Laaltain

مجھے آگ کے عذاب سے ڈر لگتا ہے

7 نومبر، 2014
Picture of حمیرہ اشرف

حمیرہ اشرف

ہر طرف لپکتی، لپلپاتی، شعلے برساتی اور دہکتی آگ تھی۔ لوگوں کی ایمان افروز پکاریں اور نعرہ تکبیر کی صدائیں۔ آج دینی جوش و جذبہ اپنے عروج پہ تھا۔ کیا پر نور سماں تھا، آج “حق” کو “باطل” پہ فتح حاصل ہونے کوتھی۔ اہل ایمان کا جمگھٹا بڑھتا ہی جارہا تھا،چار اطراف جدھر نظریں دوڑائیے پگڑیوں، عماموں اور ٹوپیوں والےسر ہی سر تھے۔ سبھی اپنے اپنے گناہ دھونے یہاں موجود تھے۔ اور پھراپنے گناہوں سے نجات کا ایسا نادر موقع شاید ہی کبھی مل پاتا، کم سے کم انہیں یہی بتایا گیا تھا، لاوڈ سپیکر پر ان کے امام کی جانب سے۔
ایک جانی پہچانی حدت محسوس کرتے ہوئے خون سے آلودہ چپکتی آنکھیں بمشکل کھول کر اس نے ایک آخری کوشش کے طور پر ہجوم پر ایک نظر دوڑائی اور رحم کی بھیک مانگی۔ نگاہوں کے سامنے بھڑکتی اینٹوں کی بھٹی تھی اور اردگرد بھڑکتا ہجوم۔ یا خدا! دل سے بے اختیار پکار اٹھی تھی۔مگر خدا خاموش تھا۔ خدا کو وہاں موجود ہونے کی ضرورت بھی نہیں تھی، لوگوں کے دلوں میں خدا کی محبت اس شدت سے موجود تھی کہ خدا کے وہاں ٹھہرنے کی گنجائش نہیں تھی۔کم سے کم انہیں آج تک یہی سکھایا گیا تھا خدا سے محبت کے اظہار کے لئے کسی کی جان لینے یا اپنی جان دینے کے سوا انہیں کوئی تیسرا راستہ نہیں بتایا گیا تھا۔ زندہ رہنے اور زندگی گزارنے کا راستہ بھلا کر محض یہ بتایا گیا تھا کہ جان لینے اور دینے سے بڑھ کر خدا کے ہاں مقبولیت کا کوئی اور معیار نہیں۔
تڑپ کر خود کو چھڑانے اور وہاں سے بھاگ نکلنے کی آخری کوشش بھی بے سود ثابت ہوئی اور اسے اور اس کے شوہر کو دہکتی بھٹی میں دھکیل دیا گیا،شعلوں کی پیاسی زبانوں کو جیسے قرار مل گیا۔ پلک جھپکتے ہی دونوں جسموں کو شعلوں نے ڈھانپ لیا۔ آگ کی سرخی اب اور بھی گہری تھی، ماحول گوشت کے جلنے کی بو سے بوجھل فضا اہل ایمان کے لیے اب معطر تھی۔ ہلچل کی جگہ اب سکون کا راج تھا۔
وہ تین لوگ جل کر مٹ گئے تھے۔ تین؟ ہاں وہ تین لوگ، شہزاد، شمع اور شمع کے بطن میں سانس لیتی ایک ننھی بےگناہ جان۔ نہیں وہ ننھی جان بھی گناہ گار ہی تھی۔ وہ بے گناہ ہوتی تو یہ شعلے نمرود کی بھڑکائی آگ کی طرح سرد نہ ہو جاتے؟ اور تو اور یہ اینٹوں کی بھٹی بھی انسانوں کی طرح ہی بے مروت نکلی تمام ععمر کے ساتھ کا بھی لحاظ نا کیا اور ان کو نگل گئی۔
چشم تصور گزشتہ دو دن سے یہی منظر دکھارہی ہے اور دل ان گناہ گاروں کے گناہ پہ گریہ کناں۔ کیا تھا جو وہ بدبخت شمع ہی کچھ پڑھی لکھی ہوتی، کم از کم اسے یہ اندازہ تو ہوتا کہ وہ جو جلانے جا رہی ہے وہ ردی کے ٹکڑے نہیں خود اس کا اپنا نصیب ہے۔ وہ ناہنجار شہزاد، جو کسی شاہ کا زائیدہ نہیں ایک مزدور کی اولاد تھا۔ افلاس کا مارا۔ اسے ضرورت ہی کیا تھا کسی جھگڑے میں پڑنے کی، سر جھکا کے کرتا رہتا اپنا کام۔ مٹی کا کیڑا مٹی میں سر چھپائے پڑا رہے تو بچا رہتا ہے سر اٹھائے تو سر کچل ہی دیا جاتا ہے۔ اس نے سر اٹھایا بھی تو کس کے سامنے، اپنے مالک کے! مالک جو زمینی خدا اور زمین پہ خدا کا روپ ہوتا ہے۔ خدا سے الجھنے کا تو یہی انجام ہوتا ہے۔ ضرور ان تین بچوں کا قصور تھا جو وہ اقلیتی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اب جھیلتے رہیں یتیمی کا عذاب۔
میں کیوں سوچے جا رہی ہوں ان کے بارے میں۔ مجھے تو آگ کے عذاب سے خوف آتا ہے۔ اب میں ایسی بھی بے وقوف نہیں جو شمع اور شہزاد کا نوحہ لکھوں، زور قلم اس بات پہ صرف کروں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ نہیں نہیں وہ سن لیں گے، وہ دیکھ لیں گے۔ میرے بھی آگے اولاد ہے۔ میں کیا جانوں ابھی ان کا جذبہ ایمانی سرد نہ ہوا ہو اورکچھ شرارے باقی ہوں۔ اور میں بھی تو اہل ایمان میں سے ہی ہوں۔ شمع اور شہزاد جیسوں کے لیے آواز اٹھانے پر خدا کے بندوں نے مجھے معاف نا کیا تو؟ قیامت سے قبل ہی دوزخ کا دہکتا عذاب کون برداشت کر سکتا ہے۔ نہیں!مجھے نا دنیا میں جلنا ہے نا آخرت میں، لہذا عافیت اسی میں ہی ہے کہ آنکھ ، کان اور زبان بند ہی رکھےجائیں، کیوں کہ مجھے آگ سے اور آگ میں جلنے کے عذاب سے خوف آتا ہے۔

10 Responses

  1. خوبصورت تحریر
    ذہن و دل بھی اسی آگ کی شدت محسوس کررہے ہیں جو بھٹی میں دہکتے مجبور و بےبس جسموں اور اقلیت کی صورت میں موجود انسانوں کو اپنی گرمی میں خاکستر کرتے ہوئے دنیا کے کچھ الگ ہی دستور سکھا رہے تھے نئے سبق سکھا رہے تھے اور ہم وطن ہوتے ہوئے بھی بے وطنی کی بے چارگی کیا ہوتی ہے جتا رہے تھے
    غم سے بھری تحریر
    مگر آپ سہی کہتی ہیں ہم کچھ کیوں کہیں ہم تو اسلام کا پرچار کرتے ہیں خدا کی محبت میں ڈوبے ہیں ہمیں تو آگ کے عذاب سے ڈر لگتا ہے ۔
    ۔
    کچھ کہنے کا وقت نہیں
    کچھ نا کہو خاموش رہو

  2. میں اس واقع کو مذہبی رنگ میں دیکھتا ہی نہیں ہوں ہاں مگر ذاتی تصادم کو نام نہاد مسلمانوں کے بنائے گئے ایک ایسے قانوں کا سہارا دیا گیا جو کبھی خود میں مکمل ہی نہیں مطلب یہ کہ الزام لگانے والا یہ ثابت ہی نہیں کرسکتا ہے کہ توہین رسالت ہوئی ہے یا نہیں جج کبھی اسکی حقیقت کو پہنچ ہی نہیں سکتے ہیں ۔

    کیا چند مقدس قدیم کاغذ کے چند ٹکرے کسی کی زندگی سے انتے اہم ہوگئے کہ انکو زندہ جلا دیا جائے ۔ کیا وہ کتاب مسلمانوں کو یہ دردس دے رہی ہے؟ نہیں ایسا درس کسی بھی مذہبی کتاب کا ہوہی نہیں سکتا ہے ۔ یہ صرف جذابات و مذہبی جنونی حرکت کا ثبوت ہے ۔
    یہ اقلیت لفظ کسی بھی مہذہب معاشرے کے لئے گالی سے زیادہ کچھ نہیں ، اقلیت نہیں ، انسان کہئے ، پاکستانی کہئے ۔ اس حوفناک واقع کو لے کر ہمارے لکھے گئے لاکھوں لفظ ، کہئے گئے کڑوڑں لفظ ان معصوم دو انسانوں کی ایک پکار کا بھی بدلہ نہیں جو اس وقت جنونی لوگوں سے زندگی کی بھیک مانگ رہے ہونگے ۔
    جنونی لفظ بہت جھوٹا ہے انکی اس خوفناک حرکت کے سامنے ، درندگی کہنا مجھے پسند نہیں کیوںکہ درندہ کبھی اسطرح نہیں کرتا ہے وہ بھی اپنے دارئرے اخلاق میں رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  3. ماشاء اللہ زور قلم بہت خوب ہے اور پرواز تخیل و صلاحیت تخلیق بھی بہ صد پیروزی کلک قلم سے صادر ہوئی ہے. آفریدگار ہست و بود زود افزوں اضافہ فرمائے.
    موضوع مقاله ہرچند کہ دلخراش و اضمحلال کیش ہے پر بانگ احتجاج و ابتذال تفکر اہل حل و عقد وظیفه کفائئ اہل دانش ہے جو مؤلفه نے بخوبی ادا کیا ہے.
    مذہبی جنونیت کے بڑھتے گھنگور تاریک سائے سماج کی نیو منہدم کرنے پر مصر ہیں کہ جن کی آب پاشی کبھی ہم نے برائے ستیزہ کاری کی تهی بیرونی ایما اور ٹکوں کے عوض. قرین قیاس ہے کہ یہ حدت ایمانی اور اشتیاق بہشت روئے زمین کو گورستان میں تبدیل نہ کر دے اور سوئے خلد سفر کی مفت خدمات نہ فراہم کرنے لگے.
    خدام خداوندِ متعال گو کہ خودساخته مدعی ہیں تاہم حقیقت امر یہ ہے کہ ان کا خدا یا خداساختہ کسی شے سے دور پرے کا بهی واسطہ نہیں یہ حرص و ہوس اور طمع و لالچ کی آتش شعلہ زن میں جلنے والے اسفل السافلین ہیں.
    ریاست، سرکار اور سماج کی سطح پر ایسے فتنہ پرور درندوں کی سرکوبی اور حوصلہ شکنی واحد مسیر سد باب ہے جو اجتماعی ذمہ داری بھی ہے مگر اس سے پیشتر فکر کو میزان عدالت کا قائل اور عمل کو انصاف کی روش پر گامزن کیا جانے کا پیمان مصمم کیا جانا چاہیئے.

  4. ماشاء اللہ زور قلم بہت خوب ہے اور پرواز تخیل و صلاحیت تخلیق بھی بہ صد پیروزی کلک قلم سے صادر ہوئی ہے. آفریدگار ہست و بود زود افزوں اضافہ فرمائے.
    موضوع مقاله ہرچند کہ دلخراش و اضمحلال کیش ہے پر بانگ احتجاج و ابتذال تفکر اہل حل و عقد وظیفه کفائئ اہل دانش ہے جو مؤلفه نے بخوبی ادا کیا ہے.
    مذہبی جنونیت کے بڑھتے گھنگور تاریک سائے سماج کی نیو منہدم کرنے پر مصر ہیں کہ جن کی آب پاشی کبھی ہم نے برائے ستیزہ کاری کی تهی بیرونی ایما اور ٹکوں کے عوض. قرین قیاس ہے کہ یہ حدت ایمانی اور اشتیاق بہشت روئے زمین کو گورستان میں تبدیل نہ کر دے اور سوئے خلد سفر کی مفت خدمات نہ فراہم کرنے لگے.
    خدام خداوندِ متعال گو کہ خودساخته مدعی ہیں تاہم حقیقت امر یہ ہے کہ ان کا خدا یا خداساختہ کسی شے سے دور پرے کا بهی واسطہ نہیں یہ حرص و ہوس اور طمع و لالچ کی آتش شعلہ زن میں جلنے والے اسفل السافلین ہیں.
    کسے خبر تهی کہ لے کر چراغ مصطفوی
    جہاں میں آگ لگاتی پهرے گی بولہبی
    ریاست، سرکار اور سماج کی سطح پر ایسے فتنہ پرور درندوں کی سرکوبی اور حوصلہ شکنی واحد مسیر سد باب ہے جو اجتماعی ذمہ داری بھی ہے مگر اس سے پیشتر فکر کو میزان عدالت کا قائل اور عمل کو انصاف کی روش پر گامزن کیا جانے کا پیمان مصمم کیا جانا چاہیئے.

  5. Khub tehreer kia hai. Kaash iss ka asr zehr ki trah mujrimon ko jsm mein utr jye khasoosun unn loudspeaker par eilaan krne walay molvion pe.

  6. تمام انسانوں میں جو کوئی بھی . . . . . . . . . . . خالق کائنات پر ایمان رکھتا ہو اور نیک عمل کرتا ہو . . . . . . . وہ مومن اور مسلم ہے . . .(2:62) . . . .

    لیکن انسانی لکھی ہوئی صحیح حدیث نے خود کو ہی مسلم کہا ہے . . . . . اور دوسروں کو کافر .
    جب کہ ایسی سوچ والے خود ہی شرک کرنے والے ہیں .

    ہر امت كے پاس اپنی اپنی دین کی الہامی کتاب ہے .
    اور یہ سب قرآن ہی ہیں . . . . . . اگر ہر کوئی اپنی اپنی دین کی کتاب کی پیروی کرے تو وہ مومن ہے اور دنیا میں امن قائم ہو جائے . . . . . . اور ایسے سب لوگ جنت میں جائیں گے .

    یہ ہے قرآن میں بیان کر دا حقیقت . . . . . . . . . . . . .
    ہمارے دین کو کتنا بَدَل دیا گیا ہے . . . . . . . . . پوری امت کو نابینا بنا دیا گیا ہے . . . . افسوس
    ========================================

    قرآن میں ” توہین رسالت اور قرآن ” کی کوئی سزا نہیں .
    ایسا صرف اِس امت كے جاہل علماء کہتے اور نابینا لوگ مانتے ہیں

  7. درست فرمایا آپ نے جناب۔ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج دین پر مولویانہ قبضے کا تدارک ہم نے نہیں کیا تو مجھے ڈر ہے کہ کل ہم یہ ہی ڈھونڈتے رہ جائیں گے کہ اصل دین کیا تھا۔ ساتھ ہی یہ کہ دیگر مذاہب اور اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اسی طرح خدا کی مخلوق ہیں اور درد و کرب کا احساس رکھتے ہیں جیسے تمام مسلمان، لہذا صرف عقائد اور سوچ کے فرق سے کسی کو واجب القتل قرار دینا عین جبر و زیادتی ہے جب کہ ہمارا دین کہتا ہے کہ ۔۔۔دین میں جبر نہیں۔۔۔ تو ہم یہ سب کیا کر رہے ہیں۔

  8. Assalm o Alaikum wa Rahmatullah wa brakatoho
    Muhtram shaikh sahib!
    I am student of Islamic Studies in Sargodha University.My topic of my thesis is “Punjab maen Uloom ul Quran wa Tafseer per ghair matboa Urdu mwad” please guide me and send me the relavant material for said topic.I will be thankful to you for this kind of act and I will pray for your forgiveness.
    your Islamic brother Rafi ud Din 03336750546,03016998303 email drfi@ymail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

10 Responses

  1. خوبصورت تحریر
    ذہن و دل بھی اسی آگ کی شدت محسوس کررہے ہیں جو بھٹی میں دہکتے مجبور و بےبس جسموں اور اقلیت کی صورت میں موجود انسانوں کو اپنی گرمی میں خاکستر کرتے ہوئے دنیا کے کچھ الگ ہی دستور سکھا رہے تھے نئے سبق سکھا رہے تھے اور ہم وطن ہوتے ہوئے بھی بے وطنی کی بے چارگی کیا ہوتی ہے جتا رہے تھے
    غم سے بھری تحریر
    مگر آپ سہی کہتی ہیں ہم کچھ کیوں کہیں ہم تو اسلام کا پرچار کرتے ہیں خدا کی محبت میں ڈوبے ہیں ہمیں تو آگ کے عذاب سے ڈر لگتا ہے ۔
    ۔
    کچھ کہنے کا وقت نہیں
    کچھ نا کہو خاموش رہو

  2. میں اس واقع کو مذہبی رنگ میں دیکھتا ہی نہیں ہوں ہاں مگر ذاتی تصادم کو نام نہاد مسلمانوں کے بنائے گئے ایک ایسے قانوں کا سہارا دیا گیا جو کبھی خود میں مکمل ہی نہیں مطلب یہ کہ الزام لگانے والا یہ ثابت ہی نہیں کرسکتا ہے کہ توہین رسالت ہوئی ہے یا نہیں جج کبھی اسکی حقیقت کو پہنچ ہی نہیں سکتے ہیں ۔

    کیا چند مقدس قدیم کاغذ کے چند ٹکرے کسی کی زندگی سے انتے اہم ہوگئے کہ انکو زندہ جلا دیا جائے ۔ کیا وہ کتاب مسلمانوں کو یہ دردس دے رہی ہے؟ نہیں ایسا درس کسی بھی مذہبی کتاب کا ہوہی نہیں سکتا ہے ۔ یہ صرف جذابات و مذہبی جنونی حرکت کا ثبوت ہے ۔
    یہ اقلیت لفظ کسی بھی مہذہب معاشرے کے لئے گالی سے زیادہ کچھ نہیں ، اقلیت نہیں ، انسان کہئے ، پاکستانی کہئے ۔ اس حوفناک واقع کو لے کر ہمارے لکھے گئے لاکھوں لفظ ، کہئے گئے کڑوڑں لفظ ان معصوم دو انسانوں کی ایک پکار کا بھی بدلہ نہیں جو اس وقت جنونی لوگوں سے زندگی کی بھیک مانگ رہے ہونگے ۔
    جنونی لفظ بہت جھوٹا ہے انکی اس خوفناک حرکت کے سامنے ، درندگی کہنا مجھے پسند نہیں کیوںکہ درندہ کبھی اسطرح نہیں کرتا ہے وہ بھی اپنے دارئرے اخلاق میں رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  3. ماشاء اللہ زور قلم بہت خوب ہے اور پرواز تخیل و صلاحیت تخلیق بھی بہ صد پیروزی کلک قلم سے صادر ہوئی ہے. آفریدگار ہست و بود زود افزوں اضافہ فرمائے.
    موضوع مقاله ہرچند کہ دلخراش و اضمحلال کیش ہے پر بانگ احتجاج و ابتذال تفکر اہل حل و عقد وظیفه کفائئ اہل دانش ہے جو مؤلفه نے بخوبی ادا کیا ہے.
    مذہبی جنونیت کے بڑھتے گھنگور تاریک سائے سماج کی نیو منہدم کرنے پر مصر ہیں کہ جن کی آب پاشی کبھی ہم نے برائے ستیزہ کاری کی تهی بیرونی ایما اور ٹکوں کے عوض. قرین قیاس ہے کہ یہ حدت ایمانی اور اشتیاق بہشت روئے زمین کو گورستان میں تبدیل نہ کر دے اور سوئے خلد سفر کی مفت خدمات نہ فراہم کرنے لگے.
    خدام خداوندِ متعال گو کہ خودساخته مدعی ہیں تاہم حقیقت امر یہ ہے کہ ان کا خدا یا خداساختہ کسی شے سے دور پرے کا بهی واسطہ نہیں یہ حرص و ہوس اور طمع و لالچ کی آتش شعلہ زن میں جلنے والے اسفل السافلین ہیں.
    ریاست، سرکار اور سماج کی سطح پر ایسے فتنہ پرور درندوں کی سرکوبی اور حوصلہ شکنی واحد مسیر سد باب ہے جو اجتماعی ذمہ داری بھی ہے مگر اس سے پیشتر فکر کو میزان عدالت کا قائل اور عمل کو انصاف کی روش پر گامزن کیا جانے کا پیمان مصمم کیا جانا چاہیئے.

  4. ماشاء اللہ زور قلم بہت خوب ہے اور پرواز تخیل و صلاحیت تخلیق بھی بہ صد پیروزی کلک قلم سے صادر ہوئی ہے. آفریدگار ہست و بود زود افزوں اضافہ فرمائے.
    موضوع مقاله ہرچند کہ دلخراش و اضمحلال کیش ہے پر بانگ احتجاج و ابتذال تفکر اہل حل و عقد وظیفه کفائئ اہل دانش ہے جو مؤلفه نے بخوبی ادا کیا ہے.
    مذہبی جنونیت کے بڑھتے گھنگور تاریک سائے سماج کی نیو منہدم کرنے پر مصر ہیں کہ جن کی آب پاشی کبھی ہم نے برائے ستیزہ کاری کی تهی بیرونی ایما اور ٹکوں کے عوض. قرین قیاس ہے کہ یہ حدت ایمانی اور اشتیاق بہشت روئے زمین کو گورستان میں تبدیل نہ کر دے اور سوئے خلد سفر کی مفت خدمات نہ فراہم کرنے لگے.
    خدام خداوندِ متعال گو کہ خودساخته مدعی ہیں تاہم حقیقت امر یہ ہے کہ ان کا خدا یا خداساختہ کسی شے سے دور پرے کا بهی واسطہ نہیں یہ حرص و ہوس اور طمع و لالچ کی آتش شعلہ زن میں جلنے والے اسفل السافلین ہیں.
    کسے خبر تهی کہ لے کر چراغ مصطفوی
    جہاں میں آگ لگاتی پهرے گی بولہبی
    ریاست، سرکار اور سماج کی سطح پر ایسے فتنہ پرور درندوں کی سرکوبی اور حوصلہ شکنی واحد مسیر سد باب ہے جو اجتماعی ذمہ داری بھی ہے مگر اس سے پیشتر فکر کو میزان عدالت کا قائل اور عمل کو انصاف کی روش پر گامزن کیا جانے کا پیمان مصمم کیا جانا چاہیئے.

  5. Khub tehreer kia hai. Kaash iss ka asr zehr ki trah mujrimon ko jsm mein utr jye khasoosun unn loudspeaker par eilaan krne walay molvion pe.

  6. تمام انسانوں میں جو کوئی بھی . . . . . . . . . . . خالق کائنات پر ایمان رکھتا ہو اور نیک عمل کرتا ہو . . . . . . . وہ مومن اور مسلم ہے . . .(2:62) . . . .

    لیکن انسانی لکھی ہوئی صحیح حدیث نے خود کو ہی مسلم کہا ہے . . . . . اور دوسروں کو کافر .
    جب کہ ایسی سوچ والے خود ہی شرک کرنے والے ہیں .

    ہر امت كے پاس اپنی اپنی دین کی الہامی کتاب ہے .
    اور یہ سب قرآن ہی ہیں . . . . . . اگر ہر کوئی اپنی اپنی دین کی کتاب کی پیروی کرے تو وہ مومن ہے اور دنیا میں امن قائم ہو جائے . . . . . . اور ایسے سب لوگ جنت میں جائیں گے .

    یہ ہے قرآن میں بیان کر دا حقیقت . . . . . . . . . . . . .
    ہمارے دین کو کتنا بَدَل دیا گیا ہے . . . . . . . . . پوری امت کو نابینا بنا دیا گیا ہے . . . . افسوس
    ========================================

    قرآن میں ” توہین رسالت اور قرآن ” کی کوئی سزا نہیں .
    ایسا صرف اِس امت كے جاہل علماء کہتے اور نابینا لوگ مانتے ہیں

  7. درست فرمایا آپ نے جناب۔ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج دین پر مولویانہ قبضے کا تدارک ہم نے نہیں کیا تو مجھے ڈر ہے کہ کل ہم یہ ہی ڈھونڈتے رہ جائیں گے کہ اصل دین کیا تھا۔ ساتھ ہی یہ کہ دیگر مذاہب اور اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اسی طرح خدا کی مخلوق ہیں اور درد و کرب کا احساس رکھتے ہیں جیسے تمام مسلمان، لہذا صرف عقائد اور سوچ کے فرق سے کسی کو واجب القتل قرار دینا عین جبر و زیادتی ہے جب کہ ہمارا دین کہتا ہے کہ ۔۔۔دین میں جبر نہیں۔۔۔ تو ہم یہ سب کیا کر رہے ہیں۔

  8. Assalm o Alaikum wa Rahmatullah wa brakatoho
    Muhtram shaikh sahib!
    I am student of Islamic Studies in Sargodha University.My topic of my thesis is “Punjab maen Uloom ul Quran wa Tafseer per ghair matboa Urdu mwad” please guide me and send me the relavant material for said topic.I will be thankful to you for this kind of act and I will pray for your forgiveness.
    your Islamic brother Rafi ud Din 03336750546,03016998303 email drfi@ymail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *