“مبارک ہو، مبارک ہو” یہ وہ الفاظ تھے جنہوں نے ایک لمحے کے لیے قطار میں لگے ہر فرد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی ۔ چند چہروں پہ خفگی اور کوفت کے آثار بھی نمایاں تھے، شاید انہیں اس شخص سے کچھ حسد محسوس ہونے لگا تھا جسے مبارک باد دی جا رہی تھی اور یقیناًحسد ہونا بھی چاہیے تھا کیوں کہ اس شخص نے معرکہ ہی ایسا سر کیا تھا جس پہ وہ واقعی مبارکباد کا مستحق تھا۔ مبارکباد سمیٹتا ہوا وہ شخص فخر سے سینہ تان کر ہجوم سے نکلا اور فاتحانہ انداز میں نظروں سے اوجھل ہو گیا اور باقی ہجوم پھر قطار کی طرف متوجہ ہو گیا۔ مبارکبادوصول کر نے والا جوجوان پورے 12لیٹر پٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس ہجوم میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے کسی کو ایک بوتل سے زیادہ پٹرول لے جاتے دیکھا ہو اور اس بحرانی کیفیت میں پٹرول کا مل جانا یقیناًایک نادر منظر تھا۔
پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں قطاروں میں لگے رہنے کا منظر کئی روز سے مسلسل دیکھا جا رہا ہے۔ نہ جانے ہم کیسی قوم ہیں جو اپنے حقوق بھی قطاروں میں لگ کر حاصل کرنے پر خوشی و طمانیت محسوس کرتے ہیں۔عوام پیسے ہاتھ میں لیے ماری ماری پھرتی ہے لیکن پٹرول نہیں ملتا۔ گیس کے بل باقاعدگی کے ساتھ ہر مہینے ادا کیے جارہے ہیں لیکن گیس کی فراہمی معطل ہے۔ بجلی کے ماہانہ بلوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے لیکن بارہ سے چودہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ بھی معمول ہے۔ ہم اپنا غصہ محض حکومت کو گالیاں دے کر اور برا بھلا کہہ کر نکال لیتے ہیں ۔ہم یہ سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ گالی سے حکومت کا نہ کچھ بگڑے گا نہ ہی حقوق کے حصول میں مدد ملے گی،یہ تو صرف اندر کا غصہ ہے جو گالی کی صورت میں باہر آ جاتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 12گھنٹے سے بھی تجاوز کر گیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم ان سیاستدانوں کے خلاف احتجاج کرنے کو تیار نہیں جو بجلی کی فراہمی کے وعدے پر اقتدار میں آئے ہیں ۔ہم میں شاید سوال کرنے کی طاقت نہیں رہی یا ہم نے منافقت کا ایسا لبادہ اوڑھ لیا ہے جس کی وجہ سے ہم چشم پوشی کو ہی سب سے بہترین اور کارگر ہتھیار سمجھتے ہیں۔
پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں قطاروں میں لگے رہنے کا منظر کئی روز سے مسلسل دیکھا جا رہا ہے۔ نہ جانے ہم کیسی قوم ہیں جو اپنے حقوق بھی قطاروں میں لگ کر حاصل کرنے پر خوشی و طمانیت محسوس کرتے ہیں۔عوام پیسے ہاتھ میں لیے ماری ماری پھرتی ہے لیکن پٹرول نہیں ملتا۔ گیس کے بل باقاعدگی کے ساتھ ہر مہینے ادا کیے جارہے ہیں لیکن گیس کی فراہمی معطل ہے۔ بجلی کے ماہانہ بلوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے لیکن بارہ سے چودہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ بھی معمول ہے۔ ہم اپنا غصہ محض حکومت کو گالیاں دے کر اور برا بھلا کہہ کر نکال لیتے ہیں ۔ہم یہ سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ گالی سے حکومت کا نہ کچھ بگڑے گا نہ ہی حقوق کے حصول میں مدد ملے گی،یہ تو صرف اندر کا غصہ ہے جو گالی کی صورت میں باہر آ جاتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 12گھنٹے سے بھی تجاوز کر گیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم ان سیاستدانوں کے خلاف احتجاج کرنے کو تیار نہیں جو بجلی کی فراہمی کے وعدے پر اقتدار میں آئے ہیں ۔ہم میں شاید سوال کرنے کی طاقت نہیں رہی یا ہم نے منافقت کا ایسا لبادہ اوڑھ لیا ہے جس کی وجہ سے ہم چشم پوشی کو ہی سب سے بہترین اور کارگر ہتھیار سمجھتے ہیں۔
ہم کسی کے “تو “کہہ دینے کو تو اپنی ذلت تصور کرتے ہیں لیکن گھنٹوں گرم سرد سے بے نیاز پٹرول اورسی این جی خریدنے کے لیے قطار میں کھڑے ہونے کو اپنی ذلت تصور نہیں کرتے۔
میرے ایک بزرگ کہتے ہیں کہ پٹرول کا موجودہ بحران اگر ایک ہفتہ مزید جاری رہا تو قوم اشرافیہ یا برائے نام اشرافیہ کے محلات کو آ گ لگا دیں گے۔ لیکن کیا آگ لگادینے سے بنیادی حقوق اور شہری سہولیات مل سکیں گی؟ ایک ایسے منتشر ہجوم کو جو اپنے بچوں کے قاتلوں کو اپنا ہیرو بناتی رہی ہے اور ہر بار آزمائے ہووں کو آزماتی رہی ہے کیا اس قوم میں صلاحیت ہے کہ یہ حکومت وقت کا گریباں پکڑ سکے؟ کیا اس قوم میں اتنی ہمت ہے کہ یہ نا اہلی کے بت بنے وزراءو مشراء کو سر بازار روک کر پوچھیں کہ جمہوریت کے تسلسل کے باوجود دو وقت کی روٹی اور شہری سہولیات کیوں دستیاب نہیں؟ ان تمام سوالوں کے جواب پانے کے لیے مجھ سمیت ہر ذی شعور کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا۔
ہم قطار پٹرول کے لیے تو بنا سکتے ہیں لیکن ایک ایسا جمہوری نظام تشکیل نہیں دے سکتے جس میں حکمرانوں کو جوابدہ بنایا جا سکے۔ ہم کسی کے “تو “کہہ دینے کو تو اپنی ذلت تصور کرتے ہیں لیکن گھنٹوں گرم سرد سے بے نیاز پٹرول اورسی این جی خریدنے کے لیے قطار میں کھڑے ہونے کو اپنی ذلت تصور نہیں کرتے۔موجودہ بحران میں تو ہم اجتماعی ذلت سہہ رہے ہیں اور پھر بھی حزب اختلاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کی جانب سے کوئی احتجاج کوئی مظاہرہ اور کوئی تحریک دیکھنے کو نہیں ملی۔ پٹرول، بجلی ، گیس، پانی وغیرہ اور اس کے علاوہ بھی ہر چیز کی قلت صرف عوام کے لیے ہی کیوں؟ کیا پٹرول کی موجودہ قلت سیاستدانوں کو متاثر کر پائی؟ یا ان کی گاڑیاں رکیں؟ ان کے روزمرہ کے معاملات رکے؟ آخر کیوں ہم یہ سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ جعلی ڈگریاں ہم پہ راج کر رہی ہیں اور اصل ڈگریاں قطاروں میں کھڑی ہیں۔
ہم قطار پٹرول کے لیے تو بنا سکتے ہیں لیکن ایک ایسا جمہوری نظام تشکیل نہیں دے سکتے جس میں حکمرانوں کو جوابدہ بنایا جا سکے۔ ہم کسی کے “تو “کہہ دینے کو تو اپنی ذلت تصور کرتے ہیں لیکن گھنٹوں گرم سرد سے بے نیاز پٹرول اورسی این جی خریدنے کے لیے قطار میں کھڑے ہونے کو اپنی ذلت تصور نہیں کرتے۔موجودہ بحران میں تو ہم اجتماعی ذلت سہہ رہے ہیں اور پھر بھی حزب اختلاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کی جانب سے کوئی احتجاج کوئی مظاہرہ اور کوئی تحریک دیکھنے کو نہیں ملی۔ پٹرول، بجلی ، گیس، پانی وغیرہ اور اس کے علاوہ بھی ہر چیز کی قلت صرف عوام کے لیے ہی کیوں؟ کیا پٹرول کی موجودہ قلت سیاستدانوں کو متاثر کر پائی؟ یا ان کی گاڑیاں رکیں؟ ان کے روزمرہ کے معاملات رکے؟ آخر کیوں ہم یہ سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ جعلی ڈگریاں ہم پہ راج کر رہی ہیں اور اصل ڈگریاں قطاروں میں کھڑی ہیں۔
وزیر خزانہ کے بقول پٹرول بحران بھی موجودہ حکومت کے خلاف سازش ہے، اگر یہ سازش ہے تو یہ وہ واحد سازش ہے جو ایک حکومت نے خوداپنے خلاف کی ہے۔
وزیر خزانہ کے بقول پٹرول بحران بھی موجودہ حکومت کے خلاف سازش ہے، اگر یہ سازش ہے تو یہ وہ واحد سازش ہے جو ایک حکومت نے خوداپنے خلاف کی ہے۔ہر بحران میں سازش تلاش کرنے کی بجائے بہتر ہوتا مسلم لیگ نواز کچھ وقت حکومت کرنے پر بھی صرف کر لیتی۔ پٹرول کا بحران حکومت کے خلاف سازش ہے، دھرنا دینا حکومت گرانے کی سازش ہے،پارلیمان کے سامنے آ کر اپنا حق مانگنا جمہوریت کے خلاف سازش ہے، وزراء کے خلاف کرپشن کیسز سیاسی جماعت کے خلاف سازش ہے،کیا کوئی ایسی سازش نہیں ہو سکتی جس سے عوام کو اس کے بنیادی حقوق ہی مل جائیں؟ کیا کسی ایسی سازش کے تانے بانے نہیں بنے جا سکتے جس سے عوام کو بلا تعطل بجلی و پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے؟
پٹرول بحران تو شاید کچھ دنوں تک ختم ہونے کی نوید مل جائےلیکن بطور قوم ہم جس بحران کا شکار ہیں اس کے خاتمے کی پالیسی انفرادی سطح پر بنے گی تو پھر ہی اس سے چھٹکارا مل پائے گا۔ ہیجان میں مبتلا ہجوم کو ایک قوم بننے کے لیے اپنے حقوق کا نہ صرف ادراک کرنا ہو گا بلکہ انہیں حاصل کرنے لیے راستہ بھی چننا ہو گا۔ حکمران اعلیٰ و ارفع شخصیت کے مالک نہیں ہیں جن سے سوال نہ ہو سکے،جن سے اپنے حقوق اور ان کے سیاسی وعدوں کے بارے میں پوچھ نہ ہو سکے۔محض گالیاں دینے، قطاروں میں کھڑے ہونے اور مایوس ہونے سے ایک قدم اور آگے بڑھنا ہو گا اور اپنے حقوق لینے کے لیے باعزت اور جمہوری راستے کا انتخاب کرنا ہو گا۔
پٹرول بحران تو شاید کچھ دنوں تک ختم ہونے کی نوید مل جائےلیکن بطور قوم ہم جس بحران کا شکار ہیں اس کے خاتمے کی پالیسی انفرادی سطح پر بنے گی تو پھر ہی اس سے چھٹکارا مل پائے گا۔ ہیجان میں مبتلا ہجوم کو ایک قوم بننے کے لیے اپنے حقوق کا نہ صرف ادراک کرنا ہو گا بلکہ انہیں حاصل کرنے لیے راستہ بھی چننا ہو گا۔ حکمران اعلیٰ و ارفع شخصیت کے مالک نہیں ہیں جن سے سوال نہ ہو سکے،جن سے اپنے حقوق اور ان کے سیاسی وعدوں کے بارے میں پوچھ نہ ہو سکے۔محض گالیاں دینے، قطاروں میں کھڑے ہونے اور مایوس ہونے سے ایک قدم اور آگے بڑھنا ہو گا اور اپنے حقوق لینے کے لیے باعزت اور جمہوری راستے کا انتخاب کرنا ہو گا۔