالوں کا خیال رکھنے والے خیال۔ ان کی قطع برید ،ترمیم اور تخفیف کے بعد انہیں نیا کر دینے والے خیال۔ خود کو باقیوں سے بہتر سمجھنے والے خیال۔۔۔ زخمی، خون تھوکتے، پر جلے، بدن جلے، بھولے ہوئے، گھن لگے، کوڑھی، شکستہ و بریدہ ان خیالوں کا ہسپتال قبرستان کے پاس بنایا گیا، تاکہ لاشیں لے جاتے ہوئے زیادہ محنت نہ کرنی پڑے۔ کیونکہ کوئی بھی خیال بیمار یا زخمی ہونے کے بعد زیادہ دیر بچ نہیں پاتا تھا۔لاکھوں میں کوئی ایک واقعہ ایسا ہو بھی جاتا تو مسیحا خیال اسے اپنی مرضی کی کانٹ چھانٹ سے نا قابلِ شناخت بنا دیتے۔ایسا کہ پھر انہیں ورثا بھی نہ پہچان پاتے۔ ورثا سے یاد آیا کہ وہ تو صرف زندہ خیالوں کے ہوتے ہیں۔ بیمار خیال کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے اور مرنے والے خیال کو کوئی اپنا نہیں کہتا۔ یہاں بھی بیمار، زخمی اور دکھی خیالوں کی آہ و پکار اور مسیحا خیالوں کی ڈانٹ پھٹکار کی آوازیں کان پھاڑ دینے کو آتیں۔
مگر یہ شورِ قیامت، قبرستان کی خاموشی سے ذرا کم جان لیوا تھا۔ نظر کی حد سے پرے تک پھیلا ہوا یہ قبرستان اتنا خاموش اور تاریک تھا کہ کوئی زندہ خیال اس میں چند قدم آگے تک جانے کا حوصلہ نہ کر پاتا۔ نئی قبریں بھی کنارے پر بنا دی جاتیں ۔قبرستان کا حجم بڑھتے بڑھتے ہر شے پر غالب آنے کو تھا۔ شنید ہے کہ وہاں ، قبرستان میں، کہیں اندر تاریکی میں کچھ ایسے خیال ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں، جو اگر سامنے آجائیں تو زندہ خیال خود کو موت کے پاس گروی رکھ آئیں۔ سب ان سے واقف ہیں مگر کوئی ان کی بات نہیں کرتا۔ اس قبرستان کے بارے میں واحد دلچسپ بات یہ ہے سب قبریں بے نام ہیں۔ مزار اور کتبے تو کیا کیسی پر اشک تک نہ بہائے گئے۔ قبرستان میں کبھی کوئی ہریاول نہیں دیکھی گئی لیکن جھینگر اتنے ہیں اور اتنا بولتے ہیں کہ ان کی اوازیں سیال خاموشی بن کے، بخارات کی صورت دماغ کو چڑھتی رہتی ہیں۔
مگر سب سے زیادہ شور مذہبی خیال مچا تے۔ کچھ بال کھولے، دھمالیں ڈالتے ہوئے اور کچھ مناظرے کرتے ہوئے۔ یہ سب خدا کے وجود پر بحثتے۔ ایک دوسرے کو اس کے ہونے کا یقین دلانے کو گلے پھاڑ لیتے مگر سنتا کوئی کسی کی نہ تھا۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والی بحث تھی۔ ( انھیں شاید خدا کے ہونے پر خود بھی یقیں نہ تھا، سو اپنی بے یقینی کے خلا کو آوازوں کی دُہرائی سے بھرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے)
ایک علاقہ ایسے خیالوں کا تھا جو نہ گھر بناتے تھے اور نہ بل۔ یہ خدا کے نہ ہونے کی بحث میں ایک دوسرے کے اورمیلوں تک رہنے والے دوسرے خیالوں کے کان کھاتے۔ (انہیں بھی شاید خدا کے نہ ہونے کا پکا اعتبار نہ تھا)
پھر ایک دن کیا کسی نے دماغ کا اندر سے بند دروازہ باہر کی طرف سے کھٹکھٹا نا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ دستک میں شدت آتی گئی، پہلے پہل خیال ذرا پریشان ہوئے اور پھر عادی ہو گئے اور اپنے کاموں میں پھر سے محو ہوتے گئے۔
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
ڈاکٹر نے میز پر سے کاغذ اٹھایا اور وارڈ بوائے کے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگا”یہ دوائیں مریض نمبر سینتالیس کو ابھی دینی ہیں، وہی جو اپنے سر کو بند دروازے کی طرح پیٹتا رہتا ہے۔” ڈاکٹر نے مزید وضاحت کی۔
Leave a Reply