Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

مایوسی کا ایک برس

test-ghori

test-ghori

11 مئی, 2014
میری نسل کے وہ تمام لوگ جو تحریک انصاف کو ووٹ دینے کے ایک برس بعد بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ “تبدیلی” اور “انقلاب” کے راستے میں ڈی چوک کا جلسہ آخری پڑاو نہ سہی تو پہلا سنگ میل ضرور ثابت ہوگا یقیناً ہمدردی کے لائق ہیں۔وہ سب تبدیلی رضاکار جو مئی 2013 کے عام انتخابات سے پہلے ہر جلسے میں 11 مئی 2013 کو اپنے ووٹوں سے انقلاب لانے کی امید پر ٹی شرٹس پہنے نعرے لگاتے شریک ہوتے رہے انتخابی نتائج کے بعد کئی روز تک اس صدمے میں رہے کہ ہم کیسے ہار گئے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ ہمیں پورا یقین تھا کہ ہم جیتیں گے اور مرکز ، پنجاب اور پختونخّواہ میں حکومت بنائیں گے ان کے غصے اور بے چینی کا دھاندلی کے الزامات کی صورت میں سامنے آنا ایک فطری ردعمل ہے،لیکن حقائق کا ادراک کرنے اور شکست تسلیم کرنے کی جرات اور حوصلہ کی کمی کے باعث ان الزامات کو حقیقت کے طور پر تسلیم کر لینا یقیناً تشویش ناک ہے۔
پی ٹی آئی اور اس کی انتخابات میں ناکامی غیر حقیقت پسند اور مبالغے کی حد تک خوش گمان اندازوں، خوابوں اور نظریات کی ناکامی اورناکامی کے بعد حقیقت کا سامنا کرنے سے انکار کی بد ترین مثال ہے۔ پی ٹی آئی، عمران خان اور ان کے حامی جس نرگسیت، خود پسندی اور غیر حقیقت پسند انہ (بلکہ بے وقوفی کی حد تک) خام خیالی کا شکار ہیں وہ پاکستان بنانے والوں، پیپلز پارٹی کے جیالوں، سرخ انقلابیوں اور شریعت کے نفاذ کے لئے کوشاں پرامن جہادیوں سے کہیں بڑھ کر مایوس کن، بودی اور قابل رحم ہے۔ خودساختہ خیالی دنیا (بہشت احمقاں) کی مکین تحریک انصاف کی قیادت اور کارکن اب پہلے سے کہیں زیادہ حقیقی دنیا، زمینی حقائق اور اس کے مسائل کے ادراک کی صلاحیت سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔
عمران خان اور ان کے حامی جس نرگسیت، خود پسندی اور غیر حقیقت پسند انہ (بلکہ بے وقوفی کی حد تک) خام خیالی کا شکار ہیں وہ پاکستان بنانے والوں، پیپلز پارٹی کے جیالوں، سرخ انقلابیوں اور شریعت کے نفاذ کے لئے کوشاں پرامن جہادیوں سے کہیں بڑھ کر مایوس کن، بودی اور قابل رحم ہے۔
جذبے کی سچائی، مقصد پر ایمان اور شخصیت پرستی کے جس فریب کے تحت پی ٹی آئی سیاست کررہی ہے وہ کسی مسلک (Cult) کی نمائندہ خصوصیات ہیں ناکہ ایک سیاسی جماعت کی۔ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت سے زیادہ ایک مسلک یا فرقہ معلوم ہونے لگی ہے، جس میں تمام فیصلے ایک شخصیت یا ایک نظریہ کی پرستش کے تحت کئے جاتے ہیں۔ تمام پی ٹی آئی عمران خان اورصرف عمراں خان کا مسلک (Cult) بن کر رہ گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے تمام ارکان کا کام اب خیبر پختونخّواہ حکومت اور عمران خان کی ذات، بیانات اور پالیسیوں کا دفاع کرنا اور ان کی مخالفت کرنے والوں کی تضحیک کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ وہی احساس برتری، تکبر اور خود ساختہ نرگسیت جو کسی مسلک یا شخصیت پرست گروہ میں ہوتی ہے پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں میں بھی موجود ہے۔
(مجھ سمیت) تحریک انصاف کے تمام ووٹرز اور سپورٹرز گزشتہ ایک برس سے دو مختلف تجربوں سے گزر رہے ہیں۔ کچھ اور بد قسمتی سے بہت کم وہ ہیں جو انتخابات میں شکست کے بعد حقیقت کے ادراک ، خود تنقیدی ، شکستہ خوابی اور اپنی حماقت کے احساس کی شدید ترین اذیت سے گزرے ۔اور دوسرے وہ جو انتخابات کے بعد پہلے سے زیادہ راسخ العقیدہ پیروکار بن گئے، جنہیں پارٹی، پارٹی قیادت اور اپنی سیاسی جدوجہد کے مضحکہ خیز حد تک بے وقعت اور احمقانہ حد تک ناقابل عمل ہونے کو تسلیم کرنے کے خوف اور اذیت نے حقیقت سے مزید دور کر دیا ہے۔ ان راسخ العقیدہ پیروکاروں کے لئے ابھی تک عمران خان تبدیلی کا نشان ہے اور پی ٹی آئی ایک انقلابی جماعت ہے۔
پی ٹی آئی انتخابات کیوں ہاری؟

dt.common.streams.StreamServer.cls

انتخابی نتائج پی ٹی آئی کے امیدواران کی اہلیت اور دیگر جماعتوں کے ووٹ بینک کو سامنے رکھتے ہوئے بے حد حوصلہ افزا تھے مگر انتخابی مہم کے دوران کئے گئے مبالغہ آمیز دعووں اور وعدوں کی نسبت انتخابات میں ملنے والی نشستوں کی تعداد یقیناً تحریک انصاف کی قیادت اور حامیوں کے لئے مایوس کن تھی۔ انتخابات سے قبل لاہور کے جلسے اور اس کے بعد کراچی اور ملک کے تمام بڑے شہروں میں لوگوں کی شرکت دیکھ کر یوں لگتا تھا پی ٹی آئی اگر واضح برتری نہ بھی حاصل کر سکی تو اکثریتی جماعت کے طور پر ضرور سامنے آئے گی۔ عمران خان اگلے وزیر اعظم کے طور پر دیکھتے جا رہے تھے اور پی ٹی آئی کی حکومت کے بعد سکھ چین، امن اور خوشحالی کے ایک نئے دور کی نوید ہر تقریر میں گونج رہی تھی۔پی ٹی آئی کی جیت سے متعلق اس گمان اور اس تاثر کی تکرارنے ہی پی ٹی آئی کی شکست اور دھاندلی کے مفروضوں کی بنیاد رکھی ہے۔
پی ٹی آئی کی “انتخابی شکست” کی ایک بڑی وجہ پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنان کے وہ مبالغہ آمیز اندازے ہیں جو جلسے جلوسوں اور ریلیوں کے دوران لوگوں کی شرکت کو سامنے رکھتے ہوئے قائم کئے گئے۔ تاہم تمام تجزیہ نگار اور مبصرین تحریک انصاف کی کامیابی کی پیشن گوئیاں کرتے ہوئے پاکستانی آبادی کے پھیلاو ، وسعت اور انتخابی رحجانات کو نظر اندازکر گئے۔
پی ٹی آئی تمام تر دعووں کے باوجودانتخابی مہم کے دوران روایتی سیاست اور “تبدیلی کی سیاست ” میں سے کسی ایک کے انتخاب میں تذبذب کا شکار رہی۔ 2013 کے عام انتخابات میں نہ تو تحریک انصاف برادری، ذات اور قومیت کی روایتی سیاست اپنا پائی اور نہ ہی تبدیلی کے نعرے کے تحت ایسے امیدواروں کا انتخاب کر پائی جو انتخابات جیتنے کے اہل ہوں۔
ایک اور اہم پہلو پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں اور انتخابی مہم کی نوعیت میں تضاد بھی ہے۔ پی ٹی آئی تمام تر دعووں کے باوجودانتخابی مہم کے دوران روایتی سیاست اور “تبدیلی کی سیاست ” میں سے کسی ایک کے انتخاب میں تذبذب کا شکار رہی۔ 2013 کے عام انتخابات میں نہ تو تحریک انصاف برادری، ذات اور قومیت کی روایتی سیاست اپنا پائی اور نہ ہی تبدیلی کے نعرے کے تحت ایسے امیدواروں کا انتخاب کر پائی جو انتخابات جیتنے کے اہل ہوں۔ تحریک انصاف نے ایسے لوگوں کو بھی ٹکٹ دیے جو نوجوان تھے مگر جیتنے کے اہل نہیں تھے اور ایسے لوگوں کو بھی جو پارٹی میں صرف اپنے مفادات کے تحت شامل ہوئے، جس سے پرانے کارکنوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔
تحریک انصاف کی انتخابی مہم کی سب سے بڑی خامی اس کا چند رہنماوں خصوصاً عمران خان کے گرد گھومنا تھا۔ پوری جماعت میں گنتی کے چند افراد کے علاوہ کوئی ایسا رہنما نہیں تھا جو عمران خان کی جگہ مہم کی قیادت کر سکے۔ جب کہ اس کے برعکس نون لیگ کے پاس تقریباً ہر حلقے میں ایسے امیدوار تھے جو وہاں کی مقامی ابادی میں مقبول اور شناسا تھے۔ تحریک انصاف کے ہر جلسے میں عمران خان، سلمان احمد، شہزاد رائے اور ابرارالحق کی موجودگی سے جلسے میں رش تو بڑھ گیا مگر ووٹ نہیں مل سکے۔
انتخا بات حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور وہی جماعت جیتتی ہے جو ہر حلقے میں اپنی جڑیں اور موجودگی رکھتی ہو۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاست حلقہ کی سیاست ہے جہاں نظریات اور نعروں کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کے داخلی مسائل، پسند نا پسند اور ذات برادری کو سامنے رکھتے ہوئے سیاست کی جاتی ہے اور امیدوار نامزد کئے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے پی ٹی آئی کی حمایت صرف نوجوانوں (جن میں سے بہت سوں کے شناختی کارڈبھی نہیں بنے تھے) تک محدود رہی ، انتخابی حکمت عملی کے تضاد اور تذبذب کے باعث تحریک انصاف پاکستانی عوام خصوصاً دیہی حلقوں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکی۔
تحریک انصاف کی انتخابی مہم اور وژن میں صرف پاکستان کے پڑھے لکھے نوجوان اور متوسط شہری طبقہ کے لئے کشش تھی یا پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت کی وجہ سے پشتون علاقوں میں پی ٹی آئی کو ووٹ ملے۔ پی ٹی آئی کے انتخابی وعدوں اور امیدواروں میں پنجاب کی دیہی آبادی، تاجروں اور صنعتکاروں ، سندھ کے دیہی علاقوں اور بلوچستان کے عوام کے لئے کوئی کشش موجود نہیں تھی اور پنجاب کا کوئی حلقہ ایسا نہیں جو پوری طرح سے شہری یا متوسط طبقہ کا حلقہ ہو یہی وجہ ہے کہ بڑے شہروں میں کامیاب جلسے جلوسوں کے باوجود پی ٹی آئی نشستیں نہیں مل سکیں۔
نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاست حلقہ کی سیاست ہے جہاں نظریات اور نعروں کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کے داخلی مسائل، پسند نا پسند اور ذات برادری کو سامنے رکھتے ہوئے سیاست کی جاتی ہے اور امیدوار نامزد کئے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے پی ٹی آئی کی حمایت صرف نوجوانوں (جن میں سے بہت سوں کے شناختی کارڈبھی نہیں بنے تھے) تک محدود رہی ، انتخابی حکمت عملی کے تضاد اور تذبذب کے باعث تحریک انصاف پاکستانی عوام خصوصاً دیہی حلقوں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکی۔
پی ٹی آئی کو ملنے والی بے تحاشہ ٹی وی کوریج کے باعث بھی عمران خان اور تحریک انصاف کی جیت کا مبالغہ آمیز تاثر عما ہوا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کو تمام چینلز خصوصاً جیواور جنگ گروپ کی طرف سے باقی تمام جماعتوں سے زیادہ کوریج ملی جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے جیتنے کا عمومی تاثر پیداہوا اور یوں لگنے لگا جیسے پی ٹی آئی مرکز اور صوبوں میں حکومت بنائے گی۔ تاہم ٹیلی وژن چینلز، انتخابی جلسوں اور ریلیوں سے نہیں انتخابات ووٹوں سے جیتے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ پی ٹی آئی ہاری نہیں بلکہ نون لیگ اپنی بہتر انتخابی حکمت عملی کے باعث جیتی ہے۔ پاکستانی ٹاک شوز اور نیوز بلیٹن چند بڑے شہروں کی محدود متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والی اقلیت کی نمائدنگی کرتے ہیں ۔ ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر اس دیہی حلقوں کی اکثریت کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے جو ابھی بھی اپنے حلقے کی ذات اور برادری کی سیاست کے تحت ووٹ دیتی ہے اور جو پی ٹی آئی کی حامی نہیں ہے۔ لاہور ، کراچی، فیصل آباد، ملتان ، اسلام آباد ، راولپنڈی سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں کی آبادی کی اکثریت دیگر شہروں سے آ کر بسنے والے افراد پر مشتمل ہے، جن کے ووٹ ابھی تک ان کے ابائی علاقوں میں درج ہیں۔ انتخابات کے دوران ان پردیسیوں کی بڑی تعداد اپنے شہروں میں ووٹ ڈالنے پر مجبور ہوئی جس کی وجہ سے لاہور، کراچی اور پنڈی جیسے بڑے شہروں میں پی ٹی آئی کو متوقع ووٹ نہیں ملے۔ پی ٹی آئی کی میڈیائی مقبولیت کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا اپنا ایک مستقل ووٹ بینک ہے جو فیصلہ کن اکثریت پر مبنی ہے۔
تحریک انصاف کے انتخابی دعووں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس میں تضادات اور ابہام واضح نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت کی جس کے باعث وہ لبرل اور سیکولر طبقے کے لئے نا قابل قبول ہوگئے۔ تبدیلی، انقلاب اور نوجوان قیادت کے نعروں کے ساتھ ایک قدامت پرست، مذہبی اور روایتی معاشرے کو کسی بھی طرح ووٹ ڈالنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا۔ انتخابی مہم کے دوران نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی کردار کشی اور نامناسب زبان اور لہجے کے استعمال نے بھی بلاشبہ لوگوں کو متنفر کیا ہے۔ امریکہ کی مخالفت اور ڈرون گرانے کی باتیں پختون خواہ میں تو مقبول ہو سکتی ہیں لیکن پنجاب کے لوگوں کو روزگار کی فراہمی، بجلی اور بنیادی سہولیات کی دستیابی کی ضرورت تھی۔
پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت گو سنجیدہ حلقوں کے لئے ناپسندیدہ ہے لیکن ان کا انداز حکمرانی عوامی اور مقبول عام ضرور ہے۔ ڈینگی کے تدارک میں کامیابی، میٹرو بس، لیپ ٹاپ سکیم، سڑکیں، پل اور ملازمتیں دینا بلاشبہ ترقی کا معیار نہیں لیکن لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے بہت ضروری ہیں، اور پنجاب میں ترقیاتی کاموں پر بے تحاشہ خرچ نے ہی نون لیگ کو کامیابی دلائی ہے۔
مایوسی کا ایک برس
انتخابی نتائج سے قطع نظرخیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی حکومت اور مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کی بطور حزب مخالف کامیابی نہ صرف مایس کن ہے بلکہ بہت سے معاملات میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی روایتی جماعتوں سے کہیں پست تھی۔ وہ تمام لوگ جو تبدیلی اور نئے پاکستان کی بنیاد پر تحریک انصاف کو ووٹ ڈالنے گئے یقیناً اس وقت یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ وہ نیا پاکستان کہاں ہے اور وہ تبدیلی کہاں گئی؟
پاکستان تحریک انصاف کی تمام تر خوبیوں کے باوجود دکھ اس بات کاہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران تبدیلی کا نعرہ لگانے والی اس جماعت کی سیاسی کارکردگی حکومت اور حز ب اختلاف دونوں حیثیتوں میں باقی تمام جماعتوں سے کم تر، نا پختہ (immature) اور تکلیف دہ حد تک انہیں سیاسی جماعتوں جیسی ہے جن کے خلاف تقریریں کر کے ووٹ حاصل کئے تھے۔ پی ٹی آئی میں کوئی بہتری آئی یا نہیں اس سے قطع نظر پی ٹی آئی میں وہ تمام خامیاں ضرور پیدا ہوگئی ہیں جو باقی سیاسی جماعتوں میں ہیں یا تھیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انتخابات کے بعد ایک برس میں خیبر پختونخواہ کی حکومت اور مرکز، پنجاب اور سندھ میں اپوزیشن کے طور پر پی ٹی آئی خود کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کا ایک بہتر متبادل بنا کر پیش کرتی لیکن گزشتہ ایک برس میں تحریک انصاف کی سیاست اور حکومت نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو کہیں زیادہ قابل قبول بنا دیا ہے ۔
تحریک انصاف جس ابہام (confusion) اور نرگسیت کا شکار تھی وہ کم ہونے کی بجائے بڑھا ہے۔ نظریاتی طور پر تحریک انصاف نہ تو ایک ترقی پسند جماعت ہے اور نہ ہی ایک قدامت پرست جماعت۔ تحریک انصاف کے کارکن اور عملی سیاست جس قدر قدامت پسند ہیں جماعت اپنے بیانات میں خود کو اتنا ہی ترقی پسند کہلوانا چاہتی ہے۔ موجودہ پی ٹی آئی ایک سخت گیر مسلم لیگ اور نرم مزاج جماعت اسلامی کے سوا کچھ نہیں ۔
پی ٹی آئی قیادت سے جو سنگین غلطیاں انتخابات سے پہلے اور بعد میں سرزد ہوئی ہیں ان کی وجہ سے وہ تمام لوگ جو اس جماعت میں ایک نئے اور خوشحال پاکستان کے لئے شامل ہوئے تھےان کی ایک قابل ذکر تعداد پہلے سے کہیں زیادہ مایوس اور دل برداشتہ ہو چکی ہے۔ انتخابات کے بعد سب سے پہلے تو پی ٹی آئی کو انتخابی شکست تسلیم کرتے ہوئے ان عوامل کی نشاندہی کرنا چاہئے تھی جو اس کی شکست کے زمہ دار ہیں لیکن عمران خان اور ان کے ساتھ رہنما ابھی تک اپنی شکست کو دھاندلی اور سازش کے علاوہ کچھ بھی قرار دینے کو تیار نہیں۔ پی ٹی آئی سے کہیں بہتر طرز عمل مسلم لیگ ق، اے این پی اور پیپلز پارٹی کاتھا ۔ ان جماعتوں نے نہ صرف انتخابی نتائج کو تسلیم کیا بلکہ رائے دہندگان کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے جمہوری اور سیاسی عمل کی بقاء کے لئے کسی بھی قسم کی الزام تراشی سے حتی الامکان گریز کیا۔
تحریک انصاف جس ابہام (confusion) اور نرگسیت کا شکار تھی وہ کم ہونے کی بجائے بڑھا ہے۔ نظریاتی طور پر تحریک انصاف نہ تو ایک ترقی پسند جماعت ہے اور نہ ہی ایک قدامت پرست جماعت۔ تحریک انصاف کے کارکن اور عملی سیاست جس قدر قدامت پسند ہیں جماعت اپنے بیانات میں خود کو اتنا ہی ترقی پسند کہلوانا چاہتی ہے۔ موجودہ پی ٹی آئی ایک سخت گیر مسلم لیگ اور نرم مزاج جماعت اسلامی کے سوا کچھ نہیں ۔ نظریاتی طور پر خود کو اقبال جیسے فسطائیت پسند اور مذہبی غلبے کے حامی مفکر کے افکار کا پیروکار قراردینا اور جمہوری نظام، سیاست اور اقدار کے تحت سیاست کرنا وہ نظریاتی تضاد ہے جو صرف تحریک انصاف کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ اورامریکہ سے تعلقات کے معاملہ میں تحریک انصاف جس ابہام کا شکار تھی اس میں اضافہ ہی ہوا ہے کمی نہیں آئی۔ تحریک انصاف مذہبی طبقات کی حمایت اور طالبان کے خوف سے جن شدت پسندوں کو اپنے لوگ قرار دینے پر تلی تھی وہ اس وقت بھی خیبر پختونخواہ پر سب سے زیادہ حملے کر رہے ہیں۔مگر تحریک انصاف کی قیادت ابھی تک طالبان شدت پسندی کے ادراک سے محروم ہے اور سیاسی مفادات کے تحت عسکری کاروائی کی مخالفت کررہی ہے۔
زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف میں وہ تمام خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں جو دیگر جماعتوں میں تھیں۔ غیر جمہوری روایات، شخصیت پرستی، اقرباء پروری اور سیاسی مفادات کے حصول کے لئے قومی سلامتی اور اہمیت کے معاملات پر سیاست کرنا گزشتہ ایک برس کےدوران تحریک انصاف کی سیاست کے نمایاں خدوخال ہیں۔ نیٹو سپلائی روکنا، عدالتوں پر دباو ڈالنا اور حکومت گرانے کی باتیں کرنا کسی بھی طرح جمہور یت کے لئے مناسب نہیں ۔
تحریک انصاف کی جانب سے انتخابی وعدوں کا خیبر پختونخّواہ میں عملی شکل اختیار نہ کر پانا تحریک انصاف کے سیاسی مستقبل کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے۔ خیبر پختونخّواہ میں ایک برس حکومت کرنے کے بعد بھی سوائے چند اصلاحات کے کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ 90 دن میں تبدیلی کے خواب صرف حکومت سے باہر رہ کر دیکھے اور دکھائے جا سکتے ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف نہ ایک اچھی حکومت چلا پا رہے ہیں نہ اپوزیشن کا کردار ادا کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے انتخابی اصلاحات، انصاف کی فراہمی، پسماندہ طبقات کو بنیادی سہولیات کی فراہمی سمیت کسی معاملہ میں قانون سازی میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں کی جاسکی۔
زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف میں وہ تمام خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں جو دیگر جماعتوں میں تھیں۔ غیر جمہوری روایات، شخصیت پرستی، اقرباء پروری اور سیاسی مفادات کے حصول کے لئے قومی سلامتی اور اہمیت کے معاملات پر سیاست کرنا گزشتہ ایک برس کےدوران تحریک انصاف کی سیاست کے نمایاں خدوخال ہیں۔
عدلیہ، میڈیا، دیگر سیاسی جماعتوں اور رہنماوں پر جس قدر بد تہذیبی سے پی ٹی آئی قیادت اور حامی الزامات کیچڑ اچھال رہے ہیں وہ یقیناًنوے کی دہائی کی پی پی پی اور پی ایم ایل این کی باہمی چپقلش کی ایک شرمناک مثال ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے عمران خان اور پی ٹی آئی کے نزدیک صرف وہی سچے، برحق اور ایماندار ہیں۔ وہی عدالتیں جوجب تک پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف مقدمات سن رہی تھیں آزاد تھیں اگر تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ نہ دیں تو دھاندلی میں شریک قرار دے دی جاتی ہیں، وہی میڈیا جو اگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی پر تنقید کرنے اور پی ٹی آئی کی جیت کی پیشن گوئیاں کرنے والا میڈیا آزاد اور ذمہ دار تھا لیکن اگر تحریک انصاف کے رہنماوں پر تنقید کرنے والے چینلز غدار ہیں اور بائیکاٹ کی زد میں آجاتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں تعلیم اور صحت کے تمام منصوبے غیر ملکی امداد سے چل رہے ہیں جب کہ یہی پی ٹی آئی ماضی کی حکومتوں پر امداد اور قرض لینے کے حوالے سے شدید تنقید کرتی آئی ہے۔ تحریک انصاف کے وکلاء اور حامیوں کی جانب سے الیکشن ٹریبونلزاور عدالتوں میں ہنگامہ آرائی کسی بھی طرح جمہوری اور سیاسی طرز عمل قرارنہیں دی جا سکتی۔ تحریک انصاف اور عمران خان کا رویہ نہ صرف غیر جمہوری ہے بلکہ کسی بھی طرح سے ملک میں جمہوریت، انصاف اور سیاسی عمل کے حق میں نہیں۔ خود کو درست اور باقی سب کو غلط سمجھنے کی فکر سے صرف پی ٹی آئی ہی نہیں پوری قوم کا مستقبل خطرے میں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کو یہ سمجھنا ہوگا کہ تبدیلی لانے کے لئے انتخابات جیتنا ضروری نہیں بلکہ انتخابی اور جمہوری عمل میں شریک رہتے ہوئے اصولوں اور نظریات کی سیاست سے تبدیلی آتی ہے۔شکست تسلیم کرنے کے لئے جس حوصلہ اور اخلاقی جرات کی ضرورت ہوتی ہے وہ تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنان دونوں میں موجود نہیں ۔اگر عمران خان اور تحریک انصاف کا یہی غیر جمہوری طرز عمل جاری رہا تو اگلے انتخابات میں شاید تحریک انصاف کے بھی” نون”، “قاف “اور “س” “ش” بن چکے ہوں گے۔