Laaltain

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے

16 فروری، 2015
“میں اپنے لیے جیون ساتھی خود تلاش کرنا چاہتا ہوں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسے کہاں ڈھونڈوں؟ یونیورسٹی میں ایک لڑکی سے پوچھا کہ کیا ہم ایک دوسرے کے ساتھ کچھ وقت گزار سکتے ہیں؟ جواباً نہ صرف اس نے مجھے سخت سست سنائیں بلکہ لڑکیوں میں مجھے چھچھورا مشہور کردیا۔ اپنے دفتر میں بھی ایک لڑکی پسند ہے مگر وہ میرے سلام کا جواب تک نہیں دیتی مزید بات کیا کروں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ منڈی کہاں لگتی ہے جہاں ہم اپنے لیے بر تلاش کرسکیں؟”
یہ المیہ پاکستان کے ایک ایسے نوجوان کا ہے جس نے ابھی پیشہ وارانہ زندگی میں قدم رکھا ہے۔ ان صاحب کے مطابق انہوں نے اپنے والدین سے خاصی بحث و تمحیص کے بعد انہیں قائل کر لیا ہے کہ وہ اپنی پسند کی کسی لڑکی سے شادی کریں گے جسے وہ اچھی طرح جانتے ہوں مگر وہ اپنی تلاش میں تاحال کامیاب نہیں ہوپائے۔
برصغیر میں محبت عام لوگوں کے لیے صدیوں سے شجر ممنوعہ رہی ہے، ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، آدم خان و درخانی، ہانی و شاہ مرید عشق کی سبھی داستانوں میں سماج نے محبت دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ اگرچہ بادشاہوں اور امرا کے حرم ہمیشہ آباد رہے ہیں لیکن شہزادے سلیم کی انارکلی کو بھی دیوار میں چنوا دیا گیا تھا۔ محبت کی کہانیاں ہر خطے اور ہر دور میں موجود رہی ہیں اور محبت کرنے والوں کی جدائی لوگوں کے دلوں میں گداز پیدا کرتی آئی ہے۔لیکن جدیدیت اور انفرادی آزادیوں کے تصورات کے پھیلاو کے ساتھ اب یہ چند افراد کی کہانی نہیں رہی بلکہ پاکستان کے اکثر نوجوانوں کا مسئلہ بن گیا ہے۔ جدید اور قدیم اخلاقیات کے انتخاب میں الجھی یہ تعلیم یافتہ نئی نسل اپنی زندگیوں کا ہر اہم فیصلہ خود کرنا چاہتی ہے مگر ان کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اکثر لڑکے اور لڑکیاں خود سے کسی ساتھی کی تلاش میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ مغربی معاشروں کی طرح پاکستان میں مخالف جنس سے براہ راست اظہار دلچسپی آسان نہیں۔ اس مرحلے کو عبور کرلینے والوں کی راہ بھی آسان نہیں ہوتی خاندانی، معاشرتی اور معاشی پس منظر کے جھگڑوں میں کئی محبتیں اور مطابقتیں دم توڑ دیتی ہیں۔
برصغیر میں محبت عام لوگوں کے لیے صدیوں سے شجر ممنوعہ رہی ہے، ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، آدم خان و درخانی، ہانی و شاہ مرید عشق کی سبھی داستانوں میں سماج نے محبت دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔
لاہور کی فارمن کرسچن کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل رابعہ کی کہانی ایسی ہی ہے۔ ان کی اپنے ہم جماعت علی سے دوستی قلبی رشتے میں بدل گئی اور دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا۔ ابتداً لڑکی کے والدین نے اس پر اعتراض نہیں کیا مگر اس بات کا علم ہونے پر کہ لڑکے کا تعلق کسی دوسرے فرقے سے ہے انہوں نے فوراً اس رشتے سے انکار کردیا۔ رابعہ نے دو سال تک اپنے لیے آنے والے ہر رشتے سے انکار کیا۔ مگر آخر کار والدین کی جذباتی دھمکیوں میں آکر گذشتہ برس دسمبر میں ان کی پسند کے لڑکے سے شادی کرلی۔اسلام آباد کے ایک سرکاری ادارے میں کام کرنے والے زمان کو بھی ان کی محبوبہ کے گھر والوں نے اس لیے رد کردیا کیونکہ ان کا تعلق اسماعیلی فرقے سے تھا۔ اب وہ عمر بھر شادی نہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اگرچہ وا بستگیوں اور معاشقوں کے قصے ہمارے ہاں بڑی دلچسپی سے نجی محفلوں میں بیان کیے جاتے ہیں لیکن ایک عمومی اندازے کے مطابق ایسے لوگوں کا تناسب خاصا کم ہے جنہیں اپنی پسند کے ساتھی کی تلاش اور شادی کے مراحل میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔
لاہور کے ایک معروف ٹیلیویژن چینل میں کام کرنے والی ماریہ اب تک اکیلی اس لیے ہے کیونکہ اسے اپنی پسند کا کوئی لڑکا نہیں ملا۔ اس کا کہنا ہے کہ میری سہیلیوں میں سے اکثریت اپنے کسی مرد دوست سے شادی کی خواہاں ہیں مگر اب تک جتنی سہیلیوں کی شادیاں ہوئیں وہ ان کے والدین کی پسند کے لڑکے سے ہوئی ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ لڑکا میری پسند کا ہو اور ہم میں ایک مطابقت ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم شادی سے پہلے ایک دوسرے کو جانتے ہوں مگر میں اس بات سے خائف ہوں کہ ہمارے ہاں ایسے تعلقات کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
سائنسی تحقیق کے مطابق قریبی خاندان میں شادیاں موروثی بیماریوں کے پھیلاو کا عام سبب ہیں اور مختلف نسلی پس منظر کے حامل جوڑے کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ نسبتاً بہتر جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔
مادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ سائنس کی بدولت معاشرتی اخلاقیات خاص کر جنسی اخلاقیات میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ کئی قدیم معاشروں میں آزادانہ جنسی اختلاط پر پابندی کی وجہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کی پرورش کا مناسب انتظام نہ ہونا تھا مگر مانع حمل ادویات اور اشیا کی ایجاد نے اس تصور کو راسخ قرار دے دیا۔ انہیں ایجادات کے بعد مغرب میں نئے جنسی رجحانات نے جنم لیا ۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ تبدیلی مثبت رہی یا منفی، اس نے لوگوں کو شادی سے پہلے اپنے ساتھی کی ہر ممکن جانچ پرکھ کی آزادی عطا کی۔
سائنسی تحقیق کے مطابق قریبی خاندان میں شادیاں موروثی بیماریوں کے پھیلاو کا عام سبب ہیں اور مختلف نسلی پس منظر کے حامل جوڑے کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ نسبتاً بہتر جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔
مردانہ برتری والے ہمارے معاشرے میں بظاہرایسا معلوم ہوتا ہے کہ لڑکیوں کو اپنے لیے کسی لڑکے کی تلاش میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا لیکن لڑکوں کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ لاہورکےمقامی کالج میں اردو کے استاد علی کو اپنی یونیورسٹی ہم جماعت سے شادی کرنے کے لیے کئی سال انتظار کرنا پڑا کیونکہ ان کے گھر والے اس رشتےکے لیے راضی نہیں ہورہے تھے۔ان کے دوست عبدالرحمان کے والدین نے ان کی شادی ان کی عم زاد سے طے کررکھی تھی جس نے مقامی کالج سے اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگری لی تھی اور سخت مذہبی نظریات کی حامل تھی جبکہ موصوف آزاد خیال واقع ہوئے تھے۔ اس رشتے کو ختم کرنے کے لیے انہیں خاصی مزاحمت کرنا پڑی۔
ویلنٹائن ڈے کے موقع پر جہاں لاہور، اسلام آباد اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں جوڑے زمانے کی نظروں سے بچ کر عہد و پیمان باندھ رہے ہیں تو اس موضوع پر مربوط اور جامع سماجی مکالمے کی ضرورت اور شدت سے محسوس ہونے لگتی ہے۔
اس سارے قصے کا ایک اور اہم پہلو طبقاتی تقسیم بھی رہا ہے۔ اشرافیہ میں مردوزن کے آزادانہ میل جول اور تعلقات خاصے عام رہے ہیں جبکہ دیہات اور پسماندہ علاقوں میں خاندانی روایات کے برعکس ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے والے جوڑے قتل ہوتے آئے ہیں۔ شہری و نیم شہری متوسط طبقات کی نئی نسل اپنے والدین اور نئی اقدار کے مابین بری طرح سے پھنسی نظر آتی ہے۔ ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ ایک خاص عمر کے بعد اکیلا پن انسان کی صلاحیتوں پر منفی اثر ڈالتا ہے جبکہ جوان افراد کی جذباتی او جسمانی ضروریات کی آسودگی ان کی کارکرگی پر مثبت طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔
ویلنٹائن ڈے کے موقع پر جہاں لاہور، اسلام آباد اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں جوڑے زمانے کی نظروں سے بچ کر عہد و پیمان باندھ رہے ہیں تو اس موضوع پر مربوط اور جامع سماجی مکالمے کی ضرورت اور شدت سے محسوس ہونے لگتی ہے۔ کیا محبت کرنا ہماری تہذیبی روایات سے متصادم ہے؟ اگر ایساہے تو اس تصادم میں ہمیں کس کا ساتھ دینا ہے؟ ان سوالات کے جوابات آج کے نوجوان کے جذباتی مسائل کا حل ثابت ہوسکتے ہیں۔ معاشرہ بھلے جو بھی کہتا رہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے۔

One Response

  1. Yar yeh to meray sath b huwa tha. Meray Ama Aba nahi manay. Magar koi proper channel nahi hay jis say him logon ko koi moka milay. Secondly, humari identity his din consolidated ho jay GE then we will be able to take the decision. Write now we are sandwiched in Indian, Arabian and western civilization/identity.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

  1. Yar yeh to meray sath b huwa tha. Meray Ama Aba nahi manay. Magar koi proper channel nahi hay jis say him logon ko koi moka milay. Secondly, humari identity his din consolidated ho jay GE then we will be able to take the decision. Write now we are sandwiched in Indian, Arabian and western civilization/identity.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *