ہم نے ایک عدد نوکری صرف اسی وجہ سے چھوڑی تھی کہ کل ملا کر 35 مردوزن کے لیے ایک عدد کموڈ سے مزین باتھ روم اور جون جولائی میں مسلم شاور سے کھولتا گرم پانی آیا کرتا تھا۔
اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ آپ کے لیے کون زیادہ اہم ہے محبوب یا باتھ روم؟ تو شاید ہر عقل مند و ذی ہوش شخص باتھ روم ہی کا نام لے گا۔اور جو باتھ روم کا نام نہیں بھی لے گا تو چنداں فکر نہیں باتھ روم اس سے اپنا آپ منوا ہی لے گا۔ ہم بھی ہمیشہ محبوب صاحب، ان کی کج ادائی، بےپروائی پر دکھ کی تصویر بنے پھرتے تھے، اس کے نظرانداز کرنے نیز بےوفائی کے خطرے کو سوہان روح بنائے ہر گھڑی غم و اندوہ کے بحربیکراں میں غوطے لگاتے پھرتے۔ اپنی کم عقلی و کم فہمی کا بھی اعتراف ہے کہ آج سے پہلے ہم بھی ایسے کسی سوال کے جواب میں محبوب کو ہی ترجیح دیتے کہ محبوب ساتھ ہو تو ساری دنیا باتھ روم ہے، یا دامن محبوب میسر ہو تو اس میں چھپ کر بھی رفع حاجت کی جاسکتی ہے یا پھر مجھ سے زمانہ سارا چھوٹے لیکن در محبوب نہ چھوٹے وغیرہم۔ لیکن بس کہتے ہیں نا کہ اونٹ کو پہاڑ تلے آنا ہی پڑتا ہے، یا بکری کی والدہ محترمہ کب تک خیر منائیں، جب حقیقت اپنی تلخی کے ساتھ وارد ہوتی ہے تو کہیں منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملتی۔ جناب عالی! ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا اور باتھ روم نے ہم سے اپنی اہمیت منواہی لی۔
ویسے تو ہم ہمیشہ ہی صاف ستھرے باتھ روم کے شائق رہے ہیں۔ تمام تر تخلیقی صلاحیتیں آرام دہ باتھ روم کی روشنی میں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ بہرحال تو ایک مختصر قصہ یہ بھی سہی کہ ہم نے ایک عدد نوکری صرف اسی وجہ سے چھوڑی تھی کہ کل ملا کر 35 مردوزن کے لیے ایک عدد کموڈ سے مزین باتھ روم اور جون جولائی میں مسلم شاور سے کھولتا گرم پانی آیا کرتا تھا۔ ایک ہفتے بنا کھائے پیے گزارا اور اگلے ہفتے پیمانہ/مثانہ ضبط لبریز ہونے پر استعفیٰ دے بیٹھے۔
صبح معمول کے مطابق اٹھے، منھ ہاتھ اور رسمی حوائج ضروریہ سے فراغت پا کر آفس وین میں سوار ہوئے۔ ایک گھنٹے کے راستے سے بس دس ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ گم صم سے پیٹ میں ایک بےچینی کی لہر اٹھی۔
اب جو داستان عبرت نشان آپ کو سنانے جارہے ہیں وہ یقینا ًبہت سوں کو اپنی کہانی معلوم ہوسکتی ہے۔ گزشتہ کئی روز سے محبوب کی لاپرواہیوں اور کج بحثیوں سے دلبرداشتہ اور زندگی سے بیزار تھے کسی کام میں جی نہ لگتا تھا، دنیا ٹوٹل ویران تھی۔ ایسے ایسے بےوفائیوں کے نادر و نایاب نغمات ہم خود بھی سن رہے تھے اور آتے جاتے ہر جگہ یہی درد بھرے نالے کان پڑ رہے تھے مانو سارے جہان کے ساتھ بےوفائی کا سانحہ پیش آچکا ہو۔ خیر ہمیں بس محبوب درکار تھااور دنیا سے مطلق سروکار نہ تھا۔ محبوب کےلیےسب عیش وآرام تیاگنے کو تیار بیٹھے تھےکہ باتھ روم صاحب نے ہوش و حواس کی دنیا میں لاکھڑا کیا۔
کافی دن سے قبض کی شکایت تھی لہذا گزشتہ رات دو عدد حکیمی گولیاں کھا کر استراحت فرمائی۔ صبح معمول کے مطابق اٹھے، منھ ہاتھ اور رسمی حوائج ضروریہ سے فراغت پا کر آفس وین میں سوار ہوئے۔ ایک گھنٹے کے راستے سے بس دس ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ گم صم سے پیٹ میں ایک بےچینی کی لہر اٹھی۔ پہلے پہل تو ہم بمطابق روٹین محبوب کی جدائی کا شاخسانہ سمجھ کر آنکھ میں آنسو بھر لائے۔مگر آنسو بھی ان پےدرپے امنڈتی درد بھری لہروں کو روکنے میں ناکام نظر آئے تو ہم رونا بھول گئے اور ایک انجانی فکر لاحق ہو گئی کہ کہیں یہ غم محبوب بقول میر تقی میر اشک کے بعد لہو کا متقاضی تو نہیں۔ خیر پندرہویں منٹ تک یہ لہریں پیٹ سے معدہ اور معدے سے اطراف و اکناف تک محو رقص ہو چکی تھیں۔ اٹھارہویں منٹ تک سارے پیٹ میں مچی دھماچوکڑی نے محبوب کے صدمے کو بھولنے پر مجبور کر دیا۔ بیسویں منٹ تک نہ صرف رقص میں تیزی آ چکی تھی بلکہ عجیب و غریب آوازوں نےموسیقی کا سماں باندھ دیا تھا۔ ہم حیران و پریشان کبھی خود پر ضبط کے پہرے بٹھاتے کبھی دزدیدہ نظروں سے وین میں موجود دیگر لوگوں کو دیکھتے جو ہماری حالت سے یکسر انجان بنے چاہتے تھے کہ ہم بھی ان کی خوش گپیوں پر قہقہے بلند کریں، جس کی فی الوقت ہم میں نہ تاب تھی نہ طاقت۔
آفس کا گیٹ نظر آتے ہی ہم جست لگا کر وین سے باہر نکلے اور اپنے دیرینہ رفیق، ہمدم، دمساز، غمگسار، جان بہاراں، رشک چمن، اور ازلی محبوب باتھ روم کی جانب دوڑے جس نے بالآخر آج ہم سے اپنی اہمیت منوا ہی لی تھی۔
ہائے ری محبت! تجھے چھپاتے چھپاتے عیاں بھی ہو جائیں تو بھی یہ حالت نہ ہو جو اس وقت “معاملہ” کھل جانے کے خوف سے ہم پر طاری تھی۔ کس چوراہے پر یہ عزت آن کھڑی ہوئی تھی۔ وین کے تیس منٹ گزرنے تک صورتحال اس حد تک عیاں تھی کہ ہم محبوب سے وابستہ تلخیاں بھلائےآبرو سے بقیہ راستہ کٹ جانے کے لیے دعاگو تھے۔ پیٹ سے اٹھتی درد کی جان لیوا ٹیسیں، عجیب و غریب آوازیں اور وہ رہ رہ کر اٹھتا “زور عشق باتھ روم”۔ خدا سے اگلے پچھلے سب گناہوں کی معافی مانگ چکے تھے۔ پینتیسویں منٹ تک توجہ بٹانے کے لیے عصمت چغتائی کو پڑھنے کی کوشش کی تو ان کے ہاں پہلے ہی “قدما” کے پوتڑے دھلے پڑے تھے۔ میوزک سننے کی کوشش میں تیز میوزک کی دھمک پیٹ کی دھمک کو مہمیز کردیتی تو غزل کی درد بھری پکار حواس کو بےحال کرتی۔ سیلف کنٹرول کھونے کا مقام نہ تھا، عمر بھر کی عزت داو پر لگی تھی۔ مرد حضرات کی طرح گاڑی رکوا کر سڑک پر فراغت کا بھی امکان نہ تھا۔
وین کے پینتالیسویں منٹ میں باتھ روم کی چاہت و شدت اس قدر بےتاب تھی کہ کیا کسی دوسرے عشق میں ہوئی ہوگی۔ اب ذہن عظیم لوگوں کی طرح اس مشکل سے ساری قوم کو نکالنے کے لیے ترکیبیں سوچنے بیٹھا۔ ہر گاڑی میں سیٹ کے اندر ہی ایک عدد باتھ روم پاکٹ بنوانے کی قرارداد پیش کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔ سینتالیسویں منٹ میں حکومت کی لاپروائی کو کوسا گیا جس نے پبلک باتھ روم کی سہولت ممکن نہیں بنائی۔ انچاسویں منٹ میں گاڑی رکوا کر کسی کا در کھٹکھٹا کر ہاتھ جوڑ کر درخواست کا سوچا جو پچاسویں منٹ پر یوں رد ہوگیا کہ چور ڈاکو کے ڈر سے آج کل لوگ گیٹ نہیں کھولتے۔ باونویں منٹ میں لوگوں کو وصیت کرنے کا سوچا کہ محبوب کے خطوط اور اس کی یادوں سے بڑھ کر اہم ہے ایک عدد “پیمپر” بیگ میں رکھنا نہ بھولیں کہ کراچی کا ٹریفک بھی بڑا خطرناک ہے۔ پچپنواں منٹ ایم اے جناح روڈ پر ٹریفک نہ ملنے کی منتوں مرادوں میں گزرا، اور پھرکہیں جا کر اس درد بھری رات کا سویرا ہوا۔ آفس کا گیٹ نظر آتے ہی ہم جست لگا کر وین سے باہر نکلے اور اپنے دیرینہ رفیق، ہمدم، دمساز، غمگسار، جان بہاراں، رشک چمن، اور ازلی محبوب باتھ روم کی جانب دوڑے جس نے بالآخر آج ہم سے اپنی اہمیت منوا ہی لی تھی۔
One Response
i really enjoyed it