Laaltain

ماں تجھے سلام

27 اگست، 2013

youth-yell-inner

عمر سلیم

لکھنے کے لیے موضوع تلاش کرنا میرے لیے کبھی مسئلہ نہیں رہا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں دن کے ۲۴ گھنٹوں میں سیکڑوں مسائل سیاست ، ریاست، ضرورت اور غربت کی کوکھ سے جنم لینے کے بعد لکھاریوں کے سامنے اپنی نگہداشت کے لیے کھڑے ہوجاتے ہوں ،وہاں لکھنے کیلئے موضوع نہ ملنا میرے لیے باعثِ حیرت ہے۔ہونا تو یوں چاہئیے تھا کہ میں بھی جشنِ آزادی کو موضوع بناتا ، حالات کو لفظوں کے کپڑے پہناتا اور آزادی کے گیت گاتا ،مگردو ہفتے قبل 13 اگست کی رات کوابھی میں اپنے قلم اور دماغ کو ہم آہنگ کیے لفظوں کی بے ساکھیاں اپنے جذبات کے لیے تلاش کرنے میں محو تھا تو کمرے کی دیوار پر آویزاں گھڑی نے۱۲ بجا دیے۔ادھر کیلنڈر کی تاریخ بدلی تووزیرِاعظم ہاؤ س سے لے کر گورنر ہاؤسز ٹمٹماتی ہوئی روشنیوں میں نہاگئے،کئی تقریبات میں قومی ترانہ پڑھا گیا،سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں پر ملک کا پرچم لہرایا گیا، شہروں کی گلیاں اور گھر جھنڈیوں سے سجائے گئے، ٹی وی چینلز کی دن بھر کی نشریات میں ملی نغمے چلائے گئے اور ماضی کی کئی نایاب تصویریں جن پر وقت کی دھول نے بسیرا کر رکھا تھا جھاڑ پونچھ کر پھر سے نمائش میں رکھ دی گئیں۔خلاصہ کچھ یوں کہ یوم آزادی پر ملک بھرمیں ہرسومسرت کا سماں تھاہر جگہ خوشیاں منائی گئیں۔مگر کیا کروں اندر کی کیفیت کچھ عجیب طرح کی ہے۔اس برس کے یوم آزادی سے اب دو ہفتے بعدبھی لکھنے بیٹھوں توکہیں محبت سامنے کھڑی ہوتی ہے تو کہیں نفرت پھوٹنے لگتی ہے ۔ذرا سی خوشی ملتی ہے تو اتنے میں غم دروازے پر دستک دینے لگتا ہے ۔میں رونا بھی چاہتا ہوں اور مسکرانا بھی ۔عجب کشمکش ہے ۔میری طرح یہ حالت میری ماں کی بھی ہے، وہ بھی اسی کیفیت سے دوچار ہے۔جسے اپنے بچوں پر کبھی غصہ آتا ہے تو کبھی پیار۔اسے وہ وقت یاد ہے جب اس کی گود میں ۳ کروڑ کے لگ بھگ بچے اپنی پرورش کے لیے پر تول رہے تھے ۔اس ماں نے اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں بارہا اپنا استحصال دیکھا ہے ۔وہ جب اپنے ہی بچوں کوآپس میں آگ لگاتا دیکھتی ہے تو دن کے اُجالے اور رات کے اندھیرے میں سسکیاں بھرتی ہے۔اس کے آنسو اس کی اپنی ہی آغوش میں گر کر امر ہو جاتے ہیں ۔وہ ماں ہے اور براہِ راست اپنی اولاد سے شکوہ و شکایت کا حق رکھتی ہے۔
دنیااب اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکی ہے،زمانہ بدل گیا ہے ۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے جو ماں اپنا پیٹ کاٹتی رہی ، اب بچے اپناتن ڈھانپنے کو اسی ماں کی چادر نوچ رہے ہیں ۔اپنے بچوں کی برہنگی چھپاتے چھپاتے اپنا تن ننگا کر بیٹھی ہے ۔ لیکن پاکستان میں بسنے والوں میں سے ۸۸ فیصد اب بھی خواب دیکھتے ہیں۔۔سہانے مستقبل کے خواب۔ سماجی انصاف، برابری اور خوشحالی کے خواب۔ ایسے خواب جن میں تن ڈھانپنے کو کپڑا اور پیٹ بھرنے کو روٹی ہے۔
خواب دیکھنے پر پابندی کیسی؟ خواب تو ۱۹۴۷ سے پہلے بھی دیکھے اور بعد میں بھی ، آمروں کے آنے اور جانے پر، ووٹ پڑنے اور حکومتیں ٹوٹنے پر،جج بحال ہونے اورجمہوری طریقے سے اقتدار منتقل ہونے پر، ہر باراس قوم نے خوابوں کے ٹکسالوں میں نئے خواب ڈھالے اوراب پھر بہتر مستقبل کے خواب نے آنکھوں میں پھر ڈیرہ ڈال لیا۔خوابوں کا یہ سلسلہ نجانے کب تک جا ری رہے گا،آنے والے حالات کیسے ہونگے؟ کوئی نہیں جانتامگر مجھے یقین ہے کہ یہ دھرتی تا قیامت سلامت رہے گی۔میں اپنی ماں کے لیے لفظوں کی بیساکھیاں اٹھانے سے قاصر ہوں ،پھر بھی دعاؤں کے سہارے ابھی بھی اتنے کمزور نہیں پڑے، خواب دیکھنے والی آنکھیں ابحی روشن ہیں۔۔۔خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے وہ فصلِ گُل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

One Response

  1. عمر بھائی بہت خوب لکھا ہے آپ نے۔۔ جاری رکھیں۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔۔۔ اس ملک کے حالات ضرور بدلیں گے کیونکہ اس قوم کے نوجوانوں نے خواب دیکھنے شروع کردئیے ہیں،، خوشحالی اور انصاف کے خواب،، معاشی آسودگی اور ہر ایک کےلیے ایک خوبصورت زندگی کے خواب،،، اور جس قوم کے نوجوانوں کے پاس ہوتے ہیں وہ کبھی بانجھ نہیں ہوسکتی ۔۔۔ خوش رہیں اور آباد رہیں۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

  1. عمر بھائی بہت خوب لکھا ہے آپ نے۔۔ جاری رکھیں۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔۔۔ اس ملک کے حالات ضرور بدلیں گے کیونکہ اس قوم کے نوجوانوں نے خواب دیکھنے شروع کردئیے ہیں،، خوشحالی اور انصاف کے خواب،، معاشی آسودگی اور ہر ایک کےلیے ایک خوبصورت زندگی کے خواب،،، اور جس قوم کے نوجوانوں کے پاس ہوتے ہیں وہ کبھی بانجھ نہیں ہوسکتی ۔۔۔ خوش رہیں اور آباد رہیں۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *