ماہِ میر فلم میں اردو کے عظیم شاعر میر تقی میر کی زندگی کو دورِ حاضر کے ایک شاعر جمال کی زندگی سے ملا کر دکھایا گیا ہے۔ یوں یہ فلم تمام کی تمام میر تقی میر کی زندگی پر تو نہیں، لیکن اس میں میر تقی میر کی زندگی کی جھلکیاں بھی دکھائی گئی ہیں۔ میر کے بعض قصے تو محمد حسین آزاد کی کتاب ’آبِ حیات‘ کی وجہ سے ادبی حلقوں میں زباں زدِ خواص و عوام ہیں، جو اس فلم میں بھی سموئے گئے ہیں، مثلاً میر کی جانب سے یہ کہنا کہ فی زمانہ صرف دو شاعر ہیں، ایک وہ خود اور دوسرے میرزا سودا۔ میر درد آدھے شاعر ہیں اور میر سوز کو بھی شامل کر لیجیے تو یہ پونے تین ہو گئے۔ پھر وہ قصہ کہ نواب صاحب ان کے شعر سنتے ہوئے مچھلیوں سے کھیلنے میں مگن ہیں۔ مگر کچھ واقعات ایسے شامل کیے گئے ہیں جن کا میر تقی میر کی زندگی سے واسطہ نہیں۔ مثلاً میر تقی میر کو عالمِ نوجوانی میں لکھنو کے نواب آصف الدّولہ کے دربار سے وابستہ دکھایا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میر صاحب جب لکھنو گئے تو ان کی عمر ساٹھ سال ہو چکی تھی۔ میر کی جس محبوبہ کو نواب آصف الدولہ کے دربار سے وابستہ بتایا گیا ہے ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ میر اپنی زندگی میں ایک سے زیادہ خواتین سے محبت کے رشتے میں منسلک ہوئے۔ ان میں سے وہ خاتون جن کا نام ’مہتاب‘ بتایا جاتا ہے ان کے بارے میں میر کے سوانح پر کام کرنے والوں کا کہنا یہ ہے کہ اس کا تعلق میر اور ان کے ماموں سراج الدین علی خان آرزو کے گھرانے سے تھا اور میر کے اپنے ماموں سے اختلافات کا ایک سبب وہی بنی تھیں۔ یہ بھی ثابت نہیں کہ ان کا نام ’مہتاب بیگم ‘ ہی تھا۔ میر نے اپنی مثنوی ’خواب و خیال ‘ میں اس ابتدائی محبت کا ذکر کرتے ہوئے ابتداء یوں کی ہے کہ انھیں عالمِ جنون میں اپنی محبوبہ کی شکل مہتاب میں نظر آتی تھی اس لیے بعض محققین نے ان کی محبوبہ کا نام ’مہتاب بیگم‘ بتایا ہے۔ چلیے اتنا تو ٹھیک ہے لیکن جب مہتاب بیگم نواب آصف الدولہ کے دربار سے وابستہ نہیں تھیں تو نواب صاحب ان کو پروپوز بھی نہیں کر سکتے تھے جیسا کہ اس فلم میں دکھایا گیا ہے۔ جب میر کی نواب آصف الدولہ سے ملاقات ہوئی تو وہ جوان نہیں بل کہ بزرگ تھے اور میر کی زندگی میں ہی ان کی وفات بھی ہو گئی، مگر فلم میں نواب آصف الدولہ کو جوان دکھایا گیا ہے۔
ہاں میر کی زندگی میں آنے والی ایک اور خاتون کا ذکر شمس الرحمان فاروقی نے اپنے ایک افسانے میں کیا ہے۔ ’نورالسعادۃ‘ نامی اس خاتون کا تعلق ناچنے گانے والوں سے ہے۔ امکانی طور پر یہ سارا قصہ فاروقی صاحب کے فکشن نگار ذہن کا کرشمہ ہے۔ سرمد صہبائی نے اگر اس افسانے سے استفادہ کیا بھی ہے تو اسے تسلیم کرنے سے گریز کیا ہے۔ اگر وہ اس کہانی سے استفادہ کرنا ہی چاہتے تھے تو پوری طرح کرتے، اس طرح کہانی میں وہ جھول پیدا نہ ہوتے جو فلم میں بہت واضح طور پر نظر آتے ہیں۔
فلم میں معروف شاعر انشاء اللہ خاں انشاء میر سے ملنے آتے ہیں تو میر انھیں اپنی مثنوی کے کچھ اشعار سناتے ہیں۔ ان اشعار میں کتوں کا ذکر ہے۔ اب جانے یہ ڈائریکٹر کی کارستانی ہے یا مصنف کی، کہ میر صاحب کتوں سے متعلق یہ اشعار سناتے ہوئے چہرے پر ایسے تاثرات پیدا کرتے ہیں اور لہجے کے اتار چڑھاو میں ایسا طنز پیدا کرتے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سید انشاء کو بھی کتوں میں شامل کر رہے ہیں۔ میر کو سید انشاء سے جس انداز سے بات کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے وہ بھی نہ میر کے شایانِ شان ہے نہ سید انشاء کے۔ سید انشاء اللہ خاں انشاء اپنے عہد کے صرف معروف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ بہت بڑے عالم بھی تھے۔ کئی زبانیں جانتے تھے۔ اردو قواعد پر ابتدائی کام انھوں نے کیا اور ایک مرتبہ جب بات چھڑی کہ اردو میں فارسی عربی الفاظ کی بھرمار ہے تو ’رانی کیتکی کی کہانی‘ کے نام سے ایک داستان لکھی جس میں ایک بھی لفظ عربی یا فارسی کا نہیں تھا۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ میر تقی میر جیسا شاعر انشاء اللہ خاں انشاء کے مقام سے آگاہ نہ ہو، چہ جائے کہ انھیں سید انشاء سے بدتمیزی کرتے بلکہ انھیں کتے سے تشبیہ دیتے ہوئے دکھایا جائے۔ اگر مصنف یا ڈائریکٹر کو یہ دکھانا ہی تھا کہ میر اپنے دور کے شاعروںسے بے دماغی برتتے ہیں تو انھیں چاہیے تھا کہ میر کے ملاقاتی شاعر کا نام کچھ اور رکھ لیتے، انشاء اللہ خاں انشاء نہ رکھتے۔
یہ ذکر تو ہوا فلم کی واقعاتی اغلاط کا۔ فلم میں دو ٹریک ہیں اور دوسرے ٹریک کی کہانی ایک جدید شاعر جمال کے گرد گھومتی ہے جس کی زندگی میر کی زندگی سے مشابہ دکھائی گئی ہے۔ مگر اس ٹریک کی کہانی میں جھول بہت ہیں۔ فلم میں دورِ جدید کے جس شاعر کو دکھایا گیا ہے اس کی زندگی اتفاقات سے بھرپور ہے۔ کہانی میں کئی ایسے خلا ہیں جو کہانی پر بحث کر کے بہ آسانی دور کیے جا سکتے تھے، مگر لگتا ہے کہ ڈائریکٹر نے کہانی کو کسی الوہی تحفے کی طرح قبول کیا ہوا تھا۔ ایسے خلا یا فلاز عموماً ان کہانی کاروں کی کہانی میں نظر آتے ہیں جنھوں نے کبھی کوئی جاسوسی کہانی نہ پڑھی ہو اور صرف خوابوں ہی کی دنیا میں زندگی گزار دی ہو۔ آئیے کہانی کے ان گیپس کا کچھ ذکر کرتے ہیں۔
نوجوان شاعر جمال کو بس میں سفر کے دوران ایک لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس لڑکی کا کردار ایمان علی نے ادا کیا ہے۔ لڑکی کے بس سے اترتے ہی جمال اس کا پیچھا کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ نظر سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ پھر حسنِ اتفاق سے وہی لڑکی حلقہ ء اربابِ ذوق کے اس اجلاس میں نظر آتی ہے جس میں جمال اپنا ایک تنقیدی مقالہ پیش کرتا ہے۔ لڑکی جمال کے مقالے سے متاثر ہوتی ہے اور جمال کا موبائل نمبر نوٹ کر کے حلقے کے اجلاس کے دوران ہی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ جمال، جس کی تحریر پر حلقے میں بحث جاری ہے، وہ بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور لڑکی کا پیچھا کرتا ہے۔ کراچی یا لاہور میں حلقہ ء اربابِ ذوق کے اجلاس سے کوئی اور صاحب تو اٹھ کر جا سکتے ہیں مگر خود مصنف کا اٹھ کر جانا ایسا غیر معمولی واقعہ ہوتا ہے کہ اسے واک آئوٹ ہی کہا جائے گا۔ ایسے واقعے کے بعد کوئی اسے منانے نہ آئے، یہ بہت عجیب بات ہے۔ دوسرے یہ کہ جو لڑکی اکیلی حلقہ ء اربابِ ذوق کے اجلاس میں شرکت کے لیے آ سکتی ہے وہ جمال کو اپنا نام بھی تو بتا سکتی ہے۔ اپنے مسائل سے بھی تو آگاہ کر سکتی ہے۔ لڑکی اجلاس سے باہر نکلتی ہے تو جمال کو ایس ایم ایس پر میر کا شعر بھیجتی ہے:
دل سے مرے لگا نہ تیرا دل، ہزار حیف
یہ شیشہ ایک عمر سے مشتاقِ سنگ تھا
جمال پتا پوچھتا ہے تو بتاتی ہے کہ :ع۔ تم جہاں کے ہو، واں کے ہم بھی ہیں۔ اس پر جمال کا دوست سراج سمجھ جاتا ہے کہ وہ جمال ہی کے محلے کی ہے مگر جمال فوری طور پر یہ پتا نہیں لگا پاتا کہ وہ اس کے محلے میں رہتی کہاں ہے۔ حلقے میں لڑکی کی آمد کے حسنِ اتفاق کے بعد ایسا سوئے اتفاق اس لیے لازم سمجھا گیا کہ جمال کو اس وحشت کا شکار کیا جا سکے جس سے مصنف سرمد صہبائی فلم میں ایک خاص کام لینا چاہتے ہیں۔ ویسے اسے بھی حسنِ اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک لڑکی حلقہ ء اربابِ ذوق میں کسی کی تحریر سن کر اس پر عاشق ہو جائے اور تحریر بھی وہ جو ایک تنقیدی تحریر ہے۔
فلم میں کچھ اور مناظر بھی ایسے ہیں جو حقیقت کے بجائے ماورائے حقیقت یا جادوئی حقیقت کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً نوجوان شاعر جمال کافی ہاوس میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا ہے جس پر ایک ادبی پروگرام آ رہا ہے اور اس پر ڈاکٹر کلیم گفتگو کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر کلیم کی گفتگو سنتے ہی پورے کافی ہائوس میں موجود لوگ اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور پوری توجہ سے ڈاکٹر کلیم کی گفتگو سننے لگتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آج کل کے ٹی وی ناظرین کے سامنے اگر کوئی ملکہ ء حسن پردہ ء اسکرین پر دعوتِ گناہ بھی دے رہی ہو تب بھی وہ کم از کم ایسا اشتیاق تو ظاہر نہیں کریں گے۔ ناول کا مرکزی کردار جمال اس سین کے دوران موبائل فون سے پروگرام میں لائیو کال کرتا ہے تو اینکر گھبرا کر پروگرام کے خاتمے کا اعلان کر دیتا ہے۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ شاید جمال نے اینکر کی آف شور کمپنی کے بارے میں انکشاف کرنے کی کوشش کی ہو گی؟ جی نہیں جمال نے صرف ڈاکٹر کلیم کے موقف سے اختلاف ظاہر کیا تھا۔ فلم کے پروڈیوسر خرم شہزاد اتنا تو جانتے ہی ہوں گے کہ ایسی بدمزگی کے موقع پر کنٹرول روم میں بیٹھا عملہ کالر کی کال ڈراپ کر دیتا ہے، پروگرام کو وائنڈ اپ نہیں کیا جاتا۔
جمال ایک نوجوان شاعر ہے جسے کلاسیکی ادب سے دلچسپی نہیں۔ وہ نثری نظمیں کہتا ہے اور پاپولر ادب تخلیق کرنے والوں پر لعنت بھیجتا ہے۔ پاپولر ادب تخلیق کرنے والی ایک خاتون اس سے باربار ملتی ہے اور اس سے گزارش کرتی ہے کہ وہ اس کی نئی کتاب پر ایک کالم لکھ دے۔ جمال اس سے انکار کرتا ہے تو وہ لڑکی اخبار میں جمال کا کالم بند کرا دیتی ہے۔ اس لڑکی کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ تو بس لفظوں کو ادھر اُدھر کرتی ہے اور شاعری تو وہ ہے جو جمال کرتا ہے۔ حالانکہ عام طور پر پاپولر لکھاری خود کو بڑا لکھاری بھی سمجھتے ہیں اور جمال جیسے بزعمِ خود بقراطوں کو زیادہ گھاس بھی نہیں ڈالتے۔ ویسے اس لڑکی کا کردار جن خاتون نے ادا کیا ہے انھوں نے اوور ایکٹنگ کے کافی ریکارڈ توڑے ہیں۔
جمال ایک اینگری ینگ مین ہے اور خود کو ایک منفرد شاعر سمجھتا ہے جس کا ہر شاعر کو حق بھی حاصل ہے۔ لیکن اسے میر تقی میر کے ان اشعار میں سے بھی کچھ کی سمجھ نہیں آتی جو ’ایک لڑکی‘ اسے ایس ایم ایس پر لکھ لکھ کر بھیجتی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ اس نے ابھی تک میر تقی میر جیسے شاعر کا ٹھیک سے مطالعہ بھی نہیں کیا۔ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے۔ کالج یا یونی ورسٹی میں ممتاز ہونے کی کافی لوگوں کو خواہش ہوتی ہے۔ جمال کا کردار ان لڑکوں کا پروٹو ٹائپ نظر آتا ہے جو کالج یا یونی ورسٹی میں اپنے انٹیلیکچوئل پرسونا کی انفرادیت کی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں۔ جو ایک دو کتابیں پڑھ کر ہی اپنے علاوہ باقی سب کو خبطی اور جاہل بل کہ ’جھائل‘ سمجھنے لگتے ہیں، بل کہ سرِ عام اس کا اعلان بھی کرتے پھرتے ہیں۔ میں بھی ابھی چند برس پہلے کالج یونی ورسٹی میں پڑھتا تھا اور میری ملاقات ایسے نمونوں سے ہوتی تھی جنھوں نے یہ طے کیا تھا کہ ادب کی تخلیق تو خیر بعد میں بھی ہوتی رہے گی فی الوقت پہلی فرصت میںعظیم ہو لیا جائے۔ جمال ایسا ہی ’عظیم‘ شاعر ہے، جسے محبت تک اپنے ’عظیم شاعر‘ ہونے کے بعد ہوتی ہے۔
ڈاکٹر کلیم ایک جانب تو جدید شاعری کے مداح نہیں اور جمال ایک ٹی وی پروگرام میں لائیو کال کر کے ان کی بے عزتی بھی کر چکا ہے لیکن جب جمال بیمار ہوتا ہے تو وہ اس کی عیادت کو آتے ہیں اور اسے یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک بین الاقوامی انتھالوجی کے لیے اس کی نظموں کا ترجمہ کرنا چاہتے ہیں۔ ترجمے کی غرض سے نظمیں وہ بعد میں لیتے ہیں مگر جمال کے لیے پچاس ہزار روپے کا چیک پہلے ہی اپنے ساتھ لیتے آتے ہیں۔ یہ ایسا موقع ہے جب جمال کا کردار ادا کرنے والے فہد مصطفی ڈاکٹر کلیم کی باتیں غور سے سنتے دکھائی دیتے ہیں۔ یوں ہمارا ’عظیم شاعر‘ پچاس ہزار روپے کا چیک ملتے ہی اپنے سینئر حریف کی عزت کرنے لگتا ہے۔ یہ بات اسے ڈاکٹر کلیم کی روانگی کے بعد معلوم ہوتی ہے کہ وہ ’ایک لڑکی‘ اس کے مکان کے قریب ہی ایک گھر پر رہتی ہے۔ لڑکی چھت پر کپڑے سکھانے کے لیے ڈال رہی ہے اور جمال اسے اوپر واقع اپنے مکان یا فلیٹ کی چھت سے دیکھتا رہ جاتا ہے۔
ایک ایسی کتاب جس میں قاری کو دلچسپی بھی پیدا ہو چکی ہو کتنے روز میں پڑھی جا سکتی ہے؟ میرا خیال ہے دو تین روز میں۔ چلیے ان دو تین روز کو بڑھا کر پندرہ روز کر لیتے ہیں۔ ان دو تین یا پندرہ سولہ روز کے بعد جمال ڈاکٹر کلیم سے آخری ملاقات کرتا ہے اور واپس اپنے مکان میںآتا ہے تو اسے وہ ’ایک لڑکی‘ دلہن بنی اپنے دولہا کے ساتھ گلی میں بارات کے ساتھ آتی دکھائی دیتی ہے۔
ڈاکٹر کلیم کے گھر جا کر جمال انھیں طعنہ دیتا ہے کہ انھوں نے میر کی جس ’وحشت‘ کا تذکرہ کرنے میں اپنی کتاب کے پچاس صفحات صرف کیے، انھوں نے خود ساری زندگی اس سے گریز کیا۔ ڈاکٹر کلیم نے ’وحشت‘ سے گریز یوں کیا تھا کہ اپنی محبوبہ کے ساتھ ہوائی جہاز کے ذریعے فرار کا منصوبہ پورا نہیں کیا تھا اور اپنے والد کی بات مان کر اپنے شہر میں ہی بیٹھے رہ گئے تھے۔ فلم میں جمال کا کردار دیکھ کر ہمیں یقین ہوتا ہے کہ جمال تو کم از کم اس ’وحشت‘ سے متصف ہوگا جو وہ ڈاکٹر کلیم میں مفقود دیکھ رہا ہے۔ مگر وہ بھی اپنی محبوبہ کو کسی اور کی دلہن بنے دیکھتا رہ جاتا ہے اور ’وحشت‘ کے عالم میں کچھ نہیں کر پاتا۔ حالانکہ اس سلسلے میں عملی قدم تو اسے محبوبہ کی شادی سے پہلے اٹھانا چاہیے تھا۔
فلم میں ادبی جملوں اور نظریات کی بھی بھرمار ہے۔ ایک نظریہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ ’روایت‘ اور ’کلاسیک‘ میں فرق ہوتا ہے۔ روایت ختم ہو جاتی ہے جب کہ کلاسیک ہمیشہ زندہ رہنے والی چیز ہوتی ہے۔ یہ جملہ ٹی ایس ایلیٹ نے نہیں سنا ورنہ کم از کم وہ تو پھڑک کر رہ جاتا۔ ایلیٹ نے ’روایت‘ کو کسی بھی شاعر یا ادیب کے لیے اہم ترین ماخذ قرار دیا تھا، مگر فلم ’ماہِ میر‘ کا مصنف ’روایت‘ کے انتہائی اہم لفظ کو شاید ’روایتی‘ کے لفظ سے خلط ملط کر گیا۔ ایک اور نظریہ میر کی ’وحشت‘ کا ہے۔ ڈاکٹر کلیم نے اپنی محبوبہ کے ساتھ فرار نہ ہو کر ’وحشت‘ سے گریز کیا اور ایک آرام دہ زندگی کو ترجیح دی۔ جمال ایسی آرام دہ زندگی کے امکانات کو تج کر بیٹھا ہے اور سماجی باغی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔
جمال ڈاکٹر کلیم کو طعنہ دیتا ہے تو انھیں دل میں درد اٹھتا ہے۔ فلم دیکھنے والا ہر شخص جان لیتا ہے کہ ڈاکٹر کلیم کو دل کا دورہ پڑا ہے، لیکن جمال کو یہ بات معلوم نہیں۔ وہ ڈاکٹر کلیم کے سونے کے کمرے سے ان کی دوا لاتا ہے، وہاں ان کی محبوبہ، یعنی ہما نواب کی تصویریں دیکھتا ہے، دوا لاتا ہے، ڈاکٹر کلیم کو دیتا ہے، دو تین مرتبہ ڈاکٹر کو بلانے کی پیش کش کرتا ہے اور پھر گھر سے چلتا بنتا ہے۔ ڈاکٹر کلیم کے کمرے میں ہما نواب کی تصویریں دیکھتے ہوئے بھی وہ زیادہ تیز روی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ ایک ایسے کردار کو اگر ’منفرد‘ کردار نہ کہا جائے تو یقینا اس سے زیادتی ہو گی۔
اگلے روز وہ کافی ہاوس میں جاتا ہے تو ٹی وی پر ڈاکٹر کلیم کے انتقال کی خبر چل رہی ہوتی ہے۔ ایک پبلشر، جو اس سے پہلے جمال کو شاعری کے بجائے کوئی ڈھنگ کی کتاب لکھنے کا مشورہ دے چکا ہے، جمال کے پاس آتا ہے اور اسے یہ خفیہ اطلاع بریکنگ نیوز کی صورت میں دیتا ہے کہ اس نے جمال کی کتاب نہ صرف چھاپنے کا فیصلہ کیا ہے بل کہ وہ کتاب چھاپ بھی دی ہے، بل کہ وہ کتاب اس کے ہاتھ میں بھی موجود ہے، بل کہ اس پر ڈاکٹر کلیم اپنا دیباچہ بھی لکھ مرے ہیں۔ جمال شاید اپنی وحشت میں یہ بات بھی فراموش کر بیٹھا تھا کہ اس نے اپنی کتاب ایک پبلشر کو دے رکھی تھی۔
جمال کی اس کتاب کا نام ہے ’ماہِ عریاں‘۔ یوں یہ بات فلم کے آخر میں جا کر کھلی کہ جمال کے پردہ ء زنگاری میں کون معشوق چھپا بیٹھا تھا۔ یہ سرمد صہبائی خود ہی تھے جن کے تازہ شعری مجموعے کا نام بھی ’ماہِ عریاں‘ ہے۔ یعنی سرمد صہبائی صاحب نے فلم کے نام سے یہ سارا کھیل اپنی شاعرانہ عظمت اور شعری نظریات کی درستی کو ثابت کرنے کے لیے رچایا تھا۔ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر صاحب جانے انجانے میں اس کھیل کا حصہ بنے اور شاید انھیں اس کے لیے معاف کیا جا سکتا ہے کہ شاید انٹلیکچوئلز میں ان کی ملاقات صرف سرمد صہبائی صاحب سے ہی ہوئی تھی۔
کہانی میں اتنے زیادہ جھول ہونے کے بعد کیا یہ فلم دیکھنے کے قابل رہ جاتی ہے۔ میرا خیال ہے یہ جھول ایک اچھے ڈائریکٹر کو دور کر لینے چاہئیں تھے لیکن ڈائریکٹر نے شاید اس اسکرپٹ کو ایک تبرک کے طور پر قبول کیا تھا۔ اپنے ایک انٹرویو میں ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ وہ سرمد صہبائی سے ڈرتے تھے کیونکہ وہ تھوڑی سی بھی اونچ نیچ برداشت نہیں کرتے تھے۔سرمد صہبائی سے توقع ہے کہ انھوں نے اپنی فلم میں میر تقی میر کے اشعار درست پڑھوانے پر تو خاص طور پر اصرار کیا ہوگا۔ منظر صہبائی کی قرات تو بہت اچھی تھی، ایمان علی نے بھی شعروں کے وزن سے انصاف ہی کیا، مگر فہد مصطفی ایک دو مرتبہ شعر غلط پڑھ گئے۔
تب بھی میں یہ کہوں گا کہ یہ فلم دیکھنے کے قابل ہے۔ منظر صہبائی نے نہ صرف اشعار بلکہ نثر کی قرات بھی خوب کی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک نقاد اور انٹلیکچوئل کا کردار بھی خوب نبھایا ہے۔ ایمان علی میر تقی میر کی محبوبہ کے کردار میں خوب جچی ہیں۔ واقعی میر کی محبوبہ کو اتنا ہی خوب صورت ہونا چاہیے تھا۔ فلم کے ڈائریکٹر نے ایمان علی کی خوب صورتی نمایاں کرنے میں اپنے فن کی ساری قوتیں صرف کر دی ہیں۔ بس میں ایمان علی کے پیروں اور ہاتھوں کی جھلک واقعی دل فریب ہے۔ ایک جھول یہاں بھی موجود ہے کہ بس میں جاتی ہوئی ایمان علی کے پیروں میں سونے کی پازیب بھی موجود ہے۔ کم از کم کراچی میںتو بس میں سفر کرنے والی کوئی خاتون اس کا رسک نہیں لے سکتی۔ ایمان علی جہاں جہاں میر تقی میر کی محبوبہ کے روپ میں جلوہ گر ہوئی ہیں وہاں ان کی جلوہ آرائی اور بھی قابلِ دید ہے۔ ایک منظر میں وہ میر تقی میر کا ایک ہوس ناک شعر سنا کر میر صاحب کو آگاہ کرتی ہیں کہ اب وہ وصال کے لیے آمادہ ہیں۔ ایسے میں ان کی نوکرانی کباب میں ہڈی بن کر کمرے میں آ جاتی ہے۔ شاید یہ بتانا مطلوب ہے کہ ان دنوں ایسی قریبی ملاقاتوں کے لیے دروازوں کی اوٹ کا تکلف نہیں کیا جاتا تھا، یا پھر شاید فلم مغلِ اعظم کی یاد آ گئی ہو جس میں شہزادہ سلیم کو انارکلی کا حسین چہرہ مور کے پنکھ سے چھوتے ہوئے اس چھنال دل آرام نے دیکھ لیا تھا۔ وہ نوکرانی نواب صاحب کے تحائف کی خبر لائی ہے جسے مہتاب بیگم بہ سر و چشم قبول کر لیتی ہیں۔ اس پر میر صاحب ناراض ہو جاتے ہیںاور بتاتے ہیں کہ وہ خواب دیکھ سکتے ہیں اور یہ کر سکتے ہیں اور وہ کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر وہ مہتاب بیگم کو بانہوں سے پکڑ کر اس کا چہرہ اپنے چہرے کے قریب لے آتے ہیں۔ اس موقع پر مہتاب بیگم کے چہرہ کسی سیڈکٹرس کے چہرے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کے ہونٹ، میر صاحب کے ہونٹوں کے بالکل نیچے، کھلے ہوئے ہیں اور اس کی آنکھیں بہت گمبھیر ہو چلی ہیں۔ اس موقع پر میر تقی میر کے بجائے فیض احمد فیض کا مصرعہ یاد آتا ہے کہ : ہائے اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ۔ خیر میر تقی میر اس موقع پر مہتاب بیگم کو شعر پر شعر سنائے چلے جاتے ہیں، حالانکہ ایسا موقع تو نثر کا موقع ہوتا ہے اور اچھے اچھے شاعر اس موقع پر شاعری چھوڑ کر یہ کہتے ہیں کہ ’حالا نثرِ ما بشنو‘۔ لیکن اس موقع پر ڈائریکٹر کو یاد آ گیا کہ وہ یہ فلم پاکستان میں بنا رہے ہیں اور یوں لبوں کی تشنگی تشنہ ہی رہ جاتی ہے۔
فلم میں میر تقی میر کی دو غزلیں بہت اچھی طرح گائی اور فلمائی گئی ہیں۔ مہتاب بیگم، جنھیں مصنف نے نواب آصف الدولہ کے دربار کی رقاصہ بنایا ہے اور اس پر عدم تیقن کو ہمیں اس فلم کی خاطر معرضِ التواء میں رکھنا ہے، یہاں بھی بہت خوب صورت دکھائی دیتی ہیں۔ وہ میر تقی میر کے اشعار اپنے بھید بھائو کے ساتھ سناتی ہیں تو معانی کی کچھ نئی جہات سامنے آتی ہیں۔ ایک غزل میں میر کا یہ مصرعہ بھی آتا ہے کہ: ’’اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک‘‘۔ ایمان علی کی دشمنِ ایماں پرفارمنس میں اس مصرعے کا ایک نیا مفہوم سامنے آتا ہے جو دیگر مفاہیم سے کہیں زیادہ دل فریب ہے۔ گانوں میں ایک اور خاتون رقص کرتی دکھائی دیتی ہیں اور یہ بات کہنے کے لیے کسی ماہرِ رقص کی ضرورت نہیں کہ ان کا رقص بالکل بھی خوش گوار نہیں۔
کہانی میں جتنے جھول ہیں ان کا خمیازا سب سے زیادہ فہد مصطفی کو بھگتنا پڑا۔ ایک سین میں وہ البتہ خوب جچے جس میں ان کا دوست سراج دبئی جانے سے پہلے ان سے آخری ملاقات کرتا ہے۔ البتہ جی یہ چاہتا تھا کہ میر تقی میر کے کردار میں ان کا لہجہ اس لہجے سے کچھ مختلف ہوتا جو انھوں نے جدید دور کے شاعر جمال کے کردار کے لیے اپنایا۔ جدید شاعر جمال کو اپنا شین قاف درست رکھنے کے لیے تصنع کی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی میر تقی میر کے کردار کو۔ فہد مصطفیٰ نے میر کے کردار سے کافی انصاف کیا مگر جب میر صاحب اپنے ہی شعر وزن سے خارج کر دیتے ہیں تو سوچیے میر کے مداحوں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔ البتہ علی خان نے نواب صاحب کا چھوٹا سا کردار خوب نبھا لیا۔ سراج کے کردار میں پارس مسرور ٹھیک رہے۔ ہما نواب بھی ڈاکٹر کلیم کی سابق محبوبہ کے روپ میں ایک مختصر کردار میں ظاہر ہوئیں۔ ان کی ڈاکٹر کلیم سے اچانک ملاقات کو فلم کی تکنیکی زبان میں ’پلاٹ پوائنٹ‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ پلاٹ پوائنٹ فلم میں زبردست قسم کی ڈرامائیت پیدا کرنے کا موجب بن سکتا تھا مگر منظر صہبائی اس موقع پر فلم میں پہلی مرتبہ دبے دبے سے رہے۔ اپنی موت کے سین میں وہ انتہائی غیر موثر نظر آئے۔ جہاں جہاں اپنی آواز سے ایکٹ کرنا تھا وہاں وہ انتہائی کام یاب رہے لیکن فزیکل ایکٹنگ کرتے ہوئے وہ ویسے کام یاب نہ ہو سکے۔
ارے میں تو آپ کو یہ بتانے چلا تھا کہ فلم کی کہانی میں اتنے زیادہ جھول ہونے کے باوجود کیا یہ فلم دیکھنے کے قابل ہے اور بتا یہ گیا کہ اداکاروں کی اداکاری میں تھوڑے بہت مسائل موجود ہیں۔ لیکن شرط لگا کر یہ کہوں گا کہ ایمان علی کسی ڈرامے، کسی فلم میںاتنی خوب
صورت نظر نہیں آئیں جتنا انجم شہزاد نے انھیں اس فلم میں پیش کیا ہے۔ انھیں میر کی محبوبہ کے روپ میں دیکھنا ایک خوش گوار تجربہ ہے جس کے لیے فلم کا ٹکٹ خریدنا کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔ اردو کے عظیم شاعر پر ایک فلم بنائی گئی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی ہی چاہیے۔
کہانی میں جھول نہ ہوتے اور سرمد صہبائی اس فلم کو اپنی مخصوص افتادِ طبع یا ایڈیوسنکریسیز سے محفوظ رکھتے تو یہ ایک یادگار فلم بن سکتی تھی۔کیا خبر یہی وہ ’وحشت‘ ہو جسے وہ اس فلم کے ذریعے حق بجانب ثابت کرنا چاہتے ہوں۔ لیکن فلم کی صنف ان کی اس وحشت کا بوجھ برداشت نہ کر پائی۔ سو اب سرمد صہبائی کو میر کی زبان میں یہی کہنا چاہیے کہ ع: لائق اپنی وحشت کے اس عرصے کا میدان نہیں۔