محبت کے بغیر ایک نظم
بے وصل موسموں میں
بادلوں پر حاشیہ نہیں لگایا جا سکتا
اور بارشوں میں
کاغذ کی نظمیں نہیں لکھی جا سکتیں
بادلوں پر حاشیہ نہیں لگایا جا سکتا
اور بارشوں میں
کاغذ کی نظمیں نہیں لکھی جا سکتیں
بدن کا لباس پہنے بغیر
روح کو چھپانا
اور محبت کے بدون
دھوپ اور چھاؤں کو ایک ساتھ اوڑھنا ممکن نہیں
روح کو چھپانا
اور محبت کے بدون
دھوپ اور چھاؤں کو ایک ساتھ اوڑھنا ممکن نہیں
نقادوں کے قلم رو میں
پیدا ہوتے ہی
نظم کے سینے میں
اصطلاحات کا خنجر گھونپ دیا جاتا ہے
مصنوعی علامتوں اور استعاروں کے نام پر
ریت کے ایک ذرے کو صحرائے کبیر
درخت کو گوتم،
کھمبے کو خدا
اور گھونسلے کو پستان بنا کر
معنی کا سر قلم کر دیا جاتا ہے
پیدا ہوتے ہی
نظم کے سینے میں
اصطلاحات کا خنجر گھونپ دیا جاتا ہے
مصنوعی علامتوں اور استعاروں کے نام پر
ریت کے ایک ذرے کو صحرائے کبیر
درخت کو گوتم،
کھمبے کو خدا
اور گھونسلے کو پستان بنا کر
معنی کا سر قلم کر دیا جاتا ہے
سچ ہے
آسمان سے سفارتی تعلقات استوار کیے بِن
شاعری ہو سکتی ہے
نہ زمین پر رینگنے کے حقوق مِلتے ہیں!
آسمان سے سفارتی تعلقات استوار کیے بِن
شاعری ہو سکتی ہے
نہ زمین پر رینگنے کے حقوق مِلتے ہیں!
Leave a Reply