دو ہفتوں سے جاری آزادی اور انقلاب مارچ نے اب تک ایک ہی کامیابی حاصل کی ہے اور وہ کامیابی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے منہاج القرآن کی مدعیت میں ایف آئی آر کا اندراج ہےجس پر قادری صاحب ، میڈیا اور تمام دانشور بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے ایف آئی آر کےاندراج پراصرار جاری رکھا ۔چونکہ ابھی تحقیقات ہونا باقی ہیں اور اس پر فیصلہ آنا بھی باقی ہے اس لئے قادری صاحب کے ایف آئی آر کے غلط اندراج اور دہشت گردی کی دفعات شامل نہ کرنے کے اعتراضات اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اس کیس کو قانونی طورپر لڑنے کا اعادہ کیا ہے ) شاید اسی قانون کے تحت جسے وہ قانون خیال کرتے ہیں( جیسے بھرپور قانونی کارروائی ماڈل ٹاؤن میں کی گئی یا پھر ویسی قانونی لڑائی جو ایف آئی آر کے اندراج کی راہ میں رکاوٹیں اٹکانے کیلئے کی گئی،مسلم لیگ نواز کے طرز عمل کی وضاحت آنے والا وقت کرے گا۔
پولیس کاروائی کے دوران شہید ہونے والوںمیں سے کسی کو بھی اس اسلحے کے فائر نہیں لگے جو پولیس نے منہاج القرآن سے قبضہ لئے ہیں۔ماڈل ٹاون میں شہید ہونے والے بعض لوگ ایسے بھی تھےجن کو اونچائی سے فائر کر کے مارا گیا تھاجبکہ سات لوگ ایسے تھے جن کو سیدھا فائر کر کے مارا گیا۔
مجیب الرحمان شامی نے 13 اگست کو شہباز شریف صاحب کا انٹر ویو کیا اور ان سے واضح سوال پوچھا کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ابھی تک منظر عام پر کیوں نہیں آئی جس کا جواب وزیر اعلٰی صاحب نے یہ دیا کہ اس کا ایک پروسیس ہے ابھی رپورٹ ان تک پہنچے ہی نہیں، جیسے ہی پہنچے گی تو اسے منظر عام پر لے آیا جائے گا۔ عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے مندرجات ایک نجی ٹی وی چینل (دنیا نیوز)پرنشر کئے جانے کے باوجودوزیراعلیٰ پنجاب نے رپورٹ عوام کے سامنے لانے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دیے جانے پراستعفیٰ دینے کا وعدہ تاحال پورانہیں کیا ۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کا اہم ترین پہلو کمیشن کے سربراہ جسٹس باقر کی جانب سے کمیشن کوذمہ داروں کا تعین کرنے کی بجائےمحض تحقیقات کا مینڈیٹ دیا جانا ہے جس کا انہیں افسوس ہے۔ رپورٹ کے مطابق منہاج القرآن کے سامنے موجود بیرئیرز قانونی تھے اور پنجاب حکومت سےمنظوری کے بعد پولیس آپریشن کیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ پولیس نے وہی کچھ کیا جس کا حکومت نے حکم دیا ۔باقی تفاصیل سے گریز کرتے ہوئے اگر صرف یہی انکشاف کہ منہاج القرآن کے سامنے جو بیرئیرز لگائے گئے تھے وہ قانونی تھے اور پولیس کی کاروائی حکومت کی اجازت سے تھی،حقیقت حال واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔رپورٹ کے بعد انتظامیہ اور منہاج القرآن کے موقف میں سے درست کا فیصلہ تو مزید تحقیق کے بعدعدالت ہی کر سکے گی ۔
سانحہ ماڈل ٹاون سے متعلق اہم ترین سوال یہ ہے کہ پولیس کو کاروائی اور ٹی ایم او کوطاقت کے استعمال کا حکم کس نے اور کیوں دیا؟یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس کاروائی کے لئے سحری کے وقت کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا، کیا یہ اشتہاریوں کے خلاف کارروائی تھی؟ کیا ٹی ایم او نے منہاج القرآن کے نمائندوں سے بیرئیرز ہٹانے سےمتعلق بات چیت کی؟ ڈی آئی جی آپریشنز، سات عدد ایس پیزاور پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی بھی بہت سے سوال کھڑے کرتی ہے۔اس آپریشن کا حکم وزیراعلیٰ نے نہ بھی دیا ہو تو انتظامیہ کی کاروائی کی صورت میں حکومت کو ذمہ داری لینا پڑتی ہے۔ شہباز شریف کے طرز حکومت سے واقف افراد کسی بھی طرح شہباز شریف کے اس واقعہ سے لاعلم ہونے پر یقین نہیں کر سکتے۔ وزیر اعلٰی کے بیان کے مطابق انہیں اس واقعہ کا علم نو سے ساڑھے نو بجے کے درمیان ہواتھا جبکہ شہباز شریف صاحب کے معاملے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ علیٰ الصبح جاگ جاتے ہیں اور سات بجے کے قریب ان کو اخبارات کے تراشے مل جاتے ہیں ،ایک ٹی وی ٹکر پر ایکشن لے لینے والے وزیراعلیٰ کو ماڈل ٹاؤن میں ہونے والےواقعہ کا علم ساڑھے نو بجے ہونا ہونا بعیدازقیاس ہے۔یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اس معاملہ کی ذمہ داری پولیس پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے جو اسلئے ماننا مشکل ہےکیوں کہ اس واقعہ کے دوران خان بیگ صاحب اپنے آفس کا چارج چھوڑ رہے تھے اور نئے آئی جی سکھیرا صاحب چارج سنبھال رہے تھے اور پولیس اس وقت اس حالت میں نہیں تھی کہ اتنا بڑا فیصلہ سیاسی قیادت کی مرضی کے بغیر اپنے طور پر کر سکے۔سیکرٹری ٹوچیف منسٹر توقیر شاہ صاحب اور رانا ثنا اللہ کے کردار سے متعلق بھی ابہام ہے کہ آیا ڈاکٹر توقیر شاہ صاحب نے راناثناء اللہ اور ہوم سیکرٹری تک آپریشن ختم کرنے کے احکامات پہنچا دیے تھے یا نہیں اور کیا ایسے کوئی احکامات دیے بھی گئے تھے یا نہیں۔ اس حوالے سے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اگر ایسے احکامات دیے گئے تھے تو ان پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاسکا۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کا اہم ترین پہلو کمیشن کے سربراہ جسٹس باقر کی جانب سے کمیشن کوذمہ داروں کا تعین کرنے کی بجائےمحض تحقیقات کا مینڈیٹ دیا جانا ہے جس کا انہیں افسوس ہے۔ رپورٹ کے مطابق منہاج القرآن کے سامنے موجود بیرئیرز قانونی تھے اور پنجاب حکومت سےمنظوری کے بعد پولیس آپریشن کیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ پولیس نے وہی کچھ کیا جس کا حکومت نے حکم دیا ۔باقی تفاصیل سے گریز کرتے ہوئے اگر صرف یہی انکشاف کہ منہاج القرآن کے سامنے جو بیرئیرز لگائے گئے تھے وہ قانونی تھے اور پولیس کی کاروائی حکومت کی اجازت سے تھی،حقیقت حال واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔رپورٹ کے بعد انتظامیہ اور منہاج القرآن کے موقف میں سے درست کا فیصلہ تو مزید تحقیق کے بعدعدالت ہی کر سکے گی ۔
سانحہ ماڈل ٹاون سے متعلق اہم ترین سوال یہ ہے کہ پولیس کو کاروائی اور ٹی ایم او کوطاقت کے استعمال کا حکم کس نے اور کیوں دیا؟یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس کاروائی کے لئے سحری کے وقت کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا، کیا یہ اشتہاریوں کے خلاف کارروائی تھی؟ کیا ٹی ایم او نے منہاج القرآن کے نمائندوں سے بیرئیرز ہٹانے سےمتعلق بات چیت کی؟ ڈی آئی جی آپریشنز، سات عدد ایس پیزاور پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی بھی بہت سے سوال کھڑے کرتی ہے۔اس آپریشن کا حکم وزیراعلیٰ نے نہ بھی دیا ہو تو انتظامیہ کی کاروائی کی صورت میں حکومت کو ذمہ داری لینا پڑتی ہے۔ شہباز شریف کے طرز حکومت سے واقف افراد کسی بھی طرح شہباز شریف کے اس واقعہ سے لاعلم ہونے پر یقین نہیں کر سکتے۔ وزیر اعلٰی کے بیان کے مطابق انہیں اس واقعہ کا علم نو سے ساڑھے نو بجے کے درمیان ہواتھا جبکہ شہباز شریف صاحب کے معاملے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ علیٰ الصبح جاگ جاتے ہیں اور سات بجے کے قریب ان کو اخبارات کے تراشے مل جاتے ہیں ،ایک ٹی وی ٹکر پر ایکشن لے لینے والے وزیراعلیٰ کو ماڈل ٹاؤن میں ہونے والےواقعہ کا علم ساڑھے نو بجے ہونا ہونا بعیدازقیاس ہے۔یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اس معاملہ کی ذمہ داری پولیس پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے جو اسلئے ماننا مشکل ہےکیوں کہ اس واقعہ کے دوران خان بیگ صاحب اپنے آفس کا چارج چھوڑ رہے تھے اور نئے آئی جی سکھیرا صاحب چارج سنبھال رہے تھے اور پولیس اس وقت اس حالت میں نہیں تھی کہ اتنا بڑا فیصلہ سیاسی قیادت کی مرضی کے بغیر اپنے طور پر کر سکے۔سیکرٹری ٹوچیف منسٹر توقیر شاہ صاحب اور رانا ثنا اللہ کے کردار سے متعلق بھی ابہام ہے کہ آیا ڈاکٹر توقیر شاہ صاحب نے راناثناء اللہ اور ہوم سیکرٹری تک آپریشن ختم کرنے کے احکامات پہنچا دیے تھے یا نہیں اور کیا ایسے کوئی احکامات دیے بھی گئے تھے یا نہیں۔ اس حوالے سے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اگر ایسے احکامات دیے گئے تھے تو ان پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاسکا۔
سانحہ ماڈل ٹاون کے بعدشہباز شریف کے پاس وزیراعلیٰ رہنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہتا، انہیں آزادانہ تحقیقات کے لئے اپنے عہدے سےخود ہی ہٹ جانا چاہئے کیوں کہ تفتیشی ادارے شہباز شریف صاحب کے اقتدار میں ہوتے ہوئے ہائی کورٹ کے حکم پر کٹنے والی ایف آئی آر کی تحقیقات درست اور منصفانہ نہیں کر سکتے۔
جوائنٹ انویسٹی گیشن )جے آئی ٹی (ٹیم کی رپورٹ کے اردو حصہ کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رپورٹ پولیس کی جانب سے کاٹی گئی پہلی ایف آئی آر کو سامنے رکھ کر اسے درست ثابت کرنے کیلئےتیار کی گئی ہے۔ پولیس اور آئی بی کے سرکاری اثر میں ہونے کی وجہ سے ان اداروں کی رپورٹ قابل بھروسہ نہیں ہو سکتی یہی وجہ ہے کہ اس رپورٹ میں محض ایک اختلافی نوٹ شامل ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاون کی جے آئی ٹی رپورٹ میں بہت سے سوالات کے جواب نہیں دیے گئےمثلاًجائے سانحہ سے قبضہ میں لیا جانے والا اسلحہ لائسنس یافتہ تھا یا نہیں،مذکورہ اسلحہ منہاج القرآن کے گارڈز یا عملہ کی ملکیت تھا یا نہیں، کیا انگلیوں کے نشانات کی جانچ کی گئی، فورنزک ٹیسٹ کرایا گیا یا نہیں اور ان ٹیسٹوں کے کیا نتائج نکلے؟یہ نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ پولیس کاروائی کے دوران شہید ہونے والوںمیں سے کسی کو بھی اس اسلحے کے فائر نہیں لگے جو پولیس نے منہاج القرآن سے قبضہ لئے ہیں۔ماڈل ٹاون میں شہید ہونے والے بعض لوگ ایسے بھی تھےجن کو اونچائی سے فائر کر کے مارا گیا تھاجبکہ سات لوگ ایسے تھے جن کو سیدھا فائر کر کے مارا گیا۔ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ بعض مقامات پر سوچ سمجھ کر اونچائی پر اسنائپرز کو بٹھایا گیا تھا۔اگر پولیس کے اس موقف کو درست تسلیم کر لیا جائے کہ اشتعال منہاج القرآن کی جانب سے دلایا گیا تو بھی خواتین کی ہلاکتوں کا دفاع ممکن نہیں۔ کیا ان خواتین نے پولیس پر فائرنگ کی تھی، خودکش جیکٹ زیب تن کر رکھی تھی اور دھماکہ کرنے والی تھیں جو ان خواتین کو مارا گیا۔
سانحہ ماڈل ٹاون کے بعدشہباز شریف کے پاس وزیراعلیٰ رہنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہتا، انہیں آزادانہ تحقیقات کے لئے اپنے عہدے سےخود ہی ہٹ جانا چاہئے کیوں کہ تفتیشی ادارے شہباز شریف صاحب کے اقتدار میں ہوتے ہوئے ہائی کورٹ کے حکم پر کٹنے والی ایف آئی آر کی تحقیقات درست اور منصفانہ نہیں کر سکتے۔مسلم لیگ نواز کی ہٹ دھرمی اور اقتدار سے چپکے رہنے کی ہوس کی وجہ سے عمران خان اور طاہر القادری کے مارچ کو عوامی حمایت اور ہمدردی حاصل ہوئی ۔ بہت سے وفاقی وزراء اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کےارکان کا کہنا ہے کہ طاہر القادری صاحب کا ایف آئی آر کے اندراج کا مطالبہ حکومت مان چکی ہےجس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی جا چکی ہیں مگرقادری صاحب تو نظام لپیٹنا چاہتے ہیں۔ ان تمام صاحبان کی خدمت میں عرض ہے کہ اس نظام کے خلاف ہی طاہر القادری نے پاکستان آنے کا اور انقلاب لانے کا اعلان کیا تھا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن اسی اعلان کے رد عمل میں حکومت سے سرزد ہواتھا،اصل معاملہ قانون کی عمل داری اورآئین کےنفاذ کا ہے ۔ ان مطالبات سے انکار نہ حکومت کو ہے نہ حزب اختلاف کو اس لئے ان پر مذکرات میں کوئی حرج نہیں۔
سانحہ ماڈل ٹاون کے بعدشہباز شریف کے پاس وزیراعلیٰ رہنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہتا، انہیں آزادانہ تحقیقات کے لئے اپنے عہدے سےخود ہی ہٹ جانا چاہئے کیوں کہ تفتیشی ادارے شہباز شریف صاحب کے اقتدار میں ہوتے ہوئے ہائی کورٹ کے حکم پر کٹنے والی ایف آئی آر کی تحقیقات درست اور منصفانہ نہیں کر سکتے۔مسلم لیگ نواز کی ہٹ دھرمی اور اقتدار سے چپکے رہنے کی ہوس کی وجہ سے عمران خان اور طاہر القادری کے مارچ کو عوامی حمایت اور ہمدردی حاصل ہوئی ۔ بہت سے وفاقی وزراء اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کےارکان کا کہنا ہے کہ طاہر القادری صاحب کا ایف آئی آر کے اندراج کا مطالبہ حکومت مان چکی ہےجس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی جا چکی ہیں مگرقادری صاحب تو نظام لپیٹنا چاہتے ہیں۔ ان تمام صاحبان کی خدمت میں عرض ہے کہ اس نظام کے خلاف ہی طاہر القادری نے پاکستان آنے کا اور انقلاب لانے کا اعلان کیا تھا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن اسی اعلان کے رد عمل میں حکومت سے سرزد ہواتھا،اصل معاملہ قانون کی عمل داری اورآئین کےنفاذ کا ہے ۔ ان مطالبات سے انکار نہ حکومت کو ہے نہ حزب اختلاف کو اس لئے ان پر مذکرات میں کوئی حرج نہیں۔
وزیر اعظم کی جانب سے آرمی چیف کو ثالثی اور معاملہ ختم کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کرنا اور اس بارے پارلیمان سے غلط بیانی کرنا ایک ایسا غیر جمہوری فیصلہ ہے جسے تاریخ ہمیشہ ایک ایسے لمحہ کے طور پر یاد رکھے گی جب دلیل کا ساتھ دینے کی دُہائی دینے والوں نے اپنا اقتدار بچانےکوغلیل والوں سے مدد مانگی
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دھرنے بے اثر ہیں اور حکومت کو ان پر کوئی ردعمل نہیں دکھانا چاہئے، گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک دانشور حکومت کو مشورہ دے رہے تھے کہ خاموشی سے بیٹھے رہیں ،کوئی رد عمل ظاہر نہ کریں، ٹس سے مس نہ ہوں اور گیند عمران خان اور طاہر القادری کے کورٹ میں رہنے دیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ طاہر القادری اور عمران خان بھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوں، قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں اور اسی طرح بیٹھے رہیں۔ اس وقت کسی کو یہ خیال نہیں کہ پاکستان کیا کھورہا ہے، پاکستان کی حکومت اور ریاست کی ساکھ عالمی سطح پر تباہ ہو رہی ہے، جاری دھرنوں اور مذاکرات کی ناکامی کے باعث معیشت کی تنزلی کا اثرسٹاک مارکیٹ کے انڈیکس سے لے کرتھوک اورپرچون فروش تک پہنچ چکا ہے۔ سیاسی بحران کے باعث دو ممالک کے رہنما اپنا دورہ منسوخ کر چکے ہیں۔ ریاست کے نمائندہ اداروں کو یرغمال بنانے کی بجائے ابھی انقلاب اور آزادی مارچ کے پاس بہت سے جمہوری راستے ہیں جن کے ذریعہ وہ حکومت سے مطالبات منوا سکتے ہیں؛ دونوں جماعتیں مختلف شہروں کے لوگوں کو متحرک کرسکتی ہیں، پر امن احتجاج جاری رکھ سکتی ہیں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق لوگوں کو اپنے منشور کی حمایت کے لئے سڑکوں پر لا سکتے ہیں۔
وزیر اعظم کی جانب سے آرمی چیف کو ثالثی اور معاملہ ختم کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کرنا اور اس بارے پارلیمان سے غلط بیانی کرنا ایک ایسا غیر جمہوری فیصلہ ہے جسے تاریخ ہمیشہ ایک ایسے لمحہ کے طور پر یاد رکھے گی جب دلیل کا ساتھ دینے کی دُہائی دینے والوں نے اپنا اقتدار بچانےکوغلیل والوں سے مدد مانگی، یوں لگتا ہے جیسے یہ تماشا صرف اپنا اقتدار بچانے کے لیے تھاجمہوریت کے لئے نہیں۔ یہ رویے اقتدار پرستوں کے ہوتے ہیں عوام کے خادموں کے نہیں ہوتے۔
وزیر اعظم کی جانب سے آرمی چیف کو ثالثی اور معاملہ ختم کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کرنا اور اس بارے پارلیمان سے غلط بیانی کرنا ایک ایسا غیر جمہوری فیصلہ ہے جسے تاریخ ہمیشہ ایک ایسے لمحہ کے طور پر یاد رکھے گی جب دلیل کا ساتھ دینے کی دُہائی دینے والوں نے اپنا اقتدار بچانےکوغلیل والوں سے مدد مانگی، یوں لگتا ہے جیسے یہ تماشا صرف اپنا اقتدار بچانے کے لیے تھاجمہوریت کے لئے نہیں۔ یہ رویے اقتدار پرستوں کے ہوتے ہیں عوام کے خادموں کے نہیں ہوتے۔
Leave a Reply